مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Friday, February 4, 2011

سوشل میڈیا کا معاشرے میں بڑھتا ہوا کردار

تیونس میں آنیوالے چنبیلی انقلاب کی گونج پوری دنیا میں محسوس کی جا رہی ہے ۔ تجزئیہ نگار حیران ہیں کہ کس طرح صحافتی آزادیوں سے محروم ایک قوم اٹھ کھڑی ہوئی اور چند دنوں کے اندر ملک میں انقلاب برپا کر دیا ۔ آج کی حقیقت یہ ہے کہ صدر زین العابدین سعودی عرب میں جلاوطن ہو چکے ہیں ، ان کے کئی رشتہ دار ہلاک ، زخمی یا گرفتار ہیں جبکہ عوامی طاقت کا یہ طوفان آنیوالے دنوں میں مزید کیا تبدیلیاں لائے گا اس بارے میں ابھی تک کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ تیونس میں آنیوالے اس انقلاب کی یقینا بہت سی وجوہات ہوں گی جن میں بیروزگاری ، غربت ، لاقانونیت وغیرہ شامل ہیں تاہم اس انقلاب کا جو پہلو سب سے اہم ہے وہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی اہمیت ہے ۔ ظلم سے ٹکرانے کی خواہش تیونس کے لاکھوں لوگوں کے دلوں میں سالوں سے پرورش پا رہی ہو گی لیکن اس کو طاقتور آواز سوشل میڈیا نے ہی بنایا ۔ ملک میں صحافتی آزادی نہ ہونے کی وجہ سے میڈیا عوامی جذبات کی صیح ترجمانی کرنے سے قاصر تھا ۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی بدولت ہی یہ ممکن ہوا کہ لاکھوں لوگوں کی خواہش ایک لاوا بن کر پھوٹی اور ملک میں انقلاب برپا کر ڈالا ۔ میڈیا کی نئی صورتوں میں شمار کئے جانیوالے انٹرنیٹ اور موبائل فون پیغامات اب سیاست میں بھی اہم ترین کردار ادا کرنے لگے ہیں ۔ انہوں نے عوام کو اظہار کی طاقت دی ہے اور محکوم لوگ اپنے جذبات کی بھڑاس نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ یہ صورتحال مختلف ممالک پر ڈکٹیٹر بن کر بیٹھے حکمرانوں کا ہوش اڑانے کے لئے کافی ہے ۔ تیونس کے صدر زین العابدین کے فرار کے ساتھ ہی عرب دنیا میں ایک لطیفہ تیزی سے گردش کرنے لگا ۔ یہ پیغام مغربی طاقتوں کی پشت پناہی پر کئی سالوں سے حکومت پر قابض مصری صدر حسنی مبارک کے لئے تھا ۔ اس کی عبارت کچھ یوں تھی کہ زین العابدین کو جدہ لیجانے والا طیارہ شرم الشیخ میں مزید سواریاں لینے کے لئے اترے گا ۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حکمرانوں سے تنگ اور سامراج سے آزادی کے خواہشمند نوجوان طبقے کے حوصلے اس حد تک بلند ہوچکے ہیں کہ وہ اب نظام حکومت کو بزور طاقت بدلنے کے لئے پرتول رہے ہیں ۔ یہ کہانی صرف تیونس یا مصر کی نہیں بلکہ اس کو عوامی خواہشات کا خون کرنیوالے ہر حکمران کے لئے تنبیہ قرار دیا جا رہا ہے ۔ ابلاغ عامہ کے ماہرین تو کافی عرصے سے اس موضوع پر بحث کا آغاز کر چکے ہیں کہ آنیوالے دور میں سوشل میڈیا عالمی سیاست میں اہم ترین کردار ادا کرے گا ۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس حوالے سے کمتر درجہ رکھتے ہیں کیونکہ مالکان اور چند مخصوص صحافیوں کو رام کرکے ان کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے لیکن موبائل فون اور انٹرنیٹ میڈیا کے بارے میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ چنبیلی انقلاب ذرائع ابلاغ کی ان نئی اقسام کا پہلا کارنامہ نہیں ہے بلکہ گزشتہ چند سالوں میں ایسی کئی مثالیں سامنے آئی ہیں کہ جب موبائل فون اور انٹرنیٹ کی بدولت بڑے پیمانے پر عوامی طاقت کا اظہار کیا گیا۔ شاید بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہوں کہ مقبوضہ کشمیر میں شدت اختیار کرجانیوالی تحریک آزادی کے پیچھے بھی اسی سوشل میڈیا کی طاقت کارفرما ہے ۔ فیس بک پر اعلان ہوتا ہے کہ ٹھیک اس وقت کرفیو توڑا جائے گا ، موبائل فون سے ایس ایم ایس بھیجے جاتے ہیں ۔ پیغام رسانی تیزی سے وقوع پذیر ہوتی ہے اور اعلان کے مطابق ہزاروں افراد بیک وقت سڑکوں پر موجود ہوتے ہیں ۔ بھارتی فوج کے لئے یہ صورتحال یقینا پریشان کن ہوتی ہے کیونکہ کرفیو کی خلاف ورزی کرنیوالے ایک دو کشمیریوں کو شہید کرنا تو ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن ہزاروں کی ریلی پر گولی چلانا اتنا آسان نہیں ہوتا ۔ اور اگر گولی چلا بھی دی جائے تو شہید یا زخمی ہونیوالوں کی ویڈیوز اور تصاویر منٹوں میں انٹرنیٹ پر پھیلا دی جاتی ہیں جس سے بھارتی حکومت بڑے پیمانے پر لعن طعن کا نشانہ بنتی ہے اور عوامی اشتعال میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ موبائل فون کے ذریعے پیغام رسانی سے عوامی طاقت کے اظہار کی ایک اور مثال فلپائن میں سامنے آئی کہ جب دو ہزار ایک میں صدر جوزف ایسٹراڈا کو معافی دینے کے معاملے پر لاکھوں افراد دارالحکومت منیلا میں جمع ہو گئے ۔ یہ سب لوگ تیزی سے پھیلائے جانیوالے ستر لاکھ سے زائد ایس ایم ایسز کے نتیجے میں جمع ہوئے تھے جن میں پارلیمنٹ کے اس فیصلے پر بھرپور احتجاج ریکارڈ کرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ آخر کار پارلیمنٹ کے ارکان نے عوامی طاقت کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ، صدر کے خلاف الزامات سامنے لائے گئے اور تین دن کے اندر جوزف ایسٹراڈا کو عہدہ چھوڑنا پڑا ۔ٍ امریکہ ، پاکستان سمیت دنیا بھر کے کئی حکمران ان دنوں وکی لیکس ویب سائٹ کی کاررستانیوں کے باعث پریشان ہیں ۔ یہ بھی آن لائن میڈیا کی طاقت کا نتیجہ ہے کہ ایسا مواد جو کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے زریعے سامنے لانا شاید ممکن ہی نہ ہوتا وہ ویب سائٹ کے زریعے بے نقاب ہو چکا ہے۔ وکی لیکس کی ویب سائٹ پر مواد آنے کے بعد ہی دیگر ذرائع ابلاغ اس کو زیر بحث لائے ہیں ۔ تیونس کے انقلاب میں بھی وکی لیکس کے انکشافات کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ ان میں صدر اور اس کے حواریوں کی جانب سے کرپشن کے قصے سامنے آئے تھے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون میڈیا کی اہمیت کے پیش نظر اب بہت سی حکومتیں ، ادارے ، جماعتیں اور رہنما اس کو کافی اہمیت دینے لگے ہیں ۔ وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز ٹوئٹر پر اپنے کاو ¿نٹ کو باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں اور ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا تھا کہ چند دن کے اندر لاکھوں مداحوں کا نیٹ ورک بنانا ایک خوشگوار تجربہ ہے۔ ہوگوشاویز نے امریکہ مخالف نظریات میں اپنے حامی کیوبا اور بولیویا کے حکمرانوں کو بھی سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر اپنے اکاو ¿نٹ بنانے کا مشورہ دیا ہے تاکہ اپنے پیغامات کو تیزی سے پھیلایا جا سکے ۔ نائیجیریا کے صدر گڈلک جوناتھن سوشل میڈیا کے اس قدر گرویدہ ہیں کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل صدارتی انتخابات میں دوبارہ حصہ لینے کا اعلان کسی پریس کانفرنس یا تقریر کی بجائے فیس بک پر سٹیٹس لکھ کر کیا ۔ ایسی رپورٹس سامنے آ چکی ہیں کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں انٹرنیٹ پر شئیر کیے جانیوالے مواد پر نظر رکھتی ہیں ۔ سی آئی اے نے امریکی ریاست فلاڈلفیا سے تعلق رکھنے والی کولین لاروز کو فیس بک پر اس کے مشکوک پیغامات کی بنیاد پر ہی گرفتار کیا تھا ۔ امریکی اداروں نے دعوی کیا کہ جہاد جینز کے نام سے مشہور یہ عورت اپنے ایک مسلمان ساتھی کے ساتھ ملکر بھرتی مہم چلا رہی تھی اور اس نے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے ذریعے کئی افراد کو جہاد کے لئے بھرتی کیا تھا ۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل برطانیہ میں کچھ پاکستانی طلبہ کو مشکوک ای میلز کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ۔ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے انٹرنیٹ پر اپنے خلاف مواد کا جواب دینے کے لئے ڈیجیٹل آو ¿ٹ ریچ ٹیم بنائی گئیں ہیں ۔ ان کا کام انٹرنیٹ پر کہیں بھی جاری ہونیوالے مواد کا توڑ کرنا ہے ۔ اگر آپ کسی بھی سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ یا پھر سوشل فورمز پر مشتمل ویب سائٹ پر امریکہ کے خلاف کوئی تحریر لکھیں گے تو امریکی محکمہ خارجہ کے تحت قائم اس ڈیجیٹل آو ¿ٹ ریچ ٹیم کے ارکان فوری طور پر اس کا جواب دیں گے ۔ اس ٹیم کے ارکان نہ صرف انگش کے ساتھ ساتھ اردومواد پر بھی نظر رکھتے ہیں ۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ فیس بک کے بانی مارک ذکربرگ کم عمرترین ارب پتی کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں اور انہوں نے ایک دو سالوں کے اندر اتنی دولت سمیٹی ہے کہ جو نیویارک ٹای ¿مز اور سی این این کے مالکان کئی عشروں میں حاصل نہیں کر سکے ۔ ہمارے ہاں پاکستانی سیاسی جماعتیں بھی انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافہ کر رہی ہیں ۔ عدلیہ کی آزادی کے لئے چلائی گئی تحریک کو پرجوش بنانے میں انٹرنیٹ نے بھی اہم ترین کردار ادا کیا تھا ۔ ایس ایم ایس ، ای میلز اور سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے زریعے بھرپور مہم چلائی گئی جس کے انتہائی مفید نتائج برآمد ہوئے تھے۔حال ہی میں مسلم لیگ نواز کی جانب سے ہر شہر کی سطح پر ای میل اور فیس بک اکاو ¿نٹ بنائے گئے ہیں جن کی مدد سے اپنے رہنماو ¿ں کی سرگرمیوں کو عام کیا جاتا ہے ۔ فیس بک کے یہ اکاو ¿نٹ مخالف سیاسی جماعتوں پر تنقید اور کسی خاص مسئلہ پر رائے عامہ ہموار کرنے میں بھی اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں ۔ عمران خان کی جماعت بھرپور انٹرنیٹ مہم چلا رہی ہے جبکہ ایس ایم ایس کے ذریعے بھی نوجوان نسل کو متاثر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ اسی طرح سابق صدر پرویز مشرف کو بھی اپنے فیس بک صفحے پر لاکھوں مداحوں کی موجودگی پر ناز ہے ۔ ملک کی تمام چھوٹی بڑے سیاسی ، سماجی اور مذہبی جماعتوں کی ویب سائٹس موجود ہیں اور ہر کوئی اپنے استطاعت کے مطابق ذرائع ابلاغ کی اس قسم کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔
چنبیلی انقلاب اور دیگر مقامی و عالمی واقعات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ذرائع ابلاغ کی یہ نئی اقسام آنیوالے وقت میں عوامی طاقت کے اظہار کا اہم ترین ذریعہ بننے والی ہیں ۔ لوگ اس قسم کے میڈیا پر اعتماد کرتے ہیں اور ہر ایک کو کھل کر اپنے جذبات کے اظہار کا موقع بھی مل جاتا ہے ۔ سوشل اور سائبر میڈیا کی اہمیت کے پیش نظر ضروری ہے کہ اس کے درست استعمال کے لئے کوششیں تیز کی جائیں ۔اس قسم کا میڈیا ہمارے ملک میں طاقتور حلقوں کے استحصال کا شکار طبقات کے لئے امید کی نئی کرن بھر کر ابھرا ہے اور لوگ بھرپور طریقے سے اس کو اظہار خیال کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ خاص کر دینی اور نظریاتی حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ذریعے پیغام رسانی کا استعمال بڑھائیں ۔ نیوز لیٹرز ، بلاگز ، آڈیو ویڈیو شئیرنگ ویب سائٹس ، سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے ۔ ان وسائل کو انتشار اور بدامنی پھیلانے کی بجائے اچھی روایات کی ترویج کے لئے استعمال ہونا چاہیے ۔ سماجی اور دینی حلقے بھرپور منصوبہ بندی اور پیشہ ورانہ اصولوں پر عمل پیرا ہو کر غیر ملکی کلچر کے اثرات میں کمی ، بہودگی اور فحاشی کی روک تھام ، ملکی روایات کے فروغ جیسی منازل حاصل کر سکتے ہیں ۔مختلف سماجی اور دینی تنظیموں کی جانب سے ڈیجیٹل آو ¿ٹ ریچ ٹیم کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جو کہ انٹرنیٹ پر جاری ہونیوالے ایسے مواد کا جواب دے سکے جو کہ ملک اور مذہب کے خلاف ہو ۔ اسی طرح موبائل کلپس سے عوامی شعور کی بیداری کا کام لیا جا سکتا ہے تو ایس ایم ایس روزانہ کی بنیاد پر اچھی باتوں کو پھیلانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔ ای میلز ، آن لائن گروپس ، چیٹنگ اور دیگر سہولیات سے فائدہ اٹھا کر بڑے پیمانے پر پڑھے لکھے طبقے تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ موبائل ٹونز معاشرتی اقدار کے اظہار کا ذریعہ بنتی جا رہی ہیں تو دوسری جانب آن لائن آڈیو ویڈیو چیٹنگ فورمز کے ماحول کو بھی مثبت طریقے سے بدلنے کی ضرورت ہے ۔ اچھی ویب سائٹس کے ذریعے ملک اور مذہب کے بارے میں بیرونی پروپیگنڈے کا بھرپور جواب دیا جا سکتا ہے ۔ فیس بک اور ٹوئیٹر جیسی سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کی اہمیت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔ یہ ہر قسم کے مواد کو پھیلانے کا باعث ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر اس میدان کو شرپسندی پھیلانے پر مامور قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو اس سے معاشرتی بگاڑ جنم لینے کا خدشہ ہے اس لئے صیح اسلامی اور ملکی روایات کے امین حلقوں کا فرض ہے کہ وہ اس بارے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ انٹرنیٹ اور موبائل فون پر لوگوں کی جانب سے پھیلائے گئے پیغامات اور ان کے جذبات کا احساس کرے ۔ ضروری نہیں کہ عوامی اشتعال کے بے قابو ہونے کا ہی انتظار کیا جائے بلکہ بہت سے طوفانوں کو اچھی منصوبہ بندی سے روکا جا سکتا ہے ۔ ایسی ڈیجیٹل آو ¿ٹ ریچ ٹیمیں بنائی جائیں جو کہ اعلی حکام تک عوامی جذبات پہنچائیں اور ان خدشات سے آگاہ کریں جو کہ ملکی سلامتی کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی کے پیش نظر انداز حکمرانی بھی بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ معلومات کی فراوانی کی بدولت اب عوام ہر ظلم پر احتجاج کرتے ہیں ، بھرپور اظہار خیال کرتے ہیں اور اپنے جذبات کو بڑے پیمانے پر پھیلا دیتے ہیں ۔ حکمرانوں کو سوچنا ہوگا کہ انہیں میڈیا کے اس جدید چیلنج سے کس طرح نمٹنا ہے ۔ جہاں صاحب اقتدار حلقے عوامی رائے کا احترام کرتے ہیں وہاں مثبت معاشرتی تبدیلی آتی ہے اور ترقی کے دروازے کھلتے ہیں اور جہاں عوامی خواہشات کا گلہ دبانے کی کوشش ہوتی ہے وہاں ” چنبیلی انقلاب “ برپا ہوتے ہیں ۔

میڈیا کا مذہبی استعمال

دور حاضر میں ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے باعث ہونیوالی معاشرتی تبدیلیوں نے میڈیا کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے ۔ معاشرے کے ہر طبقے کے لیے ضروری ہو چکا ہے کہ وہ اپنے پیغام اور نظریات سے آگاہی اور ان کے فروغ کے لیے ذرائع ابلاغ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں صرف وہی اقوام اور نظریات عالمی منظر نامے پر حاوی نظر آتے ہیں کہ جو میڈیا کے میدان میں بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کر چکے ہیں ۔ میڈیا میں کم سرگرمی کا مظاہرہ کرنیوالے دینی ، سیاسی ، سماجی غرض ہر قسم کے طبقات کی مقبولیت میں کمی آئی ہے ۔ عالمی سطح پر اور خاص کر پاکستان میں دینی طبقے نے بھی ذرائع ابلاغ کو اپنے لیے مواقف بنانے پر زیادہ توجہ نہیں دی ۔ اسلام کی سچی تعلیمات اور قرآن و سنت کا بھرپور علم ہونے کے باوجود اس کے ابلاغ کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی کوششیں نہیں کی گئیں جس کے باعث ملک میں سیکولر طبقہ حاوی نظر آتا ہے اور خاص کر میڈیا کے میدان میں تو اس کی کافی حد تک اجارہ داری قائم ہو چکی ہے ۔ بلخصوص الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے انتہائی کم توجہ دی گئی ہے ۔ اس مضمون کا مقصد عالمی سطح پر اور خاص کر مغربی ممالک میں الیکٹرانک میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے دینی مقاصد کے لیے استعمال کو زیر بحث لانا ہے ۔ مغربی دنیا میں ذرائع ابلاغ کے تمام قابل ذکر اور بڑے اداروں پر یہود ی مالکان یا تو قابض ہیں یا پھر اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے ان کی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی میڈیا ہی یہودی مذہب اور عیسائی مذہب کی جدید تشریحات کا ترجمان نظر آتا ہے ۔ سیکولرازم کے سب سے بڑے دعویدار امریکہ میں میڈیا کو کس حد تک مذہبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کے لیے سابق امریکی صدر جانس کی تقریر نویس خاتون صحافی گریس ہالسلز کی ” نئی صلیبی جنگ سے متعلق کتاب Forcing God's Hand سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں ۔ یہ کتاب دو ہزار ایک میں لکھی گئی ۔ کتاب میں اس موضوع پر گفتگو کی گئی ہے کہ کس طرح امریکی کی اندرونی اور بیرونی پالیسیاں عیسائی بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے زیر اثر بنتی ہیں ۔ یہ طبقہ میڈیا کے میدان میں بھی بھرپور اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ کتاب کے اکتسابات مندرجہ ذیل ہیں ۔
رائل اولس شیگن کے جیک وین امپی ہر ہفتے اپنی تقریر نشر کرتے ہیں اور نوے سے زیادہ چینل پر خطاب کرتے ہیں ۔ ان میں ٹرینی براڈ کاسٹنگ مذہبی نیٹ ورک ، امریکہ کے ۳۴ ریڈیو سٹیشن اور ٹرانس ورلڈ ریڈیو ، جو دنیا بھر میں سنا جاتا ہے ، شامل ہے
چارلس ٹیلر جن کا تعلق ننگٹن بیچ ( کیلیفورنیا) سے ہے۔ اپنے نشرئیے میں ” بائبل کی پیشن گوئی آج کے لئے “ نامی پروگرام کرتے ہیں جو کہ سٹیلائیٹ کے ذریعے بیس سے زیادہ نشرگاہوں سے دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے ۔
چک اسمتھ کا ریڈیو پروگرام سینکڑوں نشرگاہوں سے سنا جاتا ہے اور کالوری سیٹلائیٹ نیٹ ورک سے بھی نشر ہوتا ہے۔ کوسٹامیسا ( کیلیفورنیا) میں ان کا ” کالوری چینل “ ہے جس کے ۵۲ ہزار ارکان ہیں ۔ امریکہ میں ان کے چھ سو سے زائد کالوری چینل ہیں اور بین الاقوامی طور پر ایک سو سے بھی زائد کالوری چینل ہیں۔
پال کراو ¿چ کا ٹرینٹی براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک ہے جو یوم قیامت کے بارے میں پیش گوئیاں نشر کرتا ہے۔ یہ پورے امریکہ میں دیکھا جاتا ہے۔
کراو ¿چ کا لاس اینجلز میں ہفتے کی صبح کو اپنا ریڈیو پروگرام ہوتا ہے۔ جبکہ وہ کاو ¿نٹ ڈاو ¿ن نیوز جرنل بھی شائع کرتے ہیں۔
جیمز ڈالبسن ، کولوریڈو میں مذہبی پروگرام کے براڈ کاسٹر ہیں ۔ وہ ایک تحریک کے بانی بھی ہیں ” خاندان پر توجہ “ کے بانی ہیں ۔ اس کے ارکان بیس لاکھ سے زائد اور پورے ملک میں ۴۳ شاخیں ہیں۔ وہ ہر ہفتے دو کروڑ ۸ لاکھ افراد تک پیغام پہنچاتے ہیں۔
لیوس پلاو ¿ ایک مذہبی مبلغ ہیں ۔ انہوں نے ۷۶ اقوام سے خطاب کرتے ہوئے ایک کروڑ بیس لاکھ سے گفتگو کی ہے ۔۔ ان کا ہفتہ وار ٹی وی پروگرام ہے ۔۔ وہ ہر روز تین ریڈیو پروگرام نشر کرتے ہیں جنہیں بائیس ملکوں میں سنا جاتا ہے۔
پیٹ رابرٹسن نے ورجینا بیچ میں کرسچن براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک تعمیر کیا جس کی ہر سال نو کروڑ ستر لاکھ ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔۔ اس کے منافع پر کوئی ٹیکس بھی نہیں۔۔

اپنے بی سی این میں انہوں نے فیملی چینل بنایا جو کہ امریکہ میں ساتواں سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔۔ وہ خود پروگرام بھی کرتا ہے۔ بعد میں اس نے اپنا فیملی چینل فاکس ٹیلی ویژن کو ایک ارب نوے کروڑ میں بیچ دیا۔ مصنفہ کی تحقیق کے مطابق مذہبی سرگرمیاں زیادہ تر کرسچن کولیشن نامی تنظیم کے ذریعے ہوتی ہے اور اسے ملک کی سب سے بڑی سماجی تنظیم قرار دیا جا سکتا ہے جوکہ داخلہ و خارجہ پالیسی اور سیاست پر گہرا اثر و رسوخ رکھتی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ امریکہ میں پانچ کروڑ سے زائد بنیاد پرست عیسائی موجود ہیں جو کہ دنیا کے جلد سے جلد خاتمے کے لیے سرگرم ہیں ۔ یہی افراد یہودیوں کی بھرپور مدد کرتے ہیں ۔ امریکی میڈیا میں یہودی سب سے زیادہ اثر ورسوخ رکھتے ہیں اور اس کی بھی مذہبی وجوہات ہیں ۔ بائبل کی نئی تشریحات میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت عیسی ؑ کی دوبارہ آمد اور نجات کے لیئے ضروری ہے کہ یہودیوں کا ہیکل تعمیر ہو۔ انہی نظریات کا اثر ہے کہ عیسائی دنیا آج اسرائیل کی حمایتی نظر آتی ہے اور ایسا سیاسی نہیں بلکہ مذہبی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے۔۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیکولر ازم کے نام نہاد نعرے کے تحت مغربی ذرائع ابلاغ مذہب سے دوری کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ بہت سے سکالرز اپنی تحقیق سے یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ سیکولرازم کہ جس کو مذہب بیزاری کا نام دیا جاتا ہے بذات خود ایک مذہب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کے باقاعدہ اصول و ضوابط ہیں کہ جن کی پیروی بلکل ایسے ہی کی جاتی ہے کہ جیسے مذہبی احکام و مسائل کی ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی معاشرے کے مذہبی رجحان کو بدلنے کے لیے ہمیشہ یہی ضروری نہیں ہوتا کہ کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ کی جائے بلکہ بعض اوقات لوگوں کو ان کے عقائد اور نظریات سے دور کر دینے کے لیے بھی ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ میں اس کی مثال پاکستان میں قائم مشنری تعلیمی اداروں سے دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہمارے ملک میں کرسچن مشنری تنظیموں کی جانب سے اعلی طبقے کے لیے بڑے ہی پرکشش انداز میں تعلیمی اداروں کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ۔ وافر فنڈز اور بیرونی سرمائے کی بدولت یہ تعلیمی ادارے اپنے معیار کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ہاں کی اشرافیہ اپنے ہونہار بچوں کو ان اداروں میں بھیجتے ہیں ۔ اب اگر دیکھا جائے تو ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں میں سے بہت کم ہی عیسائیت کو قبول کرتے ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی اکثریت اسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر ناآشنا ہو چکی ہوتی ہے ۔ انتہائی چالاکی اور مہارت سے ان بچوں کے معصوم ذہنوں میں ایسا بیج بویا جاتا ہے کہ وہ زندگی کا باقی ماندہ حصہ مذہب سے دور ہی گزارتے ہیں ۔ یہی لوگ بعد میں ملک کا عنان حکومت سنبھالتے ہیں اور سکولوں میں ہونیوالی نشوونما کے زیر اثر ہی ان کے ذہن دینی طبقے سے قربت پر کبھی بھی مائل ہی نہیں ہوتے۔ ٹھیک ایسے ہی بعض طاقتیں میڈیا کی طاقت کو مسلمانوں کے دلوں سے دینی روایات اور احکام و مسائل کی عزت اور اور محبت ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں ۔ یعنی ان کو عیسائی ، یہودی یا ہندو نہیں بنایا جا رہا لیکن ایسا مواد پیش کیا جا رہا ہے کہ مسلمان دین کی اصل روح سے بیگانہ ہو جائیں ۔ دوسرا ایک بہت ہی اہم حربہ اسلامی قوانین ، تاریخ ، شخصیات ، تحریکوں وغیرہ کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا نا ہے ۔ انٹرنیٹ پر قرآن پاک کے غلط تراجم حتی کہ غلط متن تک موجود ہیں اور انتہائی منصوبہ بندی سے ان کو پھیلایا جا رہا ہے ۔ اسلام مخالف میڈیا بھرپور طریقے سے لوگوں کے دلوں میں مذہب سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے ۔ پاکستان میں حدود بل کے خلاف میڈیا ٹرائل ، ناموس رسالت ﷺ کے قانون اور اسلامی سزاو ¿ں وغیرہ کو اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ دینی جذبات رکھنے والا بندہ بھی ان سے متنفر ہو جائے ۔ اس طرح معاشرے میں ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے ہی ان قوانین کو ختم کرنے کے کوشش ہو تو زیادہ سخت ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ مغربی میڈیا نے حالیہ دنوں میں توہین آمیز مواد کی اشاعت کو بھی ایک مذہبی حربے کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کے واقعات میں میڈیا سے منسلک افراد کے واضح مذہبی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے ۔ مذہبی جماعتوں کو اور دنیا بھر میں سرگرم اسلامی تنظیموں کو انتہائی گھٹیا انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کے دل مذہب کے داعیوں سے دور ہو سکیں ۔ ایک اہم حربہ یہ بھی ہے کہ ٹی وی شوز میں ایسے سکالرز کو پروموٹ کیا جاتا ہے کہ جو مرضی کے مطابق تشریحات کر سکتے ہوں۔ اس سے مختلف مقاصد حاصل ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو مخلص دینی قیادت کو عوام کی نظروں سے ہٹا دیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب نام نہاد مذہبی سکالرز کے ذریعے دینی مسائل کی ایسی تشریح پیش کی جاتی ہے کہ جس سے مزید الجھنیں پیدا ہوتی ہیں اور معاشرے کا ایک بڑا طبقہ دین کو بوجھ سمجھ کر مذہبی روایات سے دور ہوتا جا تا ہے ۔ پاکستان میں غیر مسلم قرار دئیے جانیوالے قادیانی میڈیا کے میدان میں انتہائی سرگرم دیکھائی دیتے ہیں اور ان کے سیٹلائیٹ چینلز ملک میں پرائیوٹ چینلز کی آمد سے بھی کئی سال پہلے سے ہی سرگرم ہیں ۔ قادیانی چینلز الیکٹرانک میڈیا کو بھرپور طریقے سے مذہبی مقاصد کے لیے استعمال استعمال کرتے ہیں ۔ بھارتی میڈیا بھی ہندو مذہب کی ترویج کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ ڈراموں، فلموں اور مختلف پروگرامز میں مذہبی عنصر لازمی طور پر شامل کیا جاتا ہے ۔ ہندو دیوی دیوتاو ¿ں کا تعارف ، پوجا ، مذہبی گیت ، مذہبی

روایات وغیرہ کی بھرپور طریقے سے عکاسی نظر آتی ہے ۔ بھجن ، تلک ، گھنگرو ، پائل ، ساڑھیاں اور ایسی ہی بہت سی ہندو مت سے منسلک اشیاءمیڈیا کی بدولت ہی آج ہمارے معاشرے کا بھی حصہ بنتی نظر آتی ہیں ۔ مغربی اور ہندو میڈیا سے مقابلے کے لیے اسلامی حلقوں کو بھی اس میدان میں آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ یہ بات کافی خوش آئند ہے کہ چاہے دیر سے ہی سہی لیکن اب دینی طبقے کو الیکٹرانک اور آن لائن میڈیا کی اہمیت کا اندازہ ہو چکا ہے اور اب اس سلسلے میں تگ و دو جاری ہے۔ کسی کو بھی اس قدرتی اصول سے اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ گنوائے ہوئے وقت کا ازالہ ممکن نہیں اور اب دینی طبقے کو الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں اپنا پیغام پیش کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ محنت کی ضرورت ہو گی ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی بہتے ہوئے دریا کا منہ موڑنا ۔۔ بہرحال اگر نیت خالص ہو اور محنت کا جذبہ بھرپور ہو تو آج کے دور میں یہ کام ناممکن ہرگز نہیں ہے ۔
دینی طبقہ کے میڈیا فیلڈ میں سرگرمی دیکھاتے ہی ملک میں بلکہ عالمی سطح پر بھی اک نئی بحث نے بھی جنم لیا ہے ۔ اسلام اور اس کی تعلیمات سے تعصب رکھنے والے لوگ مختلف الزامات کے تحت دینی اور نظریات افراد کو میڈیا سے دور رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ اگر دینی علم رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں میڈیا ٹیکنالوجی آ گئی تو اس سے معاشرے میں کوئی بہت بڑا طوفان جنم لے سکتا ہے ۔ فرقہ واریت ، گروہ بندی ، اشتعال انگیز مواد وغیرہ جیسے موضوعات کو لیکر دینی ذرائع ابلاغ کے قیام میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں نیوز اور تفریحی چینل کی اجازت تو بہ آسانی مل جاتی ہے جبکہ دینی چینل کے لیے اجازت نامہ ملنا انتہائی مشکل کام ہے ۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر امریکہ اور دیگر ممالک میں میڈیا کے اتنے بڑے پیمانے پر مذہبی استعمال سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوئی تو انشاءاللہ ہمارے ملک میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوگا بلکہ مذہبی حلقوں کے میڈیا میں آنے سے بہت سی غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوگا۔ الیکٹرانک میڈیا میں ناظرین کا حلقہ بہت وسیع ہوتا ہے اور ہر مقرر اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ اس کی گفتگو صرف ایک خاص طبقے تک نہیں پہنچ رہی بلکہ ہزاروں لاکھوں لوگ سن یا دیکھ سکتے ہیں ۔ اس سے احساس ذمہ داری میں اضافہ ہوتا ہے ۔ کوئی بھی عالم دین یا سکالر من گھڑت اور اشتعال انگیز بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا کیونکہ فوری طور پر ردعمل آنے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ اس لیے نہ صرف دینی جماعتوں کو چاہیے کہ میڈیا کے استعمال میں اضافہ کریں بلکہ حکومت کو بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ انشاءاللہ آئندہ مضمون میں ان نقاط پر بحث کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ جو دینی حلقوں کو میڈیا میں کامیابی دلا سکتے ہیں

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی