مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Wednesday, December 22, 2010

میڈیا کا مذہبی استعمال

میڈیا کا مذہبی استعمال

دور حاضر میں ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے باعث ہونیوالی معاشرتی تبدیلیوں نے میڈیا کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے ۔ معاشرے کے ہر طبقے کے لیے ضروری ہو چکا ہے کہ وہ اپنے پیغام اور نظریات سے آگاہی اور ان کے فروغ کے لیے ذرائع ابلاغ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں صرف وہی اقوام اور نظریات عالمی منظر نامے پر حاوی نظر آتے ہیں کہ جو میڈیا کے میدان میں بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کر چکے ہیں ۔ میڈیا میں کم سرگرمی کا مظاہرہ کرنیوالے دینی ، سیاسی ، سماجی غرض ہر قسم کے طبقات کی مقبولیت میں کمی آئی ہے ۔ عالمی سطح پر اور خاص کر پاکستان میں دینی طبقے نے بھی ذرائع ابلاغ کو اپنے لیے مواقف بنانے پر زیادہ توجہ نہیں دی ۔ اسلام کی سچی تعلیمات اور قرآن و سنت کا بھرپور علم ہونے کے باوجود اس کے ابلاغ کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی کوششیں نہیں کی گئیں جس کے باعث ملک میں سیکولر طبقہ حاوی نظر آتا ہے اور خاص کر میڈیا کے میدان میں تو اس کی کافی حد تک اجارہ داری قائم ہو چکی ہے ۔ بلخصوص الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے انتہائی کم توجہ دی گئی ہے ۔ اس مضمون کا مقصد عالمی سطح پر اور خاص کر مغربی ممالک میں الیکٹرانک میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے دینی مقاصد کے لیے استعمال کو زیر بحث لانا ہے ۔ مغربی دنیا میں ذرائع ابلاغ کے تمام قابل ذکر اور بڑے اداروں پر یہود ی مالکان یا تو قابض ہیں یا پھر اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے ان کی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی میڈیا ہی یہودی مذہب اور عیسائی مذہب کی جدید تشریحات کا ترجمان نظر آتا ہے ۔ سیکولرازم کے سب سے بڑے دعویدار امریکہ میں میڈیا کو کس حد تک مذہبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کے لیے سابق امریکی صدر جانس کی تقریر نویس خاتون صحافی گریس ہالسلز کی ” نئی صلیبی جنگ سے متعلق کتاب Forcing God's Hand سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں ۔ یہ کتاب دو ہزار ایک میں لکھی گئی ۔ کتاب میں اس موضوع پر گفتگو کی گئی ہے کہ کس طرح امریکی کی اندرونی اور بیرونی پالیسیاں عیسائی بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے زیر اثر بنتی ہیں ۔ یہ طبقہ میڈیا کے میدان میں بھی بھرپور اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ کتاب کے اکتسابات مندرجہ ذیل ہیں ۔
رائل اولس شیگن کے جیک وین امپی ہر ہفتے اپنی تقریر نشر کرتے ہیں اور نوے سے زیادہ چینل پر خطاب کرتے ہیں ۔ ان میں ٹرینی براڈ کاسٹنگ مذہبی نیٹ ورک ، امریکہ کے ۳۴ ریڈیو سٹیشن اور ٹرانس ورلڈ ریڈیو ، جو دنیا بھر میں سنا جاتا ہے ، شامل ہے
چارلس ٹیلر جن کا تعلق ننگٹن بیچ ( کیلیفورنیا) سے ہے۔ اپنے نشرئیے میں ” بائبل کی پیشن گوئی آج کے لئے “ نامی پروگرام کرتے ہیں جو کہ سٹیلائیٹ کے ذریعے بیس سے زیادہ نشرگاہوں سے دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے ۔
چک اسمتھ کا ریڈیو پروگرام سینکڑوں نشرگاہوں سے سنا جاتا ہے اور کالوری سیٹلائیٹ نیٹ ورک سے بھی نشر ہوتا ہے۔ کوسٹامیسا ( کیلیفورنیا) میں ان کا ” کالوری چینل “ ہے جس کے ۵۲ ہزار ارکان ہیں ۔ امریکہ میں ان کے چھ سو سے زائد کالوری چینل ہیں اور بین الاقوامی طور پر ایک سو سے بھی زائد کالوری چینل ہیں۔
پال کراو ¿چ کا ٹرینٹی براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک ہے جو یوم قیامت کے بارے میں پیش گوئیاں نشر کرتا ہے۔ یہ پورے امریکہ میں دیکھا جاتا ہے۔
کراو ¿چ کا لاس اینجلز میں ہفتے کی صبح کو اپنا ریڈیو پروگرام ہوتا ہے۔ جبکہ وہ کاو ¿نٹ ڈاو ¿ن نیوز جرنل بھی شائع کرتے ہیں۔
جیمز ڈالبسن ، کولوریڈو میں مذہبی پروگرام کے براڈ کاسٹر ہیں ۔ وہ ایک تحریک کے بانی بھی ہیں ” خاندان پر توجہ “ کے بانی ہیں ۔ اس کے ارکان بیس لاکھ سے زائد اور پورے ملک میں ۴۳ شاخیں ہیں۔ وہ ہر ہفتے دو کروڑ ۸ لاکھ افراد تک پیغام پہنچاتے ہیں۔
لیوس پلاو ¿ ایک مذہبی مبلغ ہیں ۔ انہوں نے ۷۶ اقوام سے خطاب کرتے ہوئے ایک کروڑ بیس لاکھ سے گفتگو کی ہے ۔۔ ان کا ہفتہ وار ٹی وی پروگرام ہے ۔۔ وہ ہر روز تین ریڈیو پروگرام نشر کرتے ہیں جنہیں بائیس ملکوں میں سنا جاتا ہے۔
پیٹ رابرٹسن نے ورجینا بیچ میں کرسچن براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک تعمیر کیا جس کی ہر سال نو کروڑ ستر لاکھ ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔۔ اس کے منافع پر کوئی ٹیکس بھی نہیں۔۔

اپنے بی سی این میں انہوں نے فیملی چینل بنایا جو کہ امریکہ میں ساتواں سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔۔ وہ خود پروگرام بھی کرتا ہے۔ بعد میں اس نے اپنا فیملی چینل فاکس ٹیلی ویژن کو ایک ارب نوے کروڑ میں بیچ دیا۔ مصنفہ کی تحقیق کے مطابق مذہبی سرگرمیاں زیادہ تر کرسچن کولیشن نامی تنظیم کے ذریعے ہوتی ہے اور اسے ملک کی سب سے بڑی سماجی تنظیم قرار دیا جا سکتا ہے جوکہ داخلہ و خارجہ پالیسی اور سیاست پر گہرا اثر و رسوخ رکھتی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ امریکہ میں پانچ کروڑ سے زائد بنیاد پرست عیسائی موجود ہیں جو کہ دنیا کے جلد سے جلد خاتمے کے لیے سرگرم ہیں ۔ یہی افراد یہودیوں کی بھرپور مدد کرتے ہیں ۔ امریکی میڈیا میں یہودی سب سے زیادہ اثر ورسوخ رکھتے ہیں اور اس کی بھی مذہبی وجوہات ہیں ۔ بائبل کی نئی تشریحات میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت عیسی ؑ کی دوبارہ آمد اور نجات کے لیئے ضروری ہے کہ یہودیوں کا ہیکل تعمیر ہو۔ انہی نظریات کا اثر ہے کہ عیسائی دنیا آج اسرائیل کی حمایتی نظر آتی ہے اور ایسا سیاسی نہیں بلکہ مذہبی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے۔۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیکولر ازم کے نام نہاد نعرے کے تحت مغربی ذرائع ابلاغ مذہب سے دوری کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ بہت سے سکالرز اپنی تحقیق سے یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ سیکولرازم کہ جس کو مذہب بیزاری کا نام دیا جاتا ہے بذات خود ایک مذہب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کے باقاعدہ اصول و ضوابط ہیں کہ جن کی پیروی بلکل ایسے ہی کی جاتی ہے کہ جیسے مذہبی احکام و مسائل کی ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی معاشرے کے مذہبی رجحان کو بدلنے کے لیے ہمیشہ یہی ضروری نہیں ہوتا کہ کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ کی جائے بلکہ بعض اوقات لوگوں کو ان کے عقائد اور نظریات سے دور کر دینے کے لیے بھی ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ میں اس کی مثال پاکستان میں قائم مشنری تعلیمی اداروں سے دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہمارے ملک میں کرسچن مشنری تنظیموں کی جانب سے اعلی طبقے کے لیے بڑے ہی پرکشش انداز میں تعلیمی اداروں کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ۔ وافر فنڈز اور بیرونی سرمائے کی بدولت یہ تعلیمی ادارے اپنے معیار کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ہاں کی اشرافیہ اپنے ہونہار بچوں کو ان اداروں میں بھیجتے ہیں ۔ اب اگر دیکھا جائے تو ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں میں سے بہت کم ہی عیسائیت کو قبول کرتے ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی اکثریت اسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر ناآشنا ہو چکی ہوتی ہے ۔ انتہائی چالاکی اور مہارت سے ان بچوں کے معصوم ذہنوں میں ایسا بیج بویا جاتا ہے کہ وہ زندگی کا باقی ماندہ حصہ مذہب سے دور ہی گزارتے ہیں ۔ یہی لوگ بعد میں ملک کا عنان حکومت سنبھالتے ہیں اور سکولوں میں ہونیوالی نشوونما کے زیر اثر ہی ان کے ذہن دینی طبقے سے قربت پر کبھی بھی مائل ہی نہیں ہوتے۔ ٹھیک ایسے ہی بعض طاقتیں میڈیا کی طاقت کو مسلمانوں کے دلوں سے دینی روایات اور احکام و مسائل کی عزت اور اور محبت ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں ۔ یعنی ان کو عیسائی ، یہودی یا ہندو نہیں بنایا جا رہا لیکن ایسا مواد پیش کیا جا رہا ہے کہ مسلمان دین کی اصل روح سے بیگانہ ہو جائیں ۔ دوسرا ایک بہت ہی اہم حربہ اسلامی قوانین ، تاریخ ، شخصیات ، تحریکوں وغیرہ کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا نا ہے ۔ انٹرنیٹ پر قرآن پاک کے غلط تراجم حتی کہ غلط متن تک موجود ہیں اور انتہائی منصوبہ بندی سے ان کو پھیلایا جا رہا ہے ۔ اسلام مخالف میڈیا بھرپور طریقے سے لوگوں کے دلوں میں مذہب سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے ۔ پاکستان میں حدود بل کے خلاف میڈیا ٹرائل ، ناموس رسالت ﷺ کے قانون اور اسلامی سزاو ¿ں وغیرہ کو اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ دینی جذبات رکھنے والا بندہ بھی ان سے متنفر ہو جائے ۔ اس طرح معاشرے میں ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے ہی ان قوانین کو ختم کرنے کے کوشش ہو تو زیادہ سخت ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ مغربی میڈیا نے حالیہ دنوں میں توہین آمیز مواد کی اشاعت کو بھی ایک مذہبی حربے کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کے واقعات میں میڈیا سے منسلک افراد کے واضح مذہبی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے ۔ مذہبی جماعتوں کو اور دنیا بھر میں سرگرم اسلامی تنظیموں کو انتہائی گھٹیا انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کے دل مذہب کے داعیوں سے دور ہو سکیں ۔ ایک اہم حربہ یہ بھی ہے کہ ٹی وی شوز میں ایسے سکالرز کو پروموٹ کیا جاتا ہے کہ جو مرضی کے مطابق تشریحات کر سکتے ہوں۔ اس سے مختلف مقاصد حاصل ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو مخلص دینی قیادت کو عوام کی نظروں سے ہٹا دیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب نام نہاد مذہبی سکالرز کے ذریعے دینی مسائل کی ایسی تشریح پیش کی جاتی ہے کہ جس سے مزید الجھنیں پیدا ہوتی ہیں اور معاشرے کا ایک بڑا طبقہ دین کو بوجھ سمجھ کر مذہبی روایات سے دور ہوتا جا تا ہے ۔ پاکستان میں غیر مسلم قرار دئیے جانیوالے قادیانی میڈیا کے میدان میں انتہائی سرگرم دیکھائی دیتے ہیں اور ان کے سیٹلائیٹ چینلز ملک میں پرائیوٹ چینلز کی آمد سے بھی کئی سال پہلے سے ہی سرگرم ہیں ۔ قادیانی چینلز الیکٹرانک میڈیا کو بھرپور طریقے سے مذہبی مقاصد کے لیے استعمال استعمال کرتے ہیں ۔ بھارتی میڈیا بھی ہندو مذہب کی ترویج کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ ڈراموں، فلموں اور مختلف پروگرامز میں مذہبی عنصر لازمی طور پر شامل کیا جاتا ہے ۔ ہندو دیوی دیوتاو ¿ں کا تعارف ، پوجا ، مذہبی گیت ، مذہبی

روایات وغیرہ کی بھرپور طریقے سے عکاسی نظر آتی ہے ۔ بھجن ، تلک ، گھنگرو ، پائل ، ساڑھیاں اور ایسی ہی بہت سی ہندو مت سے منسلک اشیاءمیڈیا کی بدولت ہی آج ہمارے معاشرے کا بھی حصہ بنتی نظر آتی ہیں ۔ مغربی اور ہندو میڈیا سے مقابلے کے لیے اسلامی حلقوں کو بھی اس میدان میں آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ یہ بات کافی خوش آئند ہے کہ چاہے دیر سے ہی سہی لیکن اب دینی طبقے کو الیکٹرانک اور آن لائن میڈیا کی اہمیت کا اندازہ ہو چکا ہے اور اب اس سلسلے میں تگ و دو جاری ہے۔ کسی کو بھی اس قدرتی اصول سے اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ گنوائے ہوئے وقت کا ازالہ ممکن نہیں اور اب دینی طبقے کو الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں اپنا پیغام پیش کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ محنت کی ضرورت ہو گی ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی بہتے ہوئے دریا کا منہ موڑنا ۔۔ بہرحال اگر نیت خالص ہو اور محنت کا جذبہ بھرپور ہو تو آج کے دور میں یہ کام ناممکن ہرگز نہیں ہے ۔
دینی طبقہ کے میڈیا فیلڈ میں سرگرمی دیکھاتے ہی ملک میں بلکہ عالمی سطح پر بھی اک نئی بحث نے بھی جنم لیا ہے ۔ اسلام اور اس کی تعلیمات سے تعصب رکھنے والے لوگ مختلف الزامات کے تحت دینی اور نظریات افراد کو میڈیا سے دور رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ اگر دینی علم رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں میڈیا ٹیکنالوجی آ گئی تو اس سے معاشرے میں کوئی بہت بڑا طوفان جنم لے سکتا ہے ۔ فرقہ واریت ، گروہ بندی ، اشتعال انگیز مواد وغیرہ جیسے موضوعات کو لیکر دینی ذرائع ابلاغ کے قیام میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں نیوز اور تفریحی چینل کی اجازت تو بہ آسانی مل جاتی ہے جبکہ دینی چینل کے لیے اجازت نامہ ملنا انتہائی مشکل کام ہے ۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر امریکہ اور دیگر ممالک میں میڈیا کے اتنے بڑے پیمانے پر مذہبی استعمال سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوئی تو انشاءاللہ ہمارے ملک میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوگا بلکہ مذہبی حلقوں کے میڈیا میں آنے سے بہت سی غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوگا۔ الیکٹرانک میڈیا میں ناظرین کا حلقہ بہت وسیع ہوتا ہے اور ہر مقرر اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ اس کی گفتگو صرف ایک خاص طبقے تک نہیں پہنچ رہی بلکہ ہزاروں لاکھوں لوگ سن یا دیکھ سکتے ہیں ۔ اس سے احساس ذمہ داری میں اضافہ ہوتا ہے ۔ کوئی بھی عالم دین یا سکالر من گھڑت اور اشتعال انگیز بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا کیونکہ فوری طور پر ردعمل آنے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ اس لیے نہ صرف دینی جماعتوں کو چاہیے کہ میڈیا کے استعمال میں اضافہ کریں بلکہ حکومت کو بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ انشاءاللہ آئندہ مضمون میں ان نقاط پر بحث کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ جو دینی حلقوں کو میڈیا میں کامیابی دلا سکتے ہیں

Friday, October 1, 2010

ملک میں تبدیلی کی باتیں اور ہمارے پیارے زرداری صاحب

تبدیلی کی باتیں اور انقلاب کے قصے سنانا ہمارے ملک کے فارغ لوگوں کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ حکومت گرانے اور نئی قیادت لانے کی کہانیاں گلی بازار کے تھڑوں سے لیکر اقتدار کے ایوانوں تک ہر جگہ سنی جا سکتی ہیں ۔ میڈیا تو اس دوڑ میں سب سے آگے نظر آتا ہے۔ ہر کالم نگار اور اینکر پرسن اپنی خواہشات کے مطابق روز ایک نیا حکومتی سیٹ اپ بنا ڈالتا ہے ۔ ملک میں ایک بار پھر تبدیلی کی ہوائیں چلتی دیکھائی دیتی ہیں ۔ شور اتنا زیادہ ہے کہ ایسے لگتا ہے کہ صدر زرداری اور ان کے حواری بس چند لمحوں کے ہی مہمان ہیں ۔ ہر کوئی انقلابی بنا نظر آتا ہے ۔ خادم اعلی شہباز شریف اور ان کے بڑے بھائی جان جناب نواز شریف اتنی بار خونی انقلاب کی دھمکی دے چکے ہیں کہ اب خود انہیں بھی یاد نہیں ہوگا کہ یہ جملہ انہوں نے کتنی بار بولا ۔الطاف بھائی تو ہیں ہی قائد تحریک اور قائد انقلاب ۔ جاگیرداروں کے خلاف ان کی بڑھکوں سے بھی انقلاب ہی پھوٹتا نظر آتا ہے ۔ عمران خان اور جماعت اسلامی والے تو ازل سے ہی سڑکوں پر تبدیلی کی راہیں تکتے نظر آتے ہیں ۔ غرض ایسے لگتا ہے کہ ملکی سیاست کا ہر بولنے والا طوطا مطلب لیڈر انقلاب کی رٹ لگانے میں ہی مصروف ہے ۔البتہ خیبر پختون خواہ کی دونوں بڑی پارٹیوں یعنی اے این پی اور مولانا صاحب کی جماعت تبدیلی کا ورد کرنے کی بجائے آرام سے اپنے مفادات کی چوری کھانے میں مصروف ہیں ۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت یہی ہے کہ آپس میں لڑتے ان سیاسی لیڈروں کو انقلاب انقلاب کے شوروغل کے باوجود موجودہ صورتحال سے صدر زرداری اور ان کے حواری انتہائی خوش دیکھائی دیتے ہیں ۔ صدر اور وزیر اعظم مظلوم بن کر ٹائم پاس کرنے میں مصروف ہیں ۔ جیسے جیسے شور بڑھ رہا ہے ویسے ویسے ہی صدر زرداری کی کرسی مضبوط ہوتی جا رہی ہے کیونکہ انہیں یقین ہے کہ روز بروز بڑھتی مہنگائی سے پریشان عوام آٹے ، چینی اور بجلی کے آنے جانے کی فکر تو کر سکتے ہیں لیکن انقلاب کی نہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت ہر روز کسی نہ کسی چیز کی قیمت بڑھانا نہیں بھولتی ۔ اس لیے میڈیا رپورٹس پر یقین کرکے تبدیلی کی آس لگانے والوں کو ابھی مزید انتظار کرنا ہو گا ۔ صدر زرداری خوشی خوشی اقتدار کے مزے اڑا رہے ہیں اور ان کے لیے اچھا شگون یہ ہے کہ تمام مخالفین انقلاب کے غبارے میں ہوا بھرنے میں مصروف ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ یہ ہوا کم اسے کم ان کے دور اقتدار تک نہیں بھری جا سکتی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس عرصے میں غبارہ ہی پھٹ جائے ۔

Monday, September 6, 2010

ہوگوشاویز کی غیرت اور ہمارے حکمران


وینزویلا لاطینی امریکہ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے ۔ تیل کی دولت سے مالا مال ہے لیکن وسائل کی کمی اور ٹیکنالوجی نہ ہونے کے باعث ابھی تک اس سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکا ۔ اسے گزشتہ کئی سالوں سے بجلی کے بحران ، غربت ، بیروزگاری سمیت کئی مسائل کا سامنا ہے ۔ لیکن ان سب دیرینہ مسائل کے باوجود وینزویلا عالمی سیاست میں ایک بھرپور آواز رکھتا ہے ۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ چھوٹا سا ملک عالمی سیاست کو متاثر کرتا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ ہر عالمی مسی ¿لے پر صدر ہوگوشاویز کا ردعمل جرات مندانہ ہوتا ہے ۔ دنیا کے طاقتور ترین ملک ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا ہمسایہ اور دور دراز ملک ہونے کے باوجود وینزویلا کی آواز مشرق وسطی سے لیکر چین اور روس میں سنی جا سکتی ہے ۔ ہوگوشاویز نے انتہائی مہارت سے ان ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کر رکھے ہیں ۔ حالیہ کچھ عرصے میں چین ، ایران اور روس سمیت کئی بڑے ممالک کے سربراہان مملکت وینزویلا کے دورے کر چکے ہیں ۔ چین اور روس کی مداخلت پر تو امریکی حکام انتہائی سیخ پا بھی نظر آتے ہیں لیکن وینزویلا کے صدر ہوگوشاویز کو اس کی ہرگز پرواہ نہیں اور وہ ملکی خودمختاری اور آزادانہ خارجہ پالیسی پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ۔ غزہ کو جانیوالے فریڈم فلوٹیلا کا مسی ¿لہ ہو یا ایران کے ایٹمی پروگرام کا تنازعہ ، افغانستان اور عراق کی جنگیں ہوں یا عالمی معاشی بحران ہوگوشاویز کسی بھی موقعے پر امریکہ ، اسرای ¿یل اور اس کے حواریوں کی خوب خبر لیتے رہتے ہیں ۔ وینزویلا مسلمان ملک نہیں لیکن اس کے باوجود اس نے غزہ کے مظلوم مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے فریڈم فلوٹیلا پر حملے کی وجہ سے وینزویلا نے اسرای ¿یل سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا ۔ وینزویلا ان دنوں ایک بار پھر عالمی خبروں میں ہے ۔ وینزویلا کے امریکی نواز ہمسایہ ملک کولمبیا کے صدر ایلویرو اریبے نے ہوگوشاویز پر اپنے ہاں سرگرم باغیوں کی مدد کا الزام لگایا ہے ۔ کولمبین صدر نے وینزویلا سے ”دہشت گردی“ کے کیمپوں کو بند نہ کرنے کی صورت میں کارروائی کی دھمکی دی ۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی تو معمول کی بات ہے لیکن سنگین الزامات پہلی مرتبہ لگائے گئے ہیں ۔ کولمبین صدر نے ویڈیو اور تصاویری ثبوت بھی پیش کیے ہیں جن میں فارک باغی تنظیم کے اہم رہنماو ¿ں کو وینزویلا میں دیکھایا گیا ہے ۔ کولمبیا کا کہنا ہے کہ وینزویلا باغی گروپوں کو اسلحہ ، تحفظ اور مالی مدد بھی دے رہا ہے ۔ کولمبیا کو اس سلسلے میں امریکہ کی بھرپور مدد حاصل ہے ۔ کولمبیا کو امید تھی کہ امریکہ کے ڈراوے کی وجہ سے شاید وینزویلا بھی پاکستان کی طرح فوری طور پر آپریشن شروع کر دے گا ۔ لیکن اس کا اثر الٹا ہوا ہے ۔ یہ الزامات سامنے آتے ہی ہوگوشاویز نے انتہائی سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا ۔ اس نے فوری طور پر کولمبیا سے اپنا سفیر واپس بلا کر سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ وینزویلا نے کولمبیا کے ساتھ پانچ ارب ڈالر کا تجارتی معاہدہ بھی منسوخ کر دیا ہے ۔ ہوگوشاویز کا موقف ہے کہ یہ الزامات وینزویلا کی خودمختاری پر حملہ ہے اس لیے کولمبین صدر فوری طور پر معافی مانگیں ۔ وینزویلا نے ہنگامی طور پر سرحدوں پر فوج کے اضافی دستے تعینات کر دئیے ہیں جبکہ جنگی طیاروں کو بھی فضائی نگرانی بڑھانے کی ہدایت کی ہے ۔ ہوگو شاویز کا کہنا ہے کہ اگر کولمبیا کی جانب سے کسی قسم کی جارحیت کی گئی تو نہ صرف بھرپور جواب دیا جائے گا بلکہ امریکہ کو تیل کی سپلائی بھی بند کر دی جائے گی ۔ امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس کی دھمکی کو نظر انداز نہیں کر سکتا کیونکہ وینزویلا اسے سستا تیل فراہم کرتا ہے ۔ اور اگر امریکی حکومت وینزویلا کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے کی کوشش کرتی ہے تو خود اس کی اپنی ریاستوں کی جانب سے سخت مخالفت کا خدشہ ہے ۔ کیونکہ اس سے سستا تیل ملنا بند ہو جائے گا اور کئی امریکی ریاستیں شدید متاثر ہوںگی ۔ اور یہی وجہ ہے کہ کولمبیا اور اس کا سرپرست امریکہ اب چپ سادھے بیٹھے ہیں اور ہوگوشاویز کی للکاروں کا جواب تک نہیں دے رہے ۔ ہوگوشاویز جو مرضی الزام لگائے یا جتنا مرضی تنقید کرے امریکہ جواب نہیں دیتا بلکہ وہ تو سابق صدر بش کو پاگل بھی قرار دے چکا ہے ۔ وینزویلا کا ایک معمولی سے الزام کے جواب میں اس قدر سخت ردعمل دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ۔ ایک ایٹمی طاقت پاکستان پر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اس کے دیرینہ دشمن بھارت میں کھڑے ہو کر الزامات کی بارش کر دیتا ہے ۔ لیکن ردعمل کیا ہوتا ہے صرف ہائی کمشنر کی طلبی اور نرم الفاظ پر مشتمل ایک احتجاجی مراسلہ ۔ تقریبا ساری اہم ملکی سیاسی قیادت صدر زرداری سے دورہ برطانیہ منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتی ہے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا ۔ ملک کے عوام سیلاب کے باعث تباہ حال ہیں لیکن صدر پاکستان کو برطانیہ میں ایک مہنگا ترین دورہ ضرور کرنا ہے ۔ کہاں ایک چھوٹے سے ملک وینزویلا کا ردعمل اور کہاں اٹھارہ کروڑ کی آبادی والی ایک ایٹمی طاقت کے حکمرانوں کا کردار ۔ یہ بات واضح ہے کہ ملکی خودمختاری ، عالمی برادری میں عزت اور وقار کا تحفظ حکمرانوں کو ہی کرنا ہوتا ہے اگر ان میں ہی احساس نہ رہے تو وہ ملک دنیا میں انتہائی کمتر سمجھے جانے لگتے ہیں ۔ جس کا دل چاہتا ہے اسے کارٹونز میں کتے کے روپ میں دیکھا دیتا ہے اور جس کا جی چاہتا ہے اس کا جھنڈا بگاڑ دیتا ہے ۔ دوسرے ممالک کے وہ چھوٹے چھوٹے اہلکار کہ جن کو اپنے ملک میں بھی کوئی نہیں پوچھتا وہ الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں اور انتہائی غلیظ حملے کرتے ہیں ۔ کاش کے ہمارے حکمران بھی عالمی برادری میں اپنی اہمیت کا احساس کر سکیں ۔ صدر ، وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کو ضرور وینزویلا جانا چاہیے اور ہوگوشاویز سے دریافت کرنا چاہیے کہ اتنی کم فوجی طاقت ، محدود وسائل اور چھوٹے سے جغرافیے کے ساتھ اس نے کیسے عالمی برادری میں عزت کمائی ہے ۔

ہمارے اصل ہیرو

ارض پاک میں آنیوالے بدترین سیلاب نے ملک کے ایک تہائی حصے کو تباہی سے دوچار کیا ہے ۔ امن و امان کی خراب صورتحال اور سیاسی ابتری کے اس دور میں سیلاب کی ناگہانی آفت نے لاکھوں پاکستانیوں کی زندگیوں کو خطرے سے دوچار کر رکھا ہے ۔ ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں تو دوسری جانب حکومتی نااہلی ، عالمی برادری کی بے حسی اور وسائل کی کمی نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے ۔ سیاستدان اور وڈیرے اپنی زمینوں کو بچانے کے لیے بند بنانے اور توڑنے میں مصروف ہیں جبکہ جماعتیں الزام تراشیوں سے کام چلا رہی ہیں ۔ لیکن مشکل کی اس گھڑی میں سب کچھ ہی مایوس کن نہیں ۔ ڈوبتے ہوئے ہم وطنوں کو بچانے اور مال و اسباب سے محروم ہونیوالوں کا آسرا بننے کے لیے درد دل اور خوف خدا رکھنے والے بہت سے لوگ بھی اپنے کام میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ سب سے پہلے پہنچنے والے اور بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیوں میں مصروف ان سرفروشوں کا تذکرہ آپ کو میڈیا میں کم ہی ملے گا ۔ شاید یہ لوگ زرائع ابلاغ کے ذریعے نمود و نمائش کے مروجہ اصولوں پر یقین نہیں رکھتے ۔ لیکن غیر ملکی میڈیا لمبی داڑھیاں چہروں پر سجائے ان افراد کو نہیں بھولا ۔ نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں پھوٹ پڑنے والے اسلام فوبیا کا اثر مغرب میں مزید بڑھتا جا رہا ہے ۔ غیر ملکی میڈیا نے ہی ہمیں بار بار یہ تلقین کی تھی کہ تمہارے ہاں کچھ ایسے لوگ بستے ہیں کہ جن سے دنیا کو خطرہ ہے ۔ اور ہمارے ہاں کے بھولے لوگوں نے یقین بھی کر لیا ۔ ممبئی حملوں جیسے واقعات کو جواز بنایا گیا اور جماعت الدعوہ اپنی لازوال فلاحی سرگرمیوں کے باوجود ملزم ٹھہرا دی گئی تاہم بعد میںاعلی عدلیہ نے تمام پابندیاں ختم بھی کر دیں ۔لیکن سیلاب کی آمد کے بعد جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاو ¿نڈیشن ایک بار بھر دنیا بھر کی نظروں میں ہے ۔ سیلاب زدہ علاقوں میں اس کے رضا کاروں کی جرا ¾ت مندانہ سرگرمیوں نے بہت سے ناقدوں کے منہ بند کر دئیے ہیں ۔ مغربی میڈیا تو بطور خاص چیخ رہا ہے کہ لوگوں کے دل جیتنے میں یہ لوگ انتہائی کامیاب رہے ہیں ۔ جانوں پر کھیل کر جانیں بچانے والے یہ لوگ ان امریکیوں اور نام نہاد این جی اوز سے کہیں آگے ہیں کہ جو اس قوم کو بے راہ روی کے راستے پر چلانے کا ایجنڈا رکھتی ہیں ۔ جنہیں دہشت گرد کہہ کر بدنام کیا جاتا تھا وہی انسانیت کے سب سے بڑے مسیحا نکلے ہیں ۔ افسوس یہ ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے حصے پر اب بھی ” کالعدم“ کی فضول اور من گھڑت اصطلاع کی آڑ میں ان امدادی سرگرمیوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ کتنا عجیب ہے کہ ہم اپنے معاشرے کے ان مسیحاو ¿ں کا تذکرہ کرنے سے صرف اس لیے ڈرتے ہیں کہ اس سے غیر ملکی ناراض ہو جائیں گے ۔ ہم اپنے لوگوں کو مغربی میڈیا کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسی لائن پر سوچتے ہیں کہ جو ہمیں غیر ملکی ذرائع ابلاغ دیکھاتے ہیں ۔ حالانکہ یہی تو موقعہ تھا کہ پاکستانی میڈیا دین دار اور انسانیت کی فلاح کا جذبہ رکھنے والی جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاو ¿نڈیشن کا انسان دوست روپ عالمی دنیا کو دیکھاتا ۔ انہیں بتایا جاتا کہ جن کے بارے میں تمہارے ذہنوں میں غلط فہمیاں ہیں ان کا اصل کردار تو یہ ہے ۔ جن کے بارے میں تم دہشت پھیلانے کا پروپیگنڈا کرتے ہو وہ تو بھوکوں کو کھانا بانٹتے ہیں ، بے آسراو ¿ں کا سہارا بنتے ہیں ، ڈوبتے ہوو ¿ں کو بچا رہے ہیں ، سسکتے ہوو ¿ں کو اپنی آغوش میں لے رہے ہیں اور بیماروں کی تیمارداری اور امداد میں سب سے آگے ہیں ۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا ۔ ملکی عہدیداروں اور میڈیا پر بدستور جمود طاری ہے ۔ جماعت الدعوہ پاکستان میں ہرگز کالعدم تنظیم نہیں اور اس حوالے سے مغربی میڈیا کا پروپیگنڈا محض قوم کو تقسیم کرنے کی سازش اور اس تنظیم کی سرگرمیوں کو روکنا اور انہیں بد دل کرنا ہے ۔ لیکن خدا کا شکر ایسا نہیں ہو سکا اور جماعت الدعوہ پہلے سے بھی زیادہ توجہ سے ریلیف کے کاموں میں مصروف ہے ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو تسلیم کیا جاتا ہے کہ
سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونیوالے علاقوں میں صرف یہی تنظیم سرگرم ہے جبکہ دوسری جانب اس کو روکنے کے مطالبات ہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایسے مطالبات کرنے والے افراد ان سیلاب متاثرین کی بے بسی کا تماشہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ غیر ملکی طاقتیں شاید یہ چاہتی ہیں کہ سیلاب متاثرین کو بھوکے مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے ۔ یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ تباہی کے بعد ہر پاکستانی غیر ملکی امداد کا محتاج ہوگا لیکن جماعت الدعوہ اور دیگر دینی جماعتوں نے بڑے پیمانے پر ریلیف سرگرمیاں سر انجام دے کر یہ منصوبہ خاک میں ملا دیا ہے اور اسی لیے اب تنقید اور الزامات کا سلسلہ جاری ہے ۔ایسی قوتوں کی کوشش یہ ہے کہ تمام تر امداد صرف نام نہاد این جی اوز کے ذریعے فراہم کی جائے اور یا پھر ایسے اداروں کے ذریعے کہ جن میں سے اکثر تو باقاعدہ عیسائیت کی تبلیغ کا فریضہ بھی سر انجام دیتے ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ اس موقعے پر غور کرے کہ وہ کونسے ادارے ہیں کہ جنہوں نے اس مشکل گھڑی میں عوام کا ساتھ دیا ہے اور کون ایسے ہیں کہ جنہوں نے محض طعنوں اور الزامات سے کام چلایا ہے ۔ خدا کرے کہ سیلاب کی یہ آزمائش غیروں اور بعض اپنوں کے ذہنوں میں بھی سرایت کر جانے والی غلط فہمیوںکو بھی بہا لے جائے اور مشکل کی اس گھڑی میں پوری قوم متحد ہو ۔ غیر ملکی قوتوں پر انخصار کی بجائے ملکی وسائل پر توجہ دی جائے ۔ جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاو ¿نڈیشن کے رضا کار سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور بیرونی عناصر کے نام نہاد پروپیگنڈے کا بھرپور جواب دیا جائے ۔ یہی ہمارے اصل ہیروز ہیں ۔



میڈیا : برائی کی جڑ یا ایک کارآمد ہتھیار



میڈیا کی حیران کن ترقی نے دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی شدید متاثر کیا ہے ۔ اس نے ہر معاشرے کی طرح ہمارے ہاں بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ میڈیا کے طاقتور اثرات کے باعث کی وجہ سے معاشرتی رویے تبدیل ہوئے ہیں جبکہ اس نے بعض روایات کو بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ میڈیا کے معاشرے پر بے پناہ اثرات کی وجہ سے ہی آج کے دور کو ذرائع ابلاغ کا دور قرار دیا جاتا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کی مختلف صورتیں ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا ( ٹی وی چینلز ۔ سی ڈی اور دیگر ویڈیوز ) ، براڈ کاسٹ یعنی ریڈیو ۔۔ سائبر میڈیا ( انٹرنیٹ ) ، پرنٹ میڈیا ( اخبار، رسائل وغیرہ ) اسی طرح موبائل فونز اور دیگر ذرائع کے ذریعے پیغام رسانی بھی زرائع ابلاغ کا حصہ ہیں ۔ تعلقات عامہ جدید دور کا اہم ترین موضوع ہے اور اسی طرح میڈیا کے دیگر میدانوں کے حوالے سے بھی معلومات اور پیشہ ورانہ تربیت کا خاطر خواہ مواد موجود ہے ۔ حکومتیں ، ادارے ۔ تنظمیں اور مختلف افراد میڈیا کو اپنے پیغامات کی اشاعت ، نظریات کے فروغ ، سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں حتی کہ بعض اوقات جنگی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ۔ترقی یافتہ دنیا میں میڈیا کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے استعمال کرنے کا آغاز کئی دہائیاں پہلے ہو چکا تاہم ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ کی آمد کو ابھی چند سال ہی ہوئے ہیں ۔ یہ ایک نیا چیلنج ہے کہ جس نے ہمارے معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح دینی حلقوں کو بھی متاثر کیا ہے ۔ میڈیا کی روایتی پریکٹس اور تفریحی مواد کی زیادتی کے باعث اسے اسلام اور سماج مخالف سمجھ لیا گیا ہے اور بہت سے حلقے تو تمام تر برائیوں کی جڑ اسے ہی قرار دینے پر مصر ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ دینی حلقوں میں یہ بات سرایت کر چکی ہے کہ میڈیا ہمارے معاشرے میں الحاد ، فحاشی ۔ غیر اسلامی روایات اور ایسی ہی منفی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے تیار کردہ ایک سازش کا حصہ ہے اور اس سے صرف اور صرف وہی کام لیا جا سکتا ہے جو کہ آجکل پاکستانی ۔ بھارتی اور مغربی میڈیا پر نظر آ رہا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دینی حلقے اس سے دور نظر آتے ہیں ۔ میڈیا کے خلاف تقاریر ، تحریروں کی بھرمار ہے حتی کہ فتوے بھی سامنے آئے ہیں لیکن اس کے اثرات کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔ تاہم کچھ مخلص حلقوں نے میڈیا کے میدان میں دینی حوالے سے سرگرمی دیکھائی ہے اور شاید اسی لیے اب کہیں کہیں میڈیا کو سمجھنے اور اس کے درست استعمال کی کوششیں بھی نظر آتی ہیں ۔ حالات کی ٹھوکروں نے میڈیا کی اہمیت تو باور کرا دی ہے لیکن دینی طبقہ ابھی تک میڈیا کے بنائے ہوئے ماحول کو سمجھنے اور اس کی موجودہ پریکٹس میں اپنے لیے راہ تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس تحریر کا مقصد میڈیا سے متعلق پائی جانیوالی غلط فہمیوں کی وضاحت اور دینی طبقے کو ایک دعوت فکر دینا ہے ۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر میڈیا ٹیکنالوجی کو دینی علوم رکھنے والے افراد مکمل پیشہ ورانہ اصولوں کے ساتھ استعمال کریں تو اسے تبلیغ دین کے لیے باآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ چلئیے ہم اس معاملے کو ایک مثال کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے بات واضح ہو جائے گی ۔ ایک ہوائی جہاز آپ کو یورپ کے عشرت کدوں یا عیاشی کے اڈوں میں لے جا سکتا ہے اور وہی مکہ مکرمہ میں حج کے لیے بھی ۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ نے کونسی سمت منتخب کی ہے اور پائیلٹ کو کیا ہدایات دی ہیں ۔ معزز علمائے کرام اور قارئیں کرام ! میڈیا ٹیکنالوجی بھی ہوائی جہاز ، موٹر کاروں اور دیگر سہولیات کی طرح ایک ایجاد ہی ہے ۔ چند آلات بنائے گئے ہیں کہ جن کو پیغام رسانی ، اپنے نظریات کے فروغ اور ان کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ اگر آپ اس کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کریں گے تو یہ آپ کا نظریہ اور پیغام ہر سو پھیلا دے گا اور اگر اس سے دور رہ کر محض تنقید سے کام چلانے کی کوشش کی تو یہ اتنا طاقتور ہے کہ آپ کی آواز کو گمنام بنا دے گا یا آپ خود ہی اس کے اثرات کے سامنے خاموش ہو جائیں گے ۔ ایک اور مثال سمجھتے ہیں کہ کیا آج کے دور میں آپ نے کوئی ایسا نیک شخص دیکھا ہے جو مکمل خلوص اور صرف اور صرف ثواب کے جذبے کے تحت پیدل حج پر جانا چاہتا ہو ۔ شاید نہیں ! کیونکہ علمائے کرام سمیت ہر کوئی اسے جہاز یا اور کوئی تیز ترین ذریعہ استعمال کرنے کی تلقین کرے گا ۔ آج ہم گاڑیوں ، کمپیوٹرز اور ایسی ہی دیگر چیزوں سے صرف اس لیے دور ہونا پسند نہیں کریں گے کہ ان کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے ۔ یہی حال میڈیا ٹیکنالوجی کا ہے ۔ یہ تو دعوت کو تیز ترین طریقے سے بڑے پیمانے پر پھیلا دینے کا ہتھیار ہے ۔ اگر ملحدین اپنا پیغام پھیلانے کے لیے ایسا مواد تیار کر سکتے ہیں کہ جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنے تو اسلامی اصولوں کے اندر رہتے ہوئے بھی ایسا مواد تیار کیا جا سکتا ہے کہ جس سے عقائد پر بھی فرق نہ آئے اور دعوت کا کام بھی ہو سکے ۔ شرط یہ ہے کہ اس کا استعمال سیکھ کر آلات کو مرضی کے مطابق چلانا سیکھا جائے ۔ سوچ و بچار کے بعد اور بھرپور تیاری سے مواد کی تیاری کے لیے کام کیا جائے ۔


س مضمون کے ذریعے دینی طبقوں کو مخاطب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہی اشاعت اسلام کا بھرپور جذبہ رکھتے ہیں اور اس کے لیے اپنا وقت اور توانائیاں صرف کرتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں دین کی جو رہی سہی جھلک نظر آتی ہے وہ مسجد و محراب کے ان وارثوں کی ہی وجہ سے ہے ۔ مدارس کے پڑھے ہوئے علماءکرام ہی ہمارے معاشرے میں دین کے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اس تحریر کا مقصد صرف ان کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اس کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی طرف توجہ دی جائے ۔ دعوت کے جذبے سے ان آلات کو اپنی آواز کفر کے ایوانوں میں پہنچانے کے لیے تصرف میں لایا جائے ۔ یقین کریں کہ میڈیا سے دوستی آپ کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو گی اور یہ آپکی دعوت کو چہار سو پھیلانے کا باعث بن سکتا ہے ۔میڈیا کے درست استعمال کے حوالے سے درپیش مسئلہ کو سمجھنے اور اس کو حل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ یہ واضح ہے کہ اسلام گوشہ نشینوں اور تارک دنیا افراد کا دین نہیں ہے اس کے ماننے والے معاشرے کے فعال رکن بن کر جیتے ہیں ۔تو پھر کیونکر دینی طبقہ کی جانب سے میڈیا کے میدان کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ابلاغ کا شعبہ معاشرے کی تشکیل میں شامل نہیں ہوتا ؟ دینی دعوت کا کام سرانجام دینے والے لوگ اور تنظیمیں کیونکر اس کے بارے میں غور نہیں کرتے ۔ کیا یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ یونیورسٹیز میں ماس کمیونیکشن کرنیوالے طلبہ جو کہ ملکی نظام تعلیم کی خرابیوں کے باعث دین کا کچھ زیادہ نظریاتی علم ہی نہیں رکھتے وہ ہی میڈیا کے میدان میں سب کی رہنمائی کریں گے ۔ دینی طبقہ کیا ان سے معجزوں کی امید لگائے بیٹھا ہے ؟ کیا یہ انتظار ہے کہ یہ لوگ میڈیا کو ایسا بنا دیں گے جو کہ دین کی دعوت کے لیے اچھا ہو اور اس سے اسلام کیا شاعت ہو سکے ؟ اگر ایسا ہے تو واقعی پریشان کن ہے کیونکہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بغیر نظریاتی علم اور ٹھوس علمی بنیاد کے صرف پیشہ ورانہ علم ہی کافی نہیں ہوتا ۔ اور میڈیا کی درست سمت کے تعین کے لیے دینی علم رکھنے والوں کو خود میدان میں آنا پڑے گا ۔
اس تحریر کا مقصد کسی کو طعنے دینا نہیں ہے بلکہ کوشش صرف یہ ہے کہ دینی علوم رکھنے والے افراد میڈیا کی جانب متوجہ ہوں ۔ یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ میڈیا کا خود اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا بلکہ اس کو چلانے والے اپنے خیالات عام کرتے ہیں ۔ اگر دینی لوگ اس کی باگ دوڑ سنبھالیں گے تو یقینا اسے ہدایت کا سرچشمہ بنایا جا سکتا ہے اور اگر کم دینی علم رکھنے والے یا بلکل ہی نابلد لوگوں کے ہاتھ میں میڈیا کی طاقت دے دی جائے تو پھر یقینا یہی کچھ ہو گا کہ جو آج آپ دیکھ رہے ہیں ۔ یونیورسٹیز کے طلبہ کے پاس اچھی دینی معلومات تو ہو سکتی ہیں لیکن نظریاتی حدود کا خیال اور معاشرتی تبدیلیوں کی دینی لحاظ سے درست سمت کا تعین وہی لوگ کر سکتے ہیں کہ جنہوں نے باقاعدہ دینی علوم حاصل کر رکھے ہوں ۔ میری مراد مدارس کے پڑھے افراد ہیں اور وہ علما جو اصل دینی مصادر سے استفادہ کرتے ہیں ۔ احادیث کے علوم سے واقف ہیں جبکہ غلط عقائد اور خالص اسلامی حکم کے درمیان فرق کر سکتے ہیں ۔ میڈیا کو تو اچھے بولنے والے چاہیے ۔ یہ واقعی المیہ ہے کہ اس وقت جو دینی پروگرام پیش کیے جا رہے ہیں ان میں ٹھوس دینی علم رکھنے والوں کی بجائے نیم دینی علم رکھنے والے لوگ غالب ہیں ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مستند دینی حلقے اچھے اینکر اور ٹی وی پر اچھے بولنے والے افراد فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ میدان جاوید غامدی اور ڈاکٹر عامر لیاقت جیسے لوگوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ اب دینی پروگراموں کو اپنے طریقے سے چلا رہے ہیں اور یہی حال ویب سائٹس ، ایف ایم ریڈیوز وغیرہ کا بھی ہے ۔ اسی طرح دینی طبقات میں اچھی کتابیں لکھنے کا رواج تو عام ہے لیکن میڈیا کے لیے مضامین نہیں لکھے جاتے ۔ ہمارے ہاں حالات حاضرہ کو دینی نقطہ نظر سے زیر بحث لانے کا انتظام نہیں ۔ آپ کو ایک ایک سو یا اس سے بھی زیادہ کتابیں لکھنے والے علمائے کرام تو مل جائیں گے لیکن کالم نگار ، فیچر نگار علماءکی تعداد انتہائی کم ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ علماءکی کتابیں انہی کے حلقے کے لوگ تو ضرور پڑھتے ہیں یا پھر اچھا ادبی ذوق رکھنے والے طبقے بلکہ اس میں مسلک اور جماعت کی تفریق بھی حائل ہو جاتی ہے ۔ جبکہ اگر یہی علماءاچھے انداز سے میڈیا میں اظہار خیال کریں ۔ کالم لکھیں ، معاشرتی مسائل پر فیچر لکھیں تو نہ صرف زیادہ بڑا طبقہ مستفید ہوگا بلکہ لوگ دین کی طرف مائل بھی ہوں گے ۔ حالات حاضرہ کو دینی نقطہ نظر سے زیر بحث لانے سے یہ بھی فائدہ ہوگا کہ علمائے کرام کے بارے میں عام تاثر بھی دور ہو گا کہ یہ وقت کے تقاضوں کو نہیں سمجھتے ۔
ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا یعنی ٹی وی ۔۔ فلم اور دیگر ویڈیوز کو ہی سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے جبکہ حققیت یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ذرائع ابلاغ کا ایک طاقتور حصہ ضرور ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کے بغیر پیغام رسانی اور نظریات کا فروغ ہی ممکن نہیں ۔ ویسے تو بہت سے دینی حلقے کچھ حدود و قیود کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا کے قائل ہو چکے ہیں لیکن اگر کوئی جماعت اس کے بغیر ہی چلنا چاہے تو بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں آنے کے لیے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے کیونکہ دینی تبلیغ کے لیے موجودہ رائج الوقت طریقے کار آمد نہیں ہوں گے ۔ دینی جماعتوں کو چاہیے کہ الیکٹرانک میڈیا میں زور آزمائی سے پہلے پہلے دیگر شعبہ جات یعنی پرنٹ میڈیا ( اخبارات و رسائل ) ، سائبر میڈیا یعنی انٹرنیٹ وغیرہ میں زیادہ کام کریں ۔ کچھ عرصہ کی مکمل پیشہ ورانہ تربیت کے بعد الیکٹرانک میڈیا کی طرف آیا جائے ۔ کیونکہ یہ ایک مہنگا کام ہے اس لیے بغیر پیشہ ورانہ تربیت کے فنڈز ضائع ہونے کا بھی خدشہ ہے ۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انٹرنیٹ ، پرنٹ میڈیا اور دیگر زرائع ابلاغ بھی کچھ کم اہمیت کے حامل نہیں ہیں اور اگر ان کو مکمل پیشہ ورانہ اصولوں سے استعمال کیا جائے تو ان سے انتہائی مفید نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ شرط صرف اور صرف یہ ہے کہ روایتی اور ڈنگ ٹپاو ¿ طریقوں سے ہٹ کر اس شعبے کی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔ پروپیگنڈا کرنا ایک مکمل سائنس کا درجہ حاصل کر چکا ہے اور اس کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے ۔ ایک وضاحت یہ بھی ضروری ہے کہ ” پروپیگنڈا“ کے لفظ کو بھی میڈیا کی طرح صرف منفی معنوں میں ہی استعمال کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ اس سے مراد پیغام کو زیادہ سے زیادہ پھیلا دینا ہے ۔ یعنی دعوت کو عام کرنا ۔ یہ منفی اور مثبت دونوں معنوں میں استعمال ہو تا ہے ۔ انشاءاللہ آئندہ کسی مضمون میں اس کی تکنیکس


کے بارے میں بھی بتانے کی کوشش کروں گا ۔ دعوتی سرگرمیوں سے منسلک علماءکرام کو ان سے متعلق جاننے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکیں ۔ انتہائی سستے طریقے موجود ہیں کہ جن کے زریعے آپ اپنی بات سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں تک با آسانی پہنچا سکتے ہیں ۔ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس ، ای میلز ، ڈیلی نیوز لیٹر ، بلاگس ، ویب سائٹس اور ایسی بہت سے چیزوں کے استعمال سے دعوتی سرگرمیوں ملکی بلکہ عالمی سطح پر پھیلایا جا سکتا ہے۔ اخبارات میں اچھے لکھنے والوں کے لیے ابھی بہت گنجائش موجود ہے جبکہ الیکٹرانک میڈیا میں اچھے بولنے والوں کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے ۔ صرف اچھے رابطے کے ذریعے میڈیا گروپس سے فوائد حاصل کیے جاتے ہیں دینی طبقہ کے میڈیا کے میدان میں زیادہ اثر و رسوخ نہ ہونے کی ایک وجہ ہے بھی ہے کہ مذہبی جماعتوں ، ذیلی تنظیموں ، بڑے دینی اداروں وغیرہ کے شعبہ اطلاعات سے منسلک افراد بھی میڈیا کی ورکنگ سے پوری طرح آگاہ نہیں اور شاید بہت سے مواقع پر تو اس عہدے کو صرف خانہ پری ہی سمجھا جاتا ہے ۔ آج کے دور میں یہ انتہائی اہم عہدہ ہوتا ہے ۔ دینی جماعتیں کسی اہم اور نامور عہدیدار کو ہی ترجمان اور اطلاعات کے شعبے کا انچارج مقرر کرنا پسند کرتی ہیں ۔ اگر کسی بڑے نام کو ہی ترجمان مقرر کرنا مقصود ہو تو بھی کم از کم اس کی مدد کے لیے ہی کسی پروفیشنل کو مقرر کر دیں ۔ ہم زندگی کے دیگر شعبوں میں ٹیکنیکل کاموں کے لیے ہنرمند افراد کی مدد لینا پسند کرتے ہیں ۔ لیکن شاید میڈیا کے لیے اس اصول کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے ۔کیا ہم اپنی گاڑی کا ڈرائیور یا عمارت کا معمار بھی محض تعلق کی بنا پر مقرر کرنا پسند کریں گے ؟ ۔ہرگز بہیں کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ اگر ایسا کیا تو اناڑی ڈرائیور ضرور حادثہ کرا دے گا اور اگر معمار ہنرمند نہ ہوا تو عمارت کو اس طرح بنائے گا کہ وہ جلد گر جائے گی ۔ شعبہ اطلاعات اور تعلقات عامہ کو مضبوط اور ماہر افراد کی زیر نگرانی ہونا چاہیے کیونکہ اس کا درست استعمال آپکی دعوت کو زیادہ تیزی سے عام کرے گا ۔ ہر ہر موقعے پر مکمل منصوبہ بندی کی جائے کہ کس مسئلے پر کیا طریقہ کار اختیار کرنا ہے ۔ کسی کے اخلاص پر شک نہیں کیا جا سکتا ۔ دینی جماعتوں کے شعبہ اطلاعات سے منسلک افراد یقینا مخلص ہوتے ہیں اور اپنے طور پر بھرپور کوشش بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود مطلوبہ نتائج صرف اس لیے حاصل نہیں ہو پاتے کہ منصوبہ بندی اور پیشہ ورانہ مہارت کی کمی ہوتی ہے ۔
اس کے علاوہ بہت سی دینی جماعتوں اور رہنماو ¿ں کو یہ اعتراض بھی ہے کہ میڈیا انہیں کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتا اور اس کا زیادہ فوکس سیاست اور دیگر تفریحی مواد کی طرف ہوتا ہے ۔ اس اعتراض سے پہلے یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا کسی دینی جماعت نے میڈیا کی تربیت کے حوالے سے کوئی ادارہ قای ¿م کیا ہے ؟ کیا میڈیا میں موجود افراد سے تعلقات بڑھانے اور ان تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں ؟ کیا دینی جماعتوں نے باقاعدہ ایسے افراد تیار کیے ہیں جو کہ میڈیا پر مخالفانہ پروپیگنڈے کا جواب دے سکیں ؟ کیا میڈیا کے لیے مواد کی فراہمی اور موجودہ پیش کیے جانیوالے مواد کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں متبادل فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہو سکا تو پھر اعتراض کیسا ؟ جب کچھ بویا ہی نہیں گیا تو کیا کاٹنے کی امید کی جا رہی ہے ۔ اگر آج میڈیا پر لادینیت اور سیکولرازم غالب نظر آتا ہے اور ایسی چیزوں کی بہتات ہے جو کہ اسلامہ تعلیمات کے خلاف ہیں تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عالمی سطح پر اسلام مخالف اداروں نے اس کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں ۔ ایسے ادارے موجود ہیں کہ جو مکمل منصوبہ بندی کے زریعے میڈیا پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ ریسرچ سینٹرز قائم کیے گئے ہیں ، سروے رپورٹس اور انکشافات کے زریعے میڈیا کو ایک خاص لائن فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اسلام مخالفت ادارے میڈیا سے منسلک ہنرمند اور تجربہ کار افراد کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی میں ایسا مواد تیار کیا جاتا ہے جو کہ بظاہر تفریح ، کھیل یا کسی بھی اور مقصد کے لیے ہوتا ہے لیکن اس کا پوشیدہ مقصد معاشرے میں لادینیت پھیلانا ہے ۔ میڈیا پر اس مواد کی اشاعت کے لیے سپانسرز ڈھونڈے جاتے ہیں اور ایک نیٹ ورک کے ذریعے اس کو عام کر دیا جاتا ہے ۔ ہیری پوٹر سیریز اور انڈین چینلز کے ڈرامے اس کی مثال ہیں ۔ ہیری پوٹر سیریز میں جادو وغیرہ کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ اس کی کتاب مارکیٹ میں آتی ہے ۔ چینلز اس کی کوریج کرتے ہیں ۔ پھر فلم بنائی جاتی ہے ۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اس کی مشہوریاں بناتی ہیں ۔ اس نام کے کھلونے اور دیگر سرگرمیاں سامنے آتی ہیں ۔ غرض ایک مکمل منصوبہ بندی کے زریعے اسے پوری دنیا میں زبان زدعام بنا دیا جاتا ہے ۔ یہی حال انڈین ڈراموں کا ہے ۔ ان میں ہندو مذہب کی بھرپور تبلیغ کی جاتی ہے ۔ خواتین کے لباس کے ایسے ڈیزائن متعارت کرائے جاتے ہیں کہ جو بے حیائی کا باعث ہوں ۔ تاجر فور ی طور پر اس قسم کے ڈیزائن کردہ لباس بازار میں لے آتے ہیں اور اس طرح ایک منصوبہ بندی کے زریعے مقصد حاصل کیا جاتا ہے ۔ اگر ہمیں میڈیا کو دینی تبلیغ اور اسلامی روایات کے فروغ کے لیے استعمال کرنا ہے تو اس کے لیے اسی قسم کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی جماعتوں کو میڈیا کے میدان میں کچھ بونے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی فصل معاشرے میں پھیلنے والے اثرات کی صورت میں کاٹ سکیں ۔۔
مسئلے کو صرف محفلوں میں زیر بحث لانا اور ” استغراللہ“ اور نعوذ با اللہ کا ورد کرتے ہوئے میڈیا میں کام کرنیوالوں کو بے دین اور اسلام مخالف قرار دینا بھی مناسب نہیں ۔ کیونکہ اس سے پریشانی حل نہیں ہو گی بلکہ خلیج بڑھتی جائے گی ۔ اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ میڈیا میں کام کرنیوالے بہرحال مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے اور ہمارے اسی مسلم معاشرے میں ہی پروان چڑھے ہیں ۔ یقین کریں کہ ان میں سے کسی کا بھی تعلق بھارت یا ہندوازم سے نہیں ہے اور نہ ہی ان کی تربیت امریکہ ، یہودی تنظیموں یا اسلام مخالف گروہوں میں سے کسی نے کی ہے ۔ یہ اسی معاشرے کے ایسے فرد ہیں کہ جنہیں نظام تعلیم کی خرابی ، دینی طبقے سے رابطے کے فقدان ، مخصوص معاشرتی معاشرتی ماحول اور دیگر عوامل نے موجودہ مقام تک پہنچا دیا ہے ۔ بات تو تلخ ہے لیکن تسلیم کرنا چاہیے کہ انہیں دینی طبقہ میڈیا کے میدان کوئی خاص رہنمائی فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے اور اب یہ لوگ مغرب اور بھارتی ثقافت میں رنگے نظر آتے ہیں ۔ دینی جماعتیں اور حلقے یہ ہی کیوں چاہتے ہیں کہ سب لوگ خود بخود ہی چل کر ان کے پاس آئیں اور آکر رہنمائی کی درخواست کریں ۔ اس بات پر کیونکر غور نہیں کیا جاتا کہ دعوت کا فریضہ تو بہرحال آپ کو ہی سرانجام دینا ہے ۔ اگر آپ اپنی دعوتی سرگرمیوں کو اچھے طریقے سے سرانجام دیں گے اور مضبوط نیٹ ورک بنائیں گے تو معاشرے کا بڑا طبقہ بشمول میڈیا آپ کے ساتھ چلے گا اور اگر ایسا نہ ہو


سکا تو یقینا مخالفین حاوی نظر آئیں گے اور محض مساجد دئیے گئے وعظ اور خطبات کام نہ آ سکیں گے ۔ دینی تعلیمات سے ہٹ کر زندگی گزارنے والوں کو بھی بہرحال کسی صورت بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ اس بحث کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ نظریات کے اس تصادم میں اسلام کی دعوت کے امین اور صاحب علم دینی حلقوں کو کچھ زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے اور خاص کر میڈیا کے میدان میں ۔ یہ بھی حققیت ہے کہ جب بھی کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی تو یہی نوجوان نسل کہ جسے دین بیزار سمجھ لیا گیا تھا وہ ہی ہراول دستہ ثابت ہوئی ۔ کشمیر اور فلسطین کی تحریک آزادی میں یونیورسٹیز کے طلبہ کا ایک بڑا کردار ہے ۔ انٹرنیٹ پر تبلیغ میں بھی بڑا حصہ حصہ ایسے افراد کا ہے جو کہ شاید کبھی کسی مدرسے نہ گئے ہوں ۔ یہ علماءکرام کی کتابوں کی تشہیر کرتے ہیں اور مطالعہ کرکے دلائل ڈھونڈتے ہیں ۔ دینی طبقے کو میڈیا سے منسلک افراد سے رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ دینی اور نظریاتی افراد کو بھی پیشہ ورانہ مہارت حاصل کرکے میڈیا کے اداروں میں داخل کرایا جا سکتا ہے۔ ۔

اس مضمون کا مقصد دعوت فکر تھا کہ ہمیں کے میدان میں ذرا تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ بلکل کام ہی نہیں ہو رہا ۔ بہت سے حلقے کوششیں کر رہے ہیں اور ان کے کچھ مفید نتائج بھی نکلے ہیں ۔ صرف یہ ہے کہ کام منظم نہیں ہے ۔ ایسا سمجھ لینا کہ لوگ میڈیا کے زریعے دین کی دعوت کو سننا ہی نہیں چاہتے بلکل ٹھیک نہیں ہے ۔ یہ میڈیا ہی ہے کہ جس کے باعث آج ڈاکٹر ذاکر نائیک کو پوری دنیا جانتی ہے ۔ مولانا سید توصیف الرحمٰن شاہ کی دعوت عام ہو رہی ہے ۔ ڈاکٹر فرحت ہاشمی عالمی سطح پر پہچان رکھتی ہے ۔ بہت سی اسلامی تنظیموں نے ایسا مواد تیار کیا ہے جو کہ واقعی پرکشش ہے اور اس کی وجہ سے ہی بہت سے لوگ مسلمان بھی ہوئے ۔ انٹرنیٹ تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے اور یورپ و امریکہ میں اتنے لوگ اس کے ذریعے مسلمان ہوئے ہیں جن تک پہنچنا شاید ویسے ممکن ہی نہ ہوتا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی موبائل ایس ایم ایس سروس سے کئی ہزار لوگ مسلمان ہو چکے ہیں ۔ فلسطینی تنظیم حماس اور لبنان میں حزب اللہ نے اپنے مقاصد کے لیے میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا ہے ۔ انہوں نے متعدد مواقع پر یہودی اور مغربی میڈیا کو شکست دی ہے ۔ یہ لوگ انتہائی مہارت سے میڈیا کو اپنے حق کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ ایران میں بھی میڈیا کی روایتی پریکٹس سے ہٹ کر متبادل فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اگر یہ سب منظم طریقے سے ہونے لگے تو کافی زیادہ اچھے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں
یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ وقتی طور پر کسی گروپ کا غلبہ دیکھ کر پریشان نہ ہوا جائے ۔۔ ایسا تو انبیاءکے دور میں بھی نہیں ہوا کہ سب لوگ ہی ہدایت یافتہ ہو گئے ہوں۔۔ یہ مقابلے کی دنیا ہے ۔۔ ہر گروہ کو اپنا اپنا کام کرنا ہوتا ہے ۔ میڈیا معاشرتی تبدیلی کا طاقتور ترین ہتھیار ہے اور دعوت کے میدان میں اس کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہیں ۔ اس لیے دینی طبقے کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا سے دور رہنے کی پالیسی کو دور کرتے ہوئے اسے اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوششوں کا آغاز کریں ۔

میڈیا : برائی کی جڑ یا ایک کارآمد ہتھیار



میڈیا کی حیران کن ترقی نے دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی شدید متاثر کیا ہے ۔ اس نے ہر معاشرے کی طرح ہمارے ہاں بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ میڈیا کے طاقتور اثرات کے باعث کی وجہ سے معاشرتی رویے تبدیل ہوئے ہیں جبکہ اس نے بعض روایات کو بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ میڈیا کے معاشرے پر بے پناہ اثرات کی وجہ سے ہی آج کے دور کو ذرائع ابلاغ کا دور قرار دیا جاتا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کی مختلف صورتیں ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا ( ٹی وی چینلز ۔ سی ڈی اور دیگر ویڈیوز ) ، براڈ کاسٹ یعنی ریڈیو ۔۔ سائبر میڈیا ( انٹرنیٹ ) ، پرنٹ میڈیا ( اخبار، رسائل وغیرہ ) اسی طرح موبائل فونز اور دیگر ذرائع کے ذریعے پیغام رسانی بھی زرائع ابلاغ کا حصہ ہیں ۔ تعلقات عامہ جدید دور کا اہم ترین موضوع ہے اور اسی طرح میڈیا کے دیگر میدانوں کے حوالے سے بھی معلومات اور پیشہ ورانہ تربیت کا خاطر خواہ مواد موجود ہے ۔ حکومتیں ، ادارے ۔ تنظمیں اور مختلف افراد میڈیا کو اپنے پیغامات کی اشاعت ، نظریات کے فروغ ، سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں حتی کہ بعض اوقات جنگی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ۔ترقی یافتہ دنیا میں میڈیا کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے استعمال کرنے کا آغاز کئی دہائیاں پہلے ہو چکا تاہم ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ کی آمد کو ابھی چند سال ہی ہوئے ہیں ۔ یہ ایک نیا چیلنج ہے کہ جس نے ہمارے معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح دینی حلقوں کو بھی متاثر کیا ہے ۔ میڈیا کی روایتی پریکٹس اور تفریحی مواد کی زیادتی کے باعث اسے اسلام اور سماج مخالف سمجھ لیا گیا ہے اور بہت سے حلقے تو تمام تر برائیوں کی جڑ اسے ہی قرار دینے پر مصر ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ دینی حلقوں میں یہ بات سرایت کر چکی ہے کہ میڈیا ہمارے معاشرے میں الحاد ، فحاشی ۔ غیر اسلامی روایات اور ایسی ہی منفی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے تیار کردہ ایک سازش کا حصہ ہے اور اس سے صرف اور صرف وہی کام لیا جا سکتا ہے جو کہ آجکل پاکستانی ۔ بھارتی اور مغربی میڈیا پر نظر آ رہا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دینی حلقے اس سے دور نظر آتے ہیں ۔ میڈیا کے خلاف تقاریر ، تحریروں کی بھرمار ہے حتی کہ فتوے بھی سامنے آئے ہیں لیکن اس کے اثرات کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔ تاہم کچھ مخلص حلقوں نے میڈیا کے میدان میں دینی حوالے سے سرگرمی دیکھائی ہے اور شاید اسی لیے اب کہیں کہیں میڈیا کو سمجھنے اور اس کے درست استعمال کی کوششیں بھی نظر آتی ہیں ۔ حالات کی ٹھوکروں نے میڈیا کی اہمیت تو باور کرا دی ہے لیکن دینی طبقہ ابھی تک میڈیا کے بنائے ہوئے ماحول کو سمجھنے اور اس کی موجودہ پریکٹس میں اپنے لیے راہ تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس تحریر کا مقصد میڈیا سے متعلق پائی جانیوالی غلط فہمیوں کی وضاحت اور دینی طبقے کو ایک دعوت فکر دینا ہے ۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر میڈیا ٹیکنالوجی کو دینی علوم رکھنے والے افراد مکمل پیشہ ورانہ اصولوں کے ساتھ استعمال کریں تو اسے تبلیغ دین کے لیے باآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ چلئیے ہم اس معاملے کو ایک مثال کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے بات واضح ہو جائے گی ۔ ایک ہوائی جہاز آپ کو یورپ کے عشرت کدوں یا عیاشی کے اڈوں میں لے جا سکتا ہے اور وہی مکہ مکرمہ میں حج کے لیے بھی ۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ نے کونسی سمت منتخب کی ہے اور پائیلٹ کو کیا ہدایات دی ہیں ۔ معزز علمائے کرام اور قارئیں کرام ! میڈیا ٹیکنالوجی بھی ہوائی جہاز ، موٹر کاروں اور دیگر سہولیات کی طرح ایک ایجاد ہی ہے ۔ چند آلات بنائے گئے ہیں کہ جن کو پیغام رسانی ، اپنے نظریات کے فروغ اور ان کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ اگر آپ اس کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کریں گے تو یہ آپ کا نظریہ اور پیغام ہر سو پھیلا دے گا اور اگر اس سے دور رہ کر محض تنقید سے کام چلانے کی کوشش کی تو یہ اتنا طاقتور ہے کہ آپ کی آواز کو گمنام بنا دے گا یا آپ خود ہی اس کے اثرات کے سامنے خاموش ہو جائیں گے ۔ ایک اور مثال سمجھتے ہیں کہ کیا آج کے دور میں آپ نے کوئی ایسا نیک شخص دیکھا ہے جو مکمل خلوص اور صرف اور صرف ثواب کے جذبے کے تحت پیدل حج پر جانا چاہتا ہو ۔ شاید نہیں ! کیونکہ علمائے کرام سمیت ہر کوئی اسے جہاز یا اور کوئی تیز ترین ذریعہ استعمال کرنے کی تلقین کرے گا ۔ آج ہم گاڑیوں ، کمپیوٹرز اور ایسی ہی دیگر چیزوں سے صرف اس لیے دور ہونا پسند نہیں کریں گے کہ ان کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے ۔ یہی حال میڈیا ٹیکنالوجی کا ہے ۔ یہ تو دعوت کو تیز ترین طریقے سے بڑے پیمانے پر پھیلا دینے کا ہتھیار ہے ۔ اگر ملحدین اپنا پیغام پھیلانے کے لیے ایسا مواد تیار کر سکتے ہیں کہ جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنے تو اسلامی اصولوں کے اندر رہتے ہوئے بھی ایسا مواد تیار کیا جا سکتا ہے کہ جس سے عقائد پر بھی فرق نہ آئے اور دعوت کا کام بھی ہو سکے ۔ شرط یہ ہے کہ اس کا استعمال سیکھ کر آلات کو مرضی کے مطابق چلانا سیکھا جائے ۔ سوچ و بچار کے بعد اور بھرپور تیاری سے مواد کی تیاری کے لیے کام کیا جائے ۔


س مضمون کے ذریعے دینی طبقوں کو مخاطب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہی اشاعت اسلام کا بھرپور جذبہ رکھتے ہیں اور اس کے لیے اپنا وقت اور توانائیاں صرف کرتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں دین کی جو رہی سہی جھلک نظر آتی ہے وہ مسجد و محراب کے ان وارثوں کی ہی وجہ سے ہے ۔ مدارس کے پڑھے ہوئے علماءکرام ہی ہمارے معاشرے میں دین کے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اس تحریر کا مقصد صرف ان کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اس کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی طرف توجہ دی جائے ۔ دعوت کے جذبے سے ان آلات کو اپنی آواز کفر کے ایوانوں میں پہنچانے کے لیے تصرف میں لایا جائے ۔ یقین کریں کہ میڈیا سے دوستی آپ کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو گی اور یہ آپکی دعوت کو چہار سو پھیلانے کا باعث بن سکتا ہے ۔میڈیا کے درست استعمال کے حوالے سے درپیش مسئلہ کو سمجھنے اور اس کو حل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ یہ واضح ہے کہ اسلام گوشہ نشینوں اور تارک دنیا افراد کا دین نہیں ہے اس کے ماننے والے معاشرے کے فعال رکن بن کر جیتے ہیں ۔تو پھر کیونکر دینی طبقہ کی جانب سے میڈیا کے میدان کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ابلاغ کا شعبہ معاشرے کی تشکیل میں شامل نہیں ہوتا ؟ دینی دعوت کا کام سرانجام دینے والے لوگ اور تنظیمیں کیونکر اس کے بارے میں غور نہیں کرتے ۔ کیا یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ یونیورسٹیز میں ماس کمیونیکشن کرنیوالے طلبہ جو کہ ملکی نظام تعلیم کی خرابیوں کے باعث دین کا کچھ زیادہ نظریاتی علم ہی نہیں رکھتے وہ ہی میڈیا کے میدان میں سب کی رہنمائی کریں گے ۔ دینی طبقہ کیا ان سے معجزوں کی امید لگائے بیٹھا ہے ؟ کیا یہ انتظار ہے کہ یہ لوگ میڈیا کو ایسا بنا دیں گے جو کہ دین کی دعوت کے لیے اچھا ہو اور اس سے اسلام کیا شاعت ہو سکے ؟ اگر ایسا ہے تو واقعی پریشان کن ہے کیونکہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بغیر نظریاتی علم اور ٹھوس علمی بنیاد کے صرف پیشہ ورانہ علم ہی کافی نہیں ہوتا ۔ اور میڈیا کی درست سمت کے تعین کے لیے دینی علم رکھنے والوں کو خود میدان میں آنا پڑے گا ۔
اس تحریر کا مقصد کسی کو طعنے دینا نہیں ہے بلکہ کوشش صرف یہ ہے کہ دینی علوم رکھنے والے افراد میڈیا کی جانب متوجہ ہوں ۔ یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ میڈیا کا خود اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا بلکہ اس کو چلانے والے اپنے خیالات عام کرتے ہیں ۔ اگر دینی لوگ اس کی باگ دوڑ سنبھالیں گے تو یقینا اسے ہدایت کا سرچشمہ بنایا جا سکتا ہے اور اگر کم دینی علم رکھنے والے یا بلکل ہی نابلد لوگوں کے ہاتھ میں میڈیا کی طاقت دے دی جائے تو پھر یقینا یہی کچھ ہو گا کہ جو آج آپ دیکھ رہے ہیں ۔ یونیورسٹیز کے طلبہ کے پاس اچھی دینی معلومات تو ہو سکتی ہیں لیکن نظریاتی حدود کا خیال اور معاشرتی تبدیلیوں کی دینی لحاظ سے درست سمت کا تعین وہی لوگ کر سکتے ہیں کہ جنہوں نے باقاعدہ دینی علوم حاصل کر رکھے ہوں ۔ میری مراد مدارس کے پڑھے افراد ہیں اور وہ علما جو اصل دینی مصادر سے استفادہ کرتے ہیں ۔ احادیث کے علوم سے واقف ہیں جبکہ غلط عقائد اور خالص اسلامی حکم کے درمیان فرق کر سکتے ہیں ۔ میڈیا کو تو اچھے بولنے والے چاہیے ۔ یہ واقعی المیہ ہے کہ اس وقت جو دینی پروگرام پیش کیے جا رہے ہیں ان میں ٹھوس دینی علم رکھنے والوں کی بجائے نیم دینی علم رکھنے والے لوگ غالب ہیں ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مستند دینی حلقے اچھے اینکر اور ٹی وی پر اچھے بولنے والے افراد فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ میدان جاوید غامدی اور ڈاکٹر عامر لیاقت جیسے لوگوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ اب دینی پروگراموں کو اپنے طریقے سے چلا رہے ہیں اور یہی حال ویب سائٹس ، ایف ایم ریڈیوز وغیرہ کا بھی ہے ۔ اسی طرح دینی طبقات میں اچھی کتابیں لکھنے کا رواج تو عام ہے لیکن میڈیا کے لیے مضامین نہیں لکھے جاتے ۔ ہمارے ہاں حالات حاضرہ کو دینی نقطہ نظر سے زیر بحث لانے کا انتظام نہیں ۔ آپ کو ایک ایک سو یا اس سے بھی زیادہ کتابیں لکھنے والے علمائے کرام تو مل جائیں گے لیکن کالم نگار ، فیچر نگار علماءکی تعداد انتہائی کم ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ علماءکی کتابیں انہی کے حلقے کے لوگ تو ضرور پڑھتے ہیں یا پھر اچھا ادبی ذوق رکھنے والے طبقے بلکہ اس میں مسلک اور جماعت کی تفریق بھی حائل ہو جاتی ہے ۔ جبکہ اگر یہی علماءاچھے انداز سے میڈیا میں اظہار خیال کریں ۔ کالم لکھیں ، معاشرتی مسائل پر فیچر لکھیں تو نہ صرف زیادہ بڑا طبقہ مستفید ہوگا بلکہ لوگ دین کی طرف مائل بھی ہوں گے ۔ حالات حاضرہ کو دینی نقطہ نظر سے زیر بحث لانے سے یہ بھی فائدہ ہوگا کہ علمائے کرام کے بارے میں عام تاثر بھی دور ہو گا کہ یہ وقت کے تقاضوں کو نہیں سمجھتے ۔
ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا یعنی ٹی وی ۔۔ فلم اور دیگر ویڈیوز کو ہی سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے جبکہ حققیت یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ذرائع ابلاغ کا ایک طاقتور حصہ ضرور ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کے بغیر پیغام رسانی اور نظریات کا فروغ ہی ممکن نہیں ۔ ویسے تو بہت سے دینی حلقے کچھ حدود و قیود کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا کے قائل ہو چکے ہیں لیکن اگر کوئی جماعت اس کے بغیر ہی چلنا چاہے تو بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں آنے کے لیے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے کیونکہ دینی تبلیغ کے لیے موجودہ رائج الوقت طریقے کار آمد نہیں ہوں گے ۔ دینی جماعتوں کو چاہیے کہ الیکٹرانک میڈیا میں زور آزمائی سے پہلے پہلے دیگر شعبہ جات یعنی پرنٹ میڈیا ( اخبارات و رسائل ) ، سائبر میڈیا یعنی انٹرنیٹ وغیرہ میں زیادہ کام کریں ۔ کچھ عرصہ کی مکمل پیشہ ورانہ تربیت کے بعد الیکٹرانک میڈیا کی طرف آیا جائے ۔ کیونکہ یہ ایک مہنگا کام ہے اس لیے بغیر پیشہ ورانہ تربیت کے فنڈز ضائع ہونے کا بھی خدشہ ہے ۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انٹرنیٹ ، پرنٹ میڈیا اور دیگر زرائع ابلاغ بھی کچھ کم اہمیت کے حامل نہیں ہیں اور اگر ان کو مکمل پیشہ ورانہ اصولوں سے استعمال کیا جائے تو ان سے انتہائی مفید نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ شرط صرف اور صرف یہ ہے کہ روایتی اور ڈنگ ٹپاو ¿ طریقوں سے ہٹ کر اس شعبے کی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔ پروپیگنڈا کرنا ایک مکمل سائنس کا درجہ حاصل کر چکا ہے اور اس کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے ۔ ایک وضاحت یہ بھی ضروری ہے کہ ” پروپیگنڈا“ کے لفظ کو بھی میڈیا کی طرح صرف منفی معنوں میں ہی استعمال کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ اس سے مراد پیغام کو زیادہ سے زیادہ پھیلا دینا ہے ۔ یعنی دعوت کو عام کرنا ۔ یہ منفی اور مثبت دونوں معنوں میں استعمال ہو تا ہے ۔ انشاءاللہ آئندہ کسی مضمون میں اس کی تکنیکس


کے بارے میں بھی بتانے کی کوشش کروں گا ۔ دعوتی سرگرمیوں سے منسلک علماءکرام کو ان سے متعلق جاننے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکیں ۔ انتہائی سستے طریقے موجود ہیں کہ جن کے زریعے آپ اپنی بات سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں تک با آسانی پہنچا سکتے ہیں ۔ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس ، ای میلز ، ڈیلی نیوز لیٹر ، بلاگس ، ویب سائٹس اور ایسی بہت سے چیزوں کے استعمال سے دعوتی سرگرمیوں ملکی بلکہ عالمی سطح پر پھیلایا جا سکتا ہے۔ اخبارات میں اچھے لکھنے والوں کے لیے ابھی بہت گنجائش موجود ہے جبکہ الیکٹرانک میڈیا میں اچھے بولنے والوں کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے ۔ صرف اچھے رابطے کے ذریعے میڈیا گروپس سے فوائد حاصل کیے جاتے ہیں دینی طبقہ کے میڈیا کے میدان میں زیادہ اثر و رسوخ نہ ہونے کی ایک وجہ ہے بھی ہے کہ مذہبی جماعتوں ، ذیلی تنظیموں ، بڑے دینی اداروں وغیرہ کے شعبہ اطلاعات سے منسلک افراد بھی میڈیا کی ورکنگ سے پوری طرح آگاہ نہیں اور شاید بہت سے مواقع پر تو اس عہدے کو صرف خانہ پری ہی سمجھا جاتا ہے ۔ آج کے دور میں یہ انتہائی اہم عہدہ ہوتا ہے ۔ دینی جماعتیں کسی اہم اور نامور عہدیدار کو ہی ترجمان اور اطلاعات کے شعبے کا انچارج مقرر کرنا پسند کرتی ہیں ۔ اگر کسی بڑے نام کو ہی ترجمان مقرر کرنا مقصود ہو تو بھی کم از کم اس کی مدد کے لیے ہی کسی پروفیشنل کو مقرر کر دیں ۔ ہم زندگی کے دیگر شعبوں میں ٹیکنیکل کاموں کے لیے ہنرمند افراد کی مدد لینا پسند کرتے ہیں ۔ لیکن شاید میڈیا کے لیے اس اصول کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے ۔کیا ہم اپنی گاڑی کا ڈرائیور یا عمارت کا معمار بھی محض تعلق کی بنا پر مقرر کرنا پسند کریں گے ؟ ۔ہرگز بہیں کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ اگر ایسا کیا تو اناڑی ڈرائیور ضرور حادثہ کرا دے گا اور اگر معمار ہنرمند نہ ہوا تو عمارت کو اس طرح بنائے گا کہ وہ جلد گر جائے گی ۔ شعبہ اطلاعات اور تعلقات عامہ کو مضبوط اور ماہر افراد کی زیر نگرانی ہونا چاہیے کیونکہ اس کا درست استعمال آپکی دعوت کو زیادہ تیزی سے عام کرے گا ۔ ہر ہر موقعے پر مکمل منصوبہ بندی کی جائے کہ کس مسئلے پر کیا طریقہ کار اختیار کرنا ہے ۔ کسی کے اخلاص پر شک نہیں کیا جا سکتا ۔ دینی جماعتوں کے شعبہ اطلاعات سے منسلک افراد یقینا مخلص ہوتے ہیں اور اپنے طور پر بھرپور کوشش بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود مطلوبہ نتائج صرف اس لیے حاصل نہیں ہو پاتے کہ منصوبہ بندی اور پیشہ ورانہ مہارت کی کمی ہوتی ہے ۔
اس کے علاوہ بہت سی دینی جماعتوں اور رہنماو ¿ں کو یہ اعتراض بھی ہے کہ میڈیا انہیں کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتا اور اس کا زیادہ فوکس سیاست اور دیگر تفریحی مواد کی طرف ہوتا ہے ۔ اس اعتراض سے پہلے یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا کسی دینی جماعت نے میڈیا کی تربیت کے حوالے سے کوئی ادارہ قای ¿م کیا ہے ؟ کیا میڈیا میں موجود افراد سے تعلقات بڑھانے اور ان تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں ؟ کیا دینی جماعتوں نے باقاعدہ ایسے افراد تیار کیے ہیں جو کہ میڈیا پر مخالفانہ پروپیگنڈے کا جواب دے سکیں ؟ کیا میڈیا کے لیے مواد کی فراہمی اور موجودہ پیش کیے جانیوالے مواد کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں متبادل فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہو سکا تو پھر اعتراض کیسا ؟ جب کچھ بویا ہی نہیں گیا تو کیا کاٹنے کی امید کی جا رہی ہے ۔ اگر آج میڈیا پر لادینیت اور سیکولرازم غالب نظر آتا ہے اور ایسی چیزوں کی بہتات ہے جو کہ اسلامہ تعلیمات کے خلاف ہیں تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عالمی سطح پر اسلام مخالف اداروں نے اس کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں ۔ ایسے ادارے موجود ہیں کہ جو مکمل منصوبہ بندی کے زریعے میڈیا پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ ریسرچ سینٹرز قائم کیے گئے ہیں ، سروے رپورٹس اور انکشافات کے زریعے میڈیا کو ایک خاص لائن فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اسلام مخالفت ادارے میڈیا سے منسلک ہنرمند اور تجربہ کار افراد کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی میں ایسا مواد تیار کیا جاتا ہے جو کہ بظاہر تفریح ، کھیل یا کسی بھی اور مقصد کے لیے ہوتا ہے لیکن اس کا پوشیدہ مقصد معاشرے میں لادینیت پھیلانا ہے ۔ میڈیا پر اس مواد کی اشاعت کے لیے سپانسرز ڈھونڈے جاتے ہیں اور ایک نیٹ ورک کے ذریعے اس کو عام کر دیا جاتا ہے ۔ ہیری پوٹر سیریز اور انڈین چینلز کے ڈرامے اس کی مثال ہیں ۔ ہیری پوٹر سیریز میں جادو وغیرہ کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ اس کی کتاب مارکیٹ میں آتی ہے ۔ چینلز اس کی کوریج کرتے ہیں ۔ پھر فلم بنائی جاتی ہے ۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اس کی مشہوریاں بناتی ہیں ۔ اس نام کے کھلونے اور دیگر سرگرمیاں سامنے آتی ہیں ۔ غرض ایک مکمل منصوبہ بندی کے زریعے اسے پوری دنیا میں زبان زدعام بنا دیا جاتا ہے ۔ یہی حال انڈین ڈراموں کا ہے ۔ ان میں ہندو مذہب کی بھرپور تبلیغ کی جاتی ہے ۔ خواتین کے لباس کے ایسے ڈیزائن متعارت کرائے جاتے ہیں کہ جو بے حیائی کا باعث ہوں ۔ تاجر فور ی طور پر اس قسم کے ڈیزائن کردہ لباس بازار میں لے آتے ہیں اور اس طرح ایک منصوبہ بندی کے زریعے مقصد حاصل کیا جاتا ہے ۔ اگر ہمیں میڈیا کو دینی تبلیغ اور اسلامی روایات کے فروغ کے لیے استعمال کرنا ہے تو اس کے لیے اسی قسم کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی جماعتوں کو میڈیا کے میدان میں کچھ بونے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی فصل معاشرے میں پھیلنے والے اثرات کی صورت میں کاٹ سکیں ۔۔
مسئلے کو صرف محفلوں میں زیر بحث لانا اور ” استغراللہ“ اور نعوذ با اللہ کا ورد کرتے ہوئے میڈیا میں کام کرنیوالوں کو بے دین اور اسلام مخالف قرار دینا بھی مناسب نہیں ۔ کیونکہ اس سے پریشانی حل نہیں ہو گی بلکہ خلیج بڑھتی جائے گی ۔ اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ میڈیا میں کام کرنیوالے بہرحال مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے اور ہمارے اسی مسلم معاشرے میں ہی پروان چڑھے ہیں ۔ یقین کریں کہ ان میں سے کسی کا بھی تعلق بھارت یا ہندوازم سے نہیں ہے اور نہ ہی ان کی تربیت امریکہ ، یہودی تنظیموں یا اسلام مخالف گروہوں میں سے کسی نے کی ہے ۔ یہ اسی معاشرے کے ایسے فرد ہیں کہ جنہیں نظام تعلیم کی خرابی ، دینی طبقے سے رابطے کے فقدان ، مخصوص معاشرتی معاشرتی ماحول اور دیگر عوامل نے موجودہ مقام تک پہنچا دیا ہے ۔ بات تو تلخ ہے لیکن تسلیم کرنا چاہیے کہ انہیں دینی طبقہ میڈیا کے میدان کوئی خاص رہنمائی فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے اور اب یہ لوگ مغرب اور بھارتی ثقافت میں رنگے نظر آتے ہیں ۔ دینی جماعتیں اور حلقے یہ ہی کیوں چاہتے ہیں کہ سب لوگ خود بخود ہی چل کر ان کے پاس آئیں اور آکر رہنمائی کی درخواست کریں ۔ اس بات پر کیونکر غور نہیں کیا جاتا کہ دعوت کا فریضہ تو بہرحال آپ کو ہی سرانجام دینا ہے ۔ اگر آپ اپنی دعوتی سرگرمیوں کو اچھے طریقے سے سرانجام دیں گے اور مضبوط نیٹ ورک بنائیں گے تو معاشرے کا بڑا طبقہ بشمول میڈیا آپ کے ساتھ چلے گا اور اگر ایسا نہ ہو


سکا تو یقینا مخالفین حاوی نظر آئیں گے اور محض مساجد دئیے گئے وعظ اور خطبات کام نہ آ سکیں گے ۔ دینی تعلیمات سے ہٹ کر زندگی گزارنے والوں کو بھی بہرحال کسی صورت بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ اس بحث کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ نظریات کے اس تصادم میں اسلام کی دعوت کے امین اور صاحب علم دینی حلقوں کو کچھ زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے اور خاص کر میڈیا کے میدان میں ۔ یہ بھی حققیت ہے کہ جب بھی کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی تو یہی نوجوان نسل کہ جسے دین بیزار سمجھ لیا گیا تھا وہ ہی ہراول دستہ ثابت ہوئی ۔ کشمیر اور فلسطین کی تحریک آزادی میں یونیورسٹیز کے طلبہ کا ایک بڑا کردار ہے ۔ انٹرنیٹ پر تبلیغ میں بھی بڑا حصہ حصہ ایسے افراد کا ہے جو کہ شاید کبھی کسی مدرسے نہ گئے ہوں ۔ یہ علماءکرام کی کتابوں کی تشہیر کرتے ہیں اور مطالعہ کرکے دلائل ڈھونڈتے ہیں ۔ دینی طبقے کو میڈیا سے منسلک افراد سے رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ دینی اور نظریاتی افراد کو بھی پیشہ ورانہ مہارت حاصل کرکے میڈیا کے اداروں میں داخل کرایا جا سکتا ہے۔ ۔

اس مضمون کا مقصد دعوت فکر تھا کہ ہمیں کے میدان میں ذرا تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ بلکل کام ہی نہیں ہو رہا ۔ بہت سے حلقے کوششیں کر رہے ہیں اور ان کے کچھ مفید نتائج بھی نکلے ہیں ۔ صرف یہ ہے کہ کام منظم نہیں ہے ۔ ایسا سمجھ لینا کہ لوگ میڈیا کے زریعے دین کی دعوت کو سننا ہی نہیں چاہتے بلکل ٹھیک نہیں ہے ۔ یہ میڈیا ہی ہے کہ جس کے باعث آج ڈاکٹر ذاکر نائیک کو پوری دنیا جانتی ہے ۔ مولانا سید توصیف الرحمٰن شاہ کی دعوت عام ہو رہی ہے ۔ ڈاکٹر فرحت ہاشمی عالمی سطح پر پہچان رکھتی ہے ۔ بہت سی اسلامی تنظیموں نے ایسا مواد تیار کیا ہے جو کہ واقعی پرکشش ہے اور اس کی وجہ سے ہی بہت سے لوگ مسلمان بھی ہوئے ۔ انٹرنیٹ تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے اور یورپ و امریکہ میں اتنے لوگ اس کے ذریعے مسلمان ہوئے ہیں جن تک پہنچنا شاید ویسے ممکن ہی نہ ہوتا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی موبائل ایس ایم ایس سروس سے کئی ہزار لوگ مسلمان ہو چکے ہیں ۔ فلسطینی تنظیم حماس اور لبنان میں حزب اللہ نے اپنے مقاصد کے لیے میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا ہے ۔ انہوں نے متعدد مواقع پر یہودی اور مغربی میڈیا کو شکست دی ہے ۔ یہ لوگ انتہائی مہارت سے میڈیا کو اپنے حق کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ ایران میں بھی میڈیا کی روایتی پریکٹس سے ہٹ کر متبادل فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اگر یہ سب منظم طریقے سے ہونے لگے تو کافی زیادہ اچھے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں
یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ وقتی طور پر کسی گروپ کا غلبہ دیکھ کر پریشان نہ ہوا جائے ۔۔ ایسا تو انبیاءکے دور میں بھی نہیں ہوا کہ سب لوگ ہی ہدایت یافتہ ہو گئے ہوں۔۔ یہ مقابلے کی دنیا ہے ۔۔ ہر گروہ کو اپنا اپنا کام کرنا ہوتا ہے ۔ میڈیا معاشرتی تبدیلی کا طاقتور ترین ہتھیار ہے اور دعوت کے میدان میں اس کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہیں ۔ اس لیے دینی طبقے کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا سے دور رہنے کی پالیسی کو دور کرتے ہوئے اسے اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوششوں کا آغاز کریں ۔

Thursday, July 15, 2010

یوم پاکستان کا پیغام

تئیس مارچ انیس سو چالیس کے دن برصغیر کے مسلمانوں نے ایک آزاد وطن کا خواب دیکھا تھا۔ انگریزوں اور ہندوو ¿ں کے ظلم و ستم کے ستائے ہوئے لوگوں نے آزاد فضاو ¿ں میں سانس لینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔ یہ دن ایک عزم کے اظہار کا دن ہے کہ جب لاکھوں پروانے قائد اعظم کی پکار پر دنیا کی پہلی نظریاتی ریاست بنانے کے لیے نکل پڑے تھے۔ مسلمانوں کے غزوہ بدر کی طرح قائد اعظم کے ان ساتھیوں نے ہندو اکثریت اور انگریزوں کی طاقت کے سامنے ڈٹ جانے کی قسم کھائی تھی۔ یہ دن ہمیں اس وعدے کی پاسداری کی یاد دلاتا ہے کہ جب ہمارے بزرگوں نے آنیوالے نسلوں کو آزادی کی نعمت سے مالا مال کرنے کے لیے قربانیوں کی داستان رقم کی تھی۔ مسلم لیگ قرارداد پاکستان کی منظوری تک ایک بڑی جماعت نہ تھی اور نہ ہی مسلمانوں کے اکثریت اس کے ساتھ تھی لیکن اس قرارداد کے منظور ہوتے ہی اس کی مقبولیت اپنی انتہا کو چھونے لگی۔ سب کی زبان پر صرف ایک ہی نعرہ تھا کہ " پاکستان کا مطلب کیا۔۔ لا الہ الا اللہ "" اور اسی نعرے کی گونج میں یہ سفر شروع ہوا۔ تئیس مارچ انیس سو چالیس تو آغاز سفر تھا ۔ اس دن اقبال کے خواب کی تعبیر کے لیے قائد اعظم کی قیادت میں قافلے نے رخت سفر باندھا۔ یہ پر عزم لوگ تھے۔ یہ معاشرے کے وہ پسے ہوئے افراد تھے کہ جنہیں انگریزوں اور ہندوو ¿ں نے زندگی کی ہر خوشی سے محروم کر کے رکھ دیا تھا۔ یہ اپنا حق لینے نکلے تھے۔ یہ نہتے لوگ طوفانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ یوم پاکستان نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں اہم ترین مقام رکھتا ہے کیونکہ اسی دن ایک ایسی تحریک کا آغاز ہوا اور ایک ایسی جدوجہد کی بنیاد رکھی گئی کہ جو مکمل طور پر پر امن تھی۔ یہ سفر آسان ہرگز نہ تھا کیونکہ ہر ہر قدم پر شدید مخالفت اور مشکلات کا سامنا تھا۔ کہیں اپنے مخالف تھے تو کہیں بیگانے سازشی۔ کہیں ہندوو ¿ں کا پروپیگنڈا تھا تو کہیں انگریزوں کے الزامات۔۔ قیدو بند کی صعوبتیں تھیں تو کہیں سزاو ¿ں کی داستان۔۔ مقدمات کا سامنا تھا تو کہیں ریاستی جبر سے مقابلہ۔۔ کتنے ہی لوگوں کو اپنے پیاروں سے محروم ہونا پڑا ۔ کتنی ماو ¿ں بہنوں کے آنچل چھین لیے گئے۔۔ کتنے معصوم بچوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ کتنے ہی خوبصورت نوجوان بے دردی سے شہید کر دئیے گئے۔ ہجرت کی داستانیں تو اتنی غمناک ہیں کہ راتوں کی نیند اڑ جائے ۔۔ ہجرت بھی ایسی کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگنا پڑا ۔۔ عزت اور دولت کے ڈاکوو ¿ں سے بچ کر گزرنا تھا۔۔ جو شاہانہ زندگی گزارتے تھے ان کے لیے اب خیموں کی صعوبتیں تھیں ۔۔ جو گاڑیوں میں گھومتے تھے انہیں سینکڑوں میل پیدل آنا تھا۔۔ لیکن یہ لوگ باہمت اور جوان جذبوں والے تھے۔۔ ان غیر مسلح لوگوں نے ظالم ہندوو ¿ں اور بربریت کی داستانیں رقم کرنیوالے انگریزوں سے ٹکرانا تھا۔ اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ ان پرعزم اور باہمت لوگوں نے یہ خواب سچا کر دیکھایا۔ صرف سات سال کی کھٹن اور تکیلف دہ جدوجہد نے ہی تمام مخالفوں کو پاکستان کا مطالبہ منظور کرنے پر مجبور کر دیا۔ تئیس مارچ انیس سو چالیس کو دیکھا گیا خواب چودہ اگست انیس سو سینتالیس اپنی تعبیر سے ہمکنار ہو رہا تھا ۔
جی ایک معجزہ ہو چکا تھا ۔ صرف سات سال پہلے کیے گئے عہد کو ایفا کر دیا گیا تھا۔ قربانی کی بانہوں میں جھولتی آزادی ہمیں نصیب ہو چکی تھی۔ پاکستان بن چکا تھا۔۔ دنیا کی پہلی نظریاتی ریاست۔ قائد و اقبال کے خوابوں کی تعبیر۔۔ لیکن سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس ارض پاک کے بننے میں اگر کوئی اہم ترین دن آیا تو وہ تئیس مارچ انیس سو چالیس کہ جسے اب ہم یوم پاکستان کے نام سے یاد کرتے ہیں کیونکہ عہد تو اسی دن ہوا تھا نہ۔۔ خواب تو اسی دن دیکھا گیا تھا۔۔۔ یہ دن انمول ہے اور ہمیں چاہیے کہ آج بھی اسی طرح ملک کو ترقی یافتہ ، پرامن اور عالم دنیا میں معزز ترین بنانے کے لیے عہد کریں۔۔۔

ملکی حالات اور نوجوانوں کی ذمہ داری

ہم میں سے ہر کوئی اس حقیقت سے واقف ہے کہ ملک پاکستان کو ان دنوں شدید ترین مشکلات کا سامنا ہے ۔ بم دھماکوں ، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے ۔ بہت سے ملکی اور غیر ملکی شرپسند عناصر ارض پاک کا امن و امان تباہ کر دینا چاہتے ہیں ۔ ملک میں موجود بہت سے گروہ اسلامی جماعتوں کے لبادے میں غیر ملکی ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔ مساجد میں دہشت گردی کے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں جبکہ علماءکرام پر حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ معصوم اور پرامن شہریوں کو قتل و غارت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ مذہبی حلقے شرپسندوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں اور ایسے عناصر کی کوشش ہے کہ ملک کو ایک بار پھر فرقہ وارانہ فسادات کی طرف دھکیل دیا جائے ۔ مذہبی جلسوں ، جلوسوں کی آڑ میں بعض شرپسند عناصر افراتفری ، نفرت اور تعصب کی فضاءقائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ عوام کے جذبات کو مشتعل کرکے دوسرے مسالک اور مذہبی تنظیموں کے خلاف ابھارا جا سکے ۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران ایسے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں کہ جن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملک کو مسلح تصادم کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ ان حالات میں معاشرے کے ہر فرد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ شرپسند اور غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کار عناصر کے خلاف متحد ہو جائیں ۔ ہمیں نہ صرف اپنے اردگرد نظر رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ عملی طور پر ہر قسم کے حالات کے لیے تیاری کرنا ہوگی ۔دین الہی کی تبلیغ اور اسلام کی دعوت کو عام کرنے کا راستہ سب سے زیادہ پرخطر بنتا جا رہا ہے ۔ دین کی تبلیغ کو ہر حال میں جاری رکھنا ہم سب کا فرض ہے ۔ مشکل حالات میں نوجوان نسل پر سب سے زیادہ ذمہ داری عای
¿د ہوتی ہے کہ وہ اپنے مذہبی فریضے کو سمجھیں اور دینی جماعتوں کا ساتھ دیں ۔ مسلک حقہ کا رکن ہونے کے ناطے آپ احباب کا فرض بنتا ہے کہ دینی جماعتوں کے دست و بازو بن جائیں اور دین اسلام کی تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھنے میں مدد گار بنیں۔ نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے آپ کو یوتھ فورس کے ساتھ منسلک کریں اور جماعتی نظم کے تحت کسی بھی ناگہانی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اگر کسی بھی لمحے کوئی شرپسند کسی جلسے ، درس یا جلوس کو منفی ہتھکنڈوں سے روکنے کی کوشش کرے تو نوجوانوں کی یہ جماعت اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے موجود ہو۔ آپ کا فرض بنتا ہے کہ دین کے لیے اپنے وقت کو وقف کریں اور ہر اہم تقریب کے موقعے پر حاضر ہوں ۔ یوتھ فورس کی قیادت نوجوانوں کے ایسے گروپ بنانے کی تیاری کر رہی ہے کہ جو مختلف مواقع پر متحد ہو کر سکیورٹی کے فرائض سر انجام دیں سکیں ۔ ایک ایسا نظم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس میں مسلک حقہ کو ماننے والے تمام نوجوانوں کو لایا جا سکے اور بہ وقت ضرورت ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جا سکے ۔ فیصل آباد کے واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر کسی جماعت کے پاس حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے نوجوان افراد کی خاطر خواہ تعداد موجود نہ ہوتو اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ اگر کسی جماعت کے فعال کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کسی بھی ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے موجود نہ ہو تو شرپسند عناصر کو اس جماعت کے رہنماو
¿ں اور ان کی املاک کو نشانہ بنانے کا موقعہ مل جاتا ہے ۔ اس صورتحال کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ یوتھ فورس کے نظم کو مضبوط کیا جائے ۔ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کے ساتھ رابطے کرکے ایک ایسا گروپ تشکیل دے دیا جائے جو کہ ہر موقعے پر خود کو پیش کرنے کے لیے تیار ہو۔ یہ افراد جلسوں اور دیگر تقریبات کی سکیورٹی کا فریضہ سر انجام دیں ۔ اس طرح ایسے شر پسند عناصر کہ جو محض تعصب اور عناد کی بنیاد پر نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ بھی محتاط رہیں گے اور بلاوجہ گڑ بڑ کی کوشش نہیں کی جائے گی ۔

خواتین کا معاشرتی کردار

خواتین نے اپنی محنت اور لیاقت کے بل بوتے پر زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بعض ایسے مشکل کام جو کہ پہلے عورتوں کے لیے ممنوع سمجھے جاتے تھے ۔ آج ان میں ہی خواتین نے اپنی صلاحیت ثابت کر دی ہے ۔ آج خواتین پائلٹ بن کر جہاز اڑا رہی ہیں اور محقق بن کر پیچیدہ سائنسی مسئلے حل کرنے میں مصروف ہیں ۔ انجیئرنگ کی شعبے میں بھی خواتین کی شرکت بڑھتی جا رہی ہے اور آج کے پروفیشنل ادارے خواتین سے بھرے نظر آتے ہیں ۔ سپاہ گری اور جرائم کے خلاف منظم فورسز میں ایک عرصے تک خواتین کو بھرتی نہیں کیا جاتا تھا لیکن اب دنیا بھر میں خواتین پائلٹس کی تعداد ہزاروں میں ہے جبکہ شاید ہی کوئی فوج ایسی ہو جس میں خواتین موجود نہ ہوں ۔ خواتین اگلے محازوں پر موجود ہیں اور جدید اسلحے کو بخوبی استعمال کر رہی ہیں ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب نے خواتین کے لیے بے شمار مواقع پیدا کیے ہیں کیونکہ اس شعبے میں خواتین باقی شعبوں کی نسبت زیادہ آزادی اور تحفظ کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے سکتی ہیں ۔ اور یہی وجہ ہے سافٹ وئیر کی دنیا اور آئی کی دیگر شعبوں میں خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ پاکستان کی ایک نو سالہ لڑکی مائیکرو سافٹ کا سرٹیفیکیٹ حاصل کر چکی ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خواتین نے معمولی اور چھوٹی سطح کے کام کاج کی بجائے پیچیدہ اور زیادہ منافع بخش کاموں میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دی ہے ۔ خواتین آج دنیا کی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں اہم پوزیشنز پر موجود ہیں ۔ پروفیشنل تعلیم کے حصول کے بعد انہوں نے ہر اہم پوسٹ کے لیے خود کو اہل ثابت کیا ہے ۔ سیاست ہمیشہ سے ہی کسی بھی معاشرے کا اہم ترین شعبہ رہا ہے اور اس کے زریعے ہی معاشرے کو کنٹرول کیا جاتا ہے ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور ہر ملک میں مقامی سطح پر خواتین کی جدوجہد کے باعث سیاست میں خواتین اہم ترین مقام حاصل کر چکی ہیں ۔ پاکستان میں خاتون وزیر اعظم محترمہ بے نظیر دو مرتبہ اپنے عہدے پر منتخب رہ چکی ہیں ۔ بنگہ دیش میں وزیر اعظم اور اپوزیشن دونوں ہی خواتین ہے ۔ بھارت میں صدر اور سپیکر کے عہدے پر خاتون موجود ہے ۔ جرمنی کی چانسلر خاتون ہیں جبکہ دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکہ کی طاقتور ترین وزیر خارجہ بھی ایک خاتون ہی ہیں ۔ ہیلری کلنٹن نے صدارت کے لیے بھی جدوجہد کی تھی جو کہ امریکہ کی تاریخ میں پہلا موقع ہے ۔ تھائی لینڈ میں گیارہ سال سے زائد عرصے سے نظر بندی کی سزا کاٹتی آنگ سان سوچی جمہوری جدوجہد اور عوامی حقوق کے حوالے سے ایک روش مثال بن چکی ہے ۔ خواتین اب انتہائی پراعتماد طریقے سے عام انتخابات میں حصہ لیتی ہیں ۔ بھارت میں سونیا گاندھی ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی والے اس ملک کی طاقتور ترین شخصیت سمجھی جاتی ہیں ۔ سماجی شعبے میں خواتین کی شرکت بھی بہت زیادہ ہے ۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کی این جی اوز میں خواتین خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ حتی زیادہ تر این جی اوز کا مکمل کنٹرول خواتین کے پاس ہے ۔ یہ این جی اوز نہ صرف خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی ہیں بلکہ سماجی برائیوں کے خلاف بھی سرگرم عمل ہیں ۔ صحافت اور میڈیا اور شوبز کے شعبوں کی زیادہ تر رنگینیاں خواتین کے ہی دم سے ہیں ۔ آج کی دنیا میں ایسی بھی اداراکائیں اور ماڈلز پائی جاتی ہیں کہ جو اپنی محنت سے کروڑوں ڈالر کی مالک ہیں ۔ انہوں نے ان شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو منوا کر شہرت اور دولت کی بلندیوں کو چھوا ہے ۔ خواتین نے شوبز اور میڈیا میں صرف کیمرے کے سامنے سجنے سنورنے اور اداکاری کے میدانوں میں ہی کام نہیں کیا بلکہ بہت سی خواتین عملی میدانوں میں بھی موجود ہیں ۔ مغربی میڈیا سے منسلک خواتین افغانستان اور عراق جیسے شورش زدہ علاقوں میں فرائض سرانجام دیتی پائی جاتی ہیں ۔ بعض نے اس دوران قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کی ہیں ۔ ٹیچنگ کا شعبہ خواتین کے لیے ہمیشہ سے ایک نمایاں مقام رکھتا ہے ۔ بہت سے ایسے معاشرے کہ جہاں خواتین کے کام کاج پر پابندی ہوتی ہے وہاں بھی خواتین کی بطور استاد خدمات کو سراہا جاتا ہے ۔ نفیساتی ماہرین اس چیز پر متفق ہیں کہ خواتین ننھے بچوں کا پڑھائی سے لگاو بڑھانے اور سمجھانے میں زیادہ کامیاب ہو جاتی ہیں اور ان کا نرم رویہ بچوں کو پڑھائی سے مانوس کر دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی زیادہ تر پرائمری استاتذہ خواتین ہی ہیں ۔ ۔ نرسنگ کے شعبے میں خواتین کی خدمات کسی تعارف کی محتاج سے کم نہیں ۔ زندگی سے مایوس اور انتہائی خطرناک بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی دیکھ بھال کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتی اور خواتین نے اس ڈیوٹی کو خوب طریقے سے نبھایا ہے اور ہسپتالوں میں ہزاروں خواتین خدمات سرانجام دے رہی ہیں ۔ لیڈی ڈاکٹرز بچوں اور عورتوں کے حوالے سے انتہائی کامیاب ثابت ہوتی ہیں

ایک یادگار شادی کا احوال

آصف کی شادی واقعی دلچسپ واقعہ ہے۔۔ اس نے شادی کارڈ پکڑاتے ہی ہمیں دھمکی دی تھی کہ اگر کوئی صبح آٹھ بجے سے ایک منٹ بھی لیٹ ہوا تو اس کو بارات کے ساتھ نہیں لے جایا جائے گا۔ اور ہم بیچارے سارے ہی اس کی دھمکی میں آ گئے۔ جوجی اور حنان کا کہنا تھا کہ ہم تو جیسے زندگی میں پہلی مرتبہ اتنی جلدی اٹھے ہیں۔ خیر میں بھی آٹھ بجے پہنچ چکا تھا۔ وہاں موجود لوگوں سے آصف کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ وہ تیار ہونے گیا ہے۔۔ جب کہ اندر کی خبر یہ ہے کہ بہت سے پارلر والوں نے اسے تیار کرنے سے انکار کر دیا تھا اور پھر کافی بڑی رقم دیکر ایک بندے کو راضی کر لیا گیا۔۔ اس کی وجہ کی تلاش ابھی جاری ہے۔۔ خیر مجھے تو اس کے ایک کزن نے ایک ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔۔ دو گھنٹے موبائل پر ریڈیو سنتے اور لوگوں کو ایس ایم ایس کرکے تنگ کرتے گزرے۔۔ اس دوران آصف کو صلواتیں سنانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔۔ اچانک ایک بھونچال آ گیا۔۔ پتہ چلا کہ صاحب سلامیاں وصول کرنے کےلیے باہر گلی میں سجائے گئے ہال میں تشریف لا رہے ہیں۔۔ اور مجھے تو سب سے زیادہ حیرانی اس بات پر ہوئی جب تین چار لوگوں نے مجھے نام لیکر پکارا اور فوری طور پر آصف کے ساتھ بٹھا دیا گیا۔۔ اتنی عزت افزائی کا پتہ تو بعد میں اس وقت چلا کہ جب مجھے ایک ڈائری اور پن پکڑا کر سلامیاں لکھنے پر لگا دیا گیا۔۔ خیر ایک مصروفیت تو مل گئی نہ۔۔ کوئی پنتالیس منٹ تک آصف صاحب امیر ہوتے رہے جبکہ میں پاس بیٹھا ایک اچھے اور ایماندار اکاو ¿نٹنٹ کی طرح بڑی بڑی رقمیں لکھتا رہا۔۔ اور ہاں آصف کے قد کاٹھ میں اس سے بھی بڑے شہ بالے کے بارے میں تو میں بتانا ہی بھول گیا۔۔ بیچارے کو بار بار بتانا پڑتا تھا کہ میں دولہا ہوں ورنہ کوئی اس پر اعتبار کرنے کو تیار ہی نہ تھا۔۔ خیر سلامیاں وصول کرنے کے بعد آصف صاحب تو پتہ نہیں کہاں روانہ ہو گئے لیکن میں جوجی اور حنان کے ساتھ بارات کی روانگی کا انتظار کرنے لگا۔۔ اس دوران آصف نے گلی میں دو چار چکر لگانے کا مظاہرہ کیا۔۔ اس کے ساتھ فیملی کے کچھ لوگ تھے جبکہ ان کے پیچھے پیسے لوٹنے والے دو چار سو بچے تھے۔ جن کی وجہ سے وہاں ایک ہنگامہ مچا ہوا تھا۔ بارات لیٹ ہو رہی تھی اور گرمی کے باعث براحال ہوتا جا رہا تھا جس پر ہم نے آصف کو کافی مہذب الفاظ میں یاد کیا۔۔ تھوڑی دیر بعد آصف بھی گاڑی میں بیٹھا تو کچھ امید پیدا ہوئی۔۔ لیکن جی اس ساری باراک کا ریمورٹ کنٹرول جن کے پاس تھا ان کو کسی بھی قسم کی جلدی نہ تھی وہ ہر منٹ بعد گاڑیاں روک دیتے۔۔ بعد میں ایک اور انکشاف ہوا کہ محلے والوں نے اس بارات کو روکنے کے لیے راستہ ہی بند کر رکھا ہے اور اب کسی دوسرے راستے سے جانا ہے۔۔ اگر اس نے محلے والوں سے تعلقات ٹھیک رکھے ہوتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔۔
خواتین کا معاشرتی کردار

پھول والا دن( پارٹ ٹو

ابھی چند برس ہوئے ہیں میں نے پھول والا دن کے نام سے ویلنٹائن ڈے کی ایک مزاحیہ روداد لکھی تھی۔ بس یونہی آپ مخلص اور اچھے دوستوں کے سنگ خوشیوں بھرے دن گزار رہے ہوں تو ایسی شرارتیں سوجھتی رہتی ہیں۔آصف یونس نے پیغام بھیا ہے کہ اک بار پھر سے کوئی نیا شکوتنہ نہ چھوڑا جائے۔ 14 فروری کے حولاے سے پھر ایک ہنسانے ولای کوئی رومانوی کہانی لکھ دو۔ اس بھولے بادشاہ کو کیا معلوم کہ اب وقت کے تیز دھارے میں کتنا کچھ بدل چکا ہے۔ ایک ٹی وی چینل کے نیوز روم میں بیٹھ کر جہاں بجنے ولای ہر گھنٹی کسی نئے حادثے کی خبر دیتی ہے آپ کس طرح کوئی رومانوی قصہ چھیڑ سکتے ہو۔ میرے خوش باش ملک میں بدقستمی سے اندھیریوں نے اتنا سرخ خون بکھیرا ہے کہ ہم تو شائد اب سرخ گلاب کو بھول ہی گئے ہیں۔ خون کا رنگ گلاب سے کچھ زیادہ گہرا ہوتا ہے اور جہاں جابجا خون بہنے کے واقعات عام ہوں وہاں کے باسیوں کو سرخ گلاب کی تجارت سے باز رہنا چاہےے جب ہمارے پاکستانی پھول بارود کی بارش میں سرجھا رہے ہیں تو ہم کس طرح درختوں پر اگلنے والے سرخ گلابوں کے تبادلے کی بات کریں شائد بہت سے روشن خیال لوگ اسے بورنگ اور قدامت پرستانہ رویہ قرار دیں لیکن میرے خیال میں بے حسی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے خواب غفلت میں گہری نیند سونا ٓج کا فیشن ٹھہرا ہے لیکن کچھ سرپھروں کو بیدار بھی رہنا چاہےے وہی جنہیں ماڈرن لوگ ضبطی خیال کرتے ہیں اور انہیں پرانے زمانے کے بوسیدہ خیالات کے حامل قرار دیتے ہیں۔ یار مجھے معاف کر دینا میں اس بار تمہارے لےے کسی مسکراہٹ کا اہتمام نہیں کر پاﺅں گا جب دل ہی اداس ہو تو لفظوں سے مصنوعی خوشیوں کی جھنکار پیدا نہیں کی جاسکتی اردگرد بکھرا گہرا سرخ خون سرخ گلابوں کو ہمارے لےے اجنبی بنا رہا ہے۔ میرے دوست مجھے چند سال پہلے ہمارے گرد پھیلی مسکراہٹوں کی تھوڑی سی آہٹ سنادو، کالج کی راہداریوں میں گونجتے خوشگوار قہقہوں کی جھلک دکھا دو کہ جب میرے دیس میں خون کا تذکرہ عام نہیں ہوا تھا کہ جب ہم خوب خوشی کے میلے منایا کرتے تھے۔ اگر تم وہ گزرتے دن واپس لاسکو تو میرا وعدہ ہے کہ میں پھر سے کوئی ہنسانے والا قصہ لکھنے کی کوشش کروں

سانجھ میں تحریر کردہ



رسومات چھوڑیں ۔۔۔ سکھ پائیں

سانجھ کے بڑے مقاصد میں ایک خاندان کو بہتری کی طرف رہنمائی کرنا بھی تھا اور اسی سلسلے میں اس دفعہ نہائیت ہی اہم مسئلہ زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث بہت سے خاندانوں کے لیے رشتے ناتے نبھانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ خوشی اور غمی کی تقریبات میں شرکت محدود ہوتی جا رہی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خاندان کے کچھ گھرانے خود کو بہت سے رسم و رواج کو نبھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سانجھ کے ذریعے ایک انقلابی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ خاندان کے بزرگوں سے گزارش ہے کہ وہ اس سلسلے میں بھرپور رہنمائی کریں ۔ اس سلسلے میں ایک اہم اجلاس بھی منعقد کیا جائے گا جس میں تمام بڑوں کو دعوت دی جائے گی ۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اس سلسلے میں بھرپور تیاری کریں اور اجلاس میں مفید مشورے دیں۔ اس سلسلے میں حافظ سرور (03217990563) کے ساتھ رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر سارے خاندان کا اتفاق ہو جائے تو مندرجہ ذیل رسومات کا خاتمہ کر دیا جائے۔

٭ جب کوئی کسی رشتہ دار کے گھر ملنے جائے تو واپسی پر اسے رقم نہیں دی جائے گی۔( یعنی ہر گھرانہ مہمان کی اچھی طرح خدمت کرے کیونکہ مہمان رحمت ہوتا ہے تاہم واپسی پر اسے یا بچوں کو پیسے نہیں دئیے جائیں گے کیونکہ یہ ایک اضافی بوجھ ہے۔

٭ جب کسی شادی شدہ جوڑے کی دعوت کی جائے تو اسے بھی کپڑے اور پیسے نہیں دئیے جائیں گے۔

٭ جب کوئی کسی کی بیمار پرسی کرنے جائے گا تو وہ پھل وغیرہ تو لیجا سکتا ہے تاہم پیسے وغیرہ نہیں دئیے جائیں گے۔ ( یہ اس لیے ضروری ہے کہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بہت سے رشہ دار صرف اس لیے کسی کی بیمار پرسی نہیں کرتے کیونکہ اس کے لیے کافی زیادہ پیسے درکار ہوتے ہیں۔ البتہ بیمار کی مالی مدد کے لیے سانجھ بنک قائم کیا جائے گا۔

اسی طرح یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ اجلاس میں مزید رسوم کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا اور جن پر اتفاق ہو گا ان کو ختم کر دیا جائے گا اور سب لوگ اس کی پابندی کریں گے۔سب لوگوں سے ایک دفعہ پھر التماس ہے کہ اس بارے میں اپنے قیمتی مشورے ارسال کریں۔



اظہار تشکر

سب سے پہلے تو ہمیں اللہ تعالی کا بے حد شکر ادا کرنا چاہیے کہ جس نے ہمیں سانجھ رسالے کا دوسرا شمار آپ کے لیے پیش کرنے کی توفیق بخشی ہے۔ ہم تمام قارئین کے بھی بے حد مشکور ہیں کہ جنہوں نے پہلے رسالے کو اس قدر پسند کیا اور بعض نے تو خطوط لکھ کر ہماری حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔ اگرچہ ان کی تعداد توقع سے انتہائی کم رہی لیکن ہمیں پھر بھی ان کی کوشش کی ضرور داد دینی چاہیے۔ تمام لکھاریوں نے کافی محنت سے اس رسالے کے لیے تحریریں ارسال کیں جس پر ہم ان کے بھی بے حد مشکور ہیں۔ رسالے کی تیاری میں خصوصی معاونت کرنیوالے افراد یعنی حافظ سرور صاحب، جناب نعیم احمد نعیم صاحب ۔ اسلام آباد والے، جناب حافظ آصف سہیل صاحب (پرفیکٹ آئی ٹی سلوشن والے) کا ذکر بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ ان کی معاونت کے بغریر یہ رسالہ آپ کی خدمت میں نہیں پہنچ سکتا تھا۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ اگلے رسالے کے لیے جلد از جلد تحریرں ارسال کریں ار ہاں۔ چوری شدہ مواد اور انتخاب بھیجنے سے گریز کریں ۔ خود لکھیں اور خاندان کے واقعات سے اس رسالے کی مدد کریں۔ دوسروں کو بھی ایسا ہی کرنے کی تلقین کریں۔اگر سب کا تعاون جاری رہا تو ہمیں یقین ہے کہ آنیوالے دنوں میں ہم مزید بہترین رسالہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

سانجھ بنک کا قیام

سانجھ کی انتظامیہ نے رسالے کی وساطت سے ایک انقلابی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس منصوبے کے تحت خاندان کا ایک بنک قائم کیا جارہا ہے کہ جس کی مدد سے خاندان کے مالی معاملات کو کنٹرول کیا جائے گا۔ منصوبے کے تحت خاندان کا ہر گھرانہ اس کا ممبر ہوگا اور ہر ممبر ماہانہ ایک معمولی رقم جمع کرائے گا۔۔ رقم کا فیصلہ خاندان کے بزرگوں کے ہونیوالے اجلاس میں کیا جائے گا۔ اس رقم کو خاندان کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیا جائے گا اور یہ مشترکہ رقم کسی بھی ہنگامی حالت کی صورت میں ممبران کو فراہم کی جائے گی۔ مثلا خدا نہ کرے خاندان کے کسی فرد کو کوئی حادثہ پیش آ جاتا ہے یا پھر کوئی موذی بیماری لاحق ہو جاتی ہے تو اس کو سانجھ بنک سے رقم فراہم کی جائے گی۔ اس بنک سے خاندان کے ایسے ہونہار بچوں کو بھی مالی امداد فراہم کی جائے گی کہ جو وسائل کم ہونے کی بنا پر اعلی تعلیم نہ حاصل کر سکتے ہوں۔ اسی طرح فوتگی کی صورت میں اس سانجھی رقم سے کھانے کا انتظام بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اس بنک میں جمع ہونیوالی رقم کو بے شمار مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ خاندان کے کسی فرد کو کاروبار کے لیے بھی رقم فراہم کی جا سکتی ہے۔ اس بارے میں اصول وضوابط بنائے جا رہے ہیں اور اس منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بھی سب بزرگو ںکی مدد درکار ہے۔

اپنے بارے میں جانئیے۔ ( ایک نیا سلسلہ

سانجھ رسالے کی تیاری میں خاندان ے کے بڑے بہت کم حصہ لے رہے ہیں اس لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ماموں سرورکی طرح دوسرے لوگوں کی شخصیت کو موضوع بحث بنا یا جائے۔ اس سلسلے میں تمام بڑوں سے گزارش ہے کہ جو اپنے بارے میں دوسروں کے خیالات جاننا چاہتا ہو وہ ہمیں اطلاع کر دے۔ جو راضی ہوگا اس کے بارے میں تحریریں شائع کی جائیں گے ۔یعنی سانجھ کے لکھاری اس شخصیت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں گے اور یہ خیال رہے کوئی بھی اس سرگرمی کی وجہ سے ہرگز ناراض نہیں ہوگا۔ یہ ایک دلچسپ سلسہ ہوگا جس سے سب کو بھرپور شرکت کا موقعہ ملے گا اور اس طرح اس شخصیت کے بارے میں بھرپور معلومات بھی ملیں گی۔ ۔ پہلی مرتبہ ڈیرہ ملا سنگھ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے یعنی اس گاو


¿ں میں گزرے واقعات ۔ اس سے منسلک خوشیاں۔ ماحول اور وہ سب کچھ جو آپ اس کے بارے میں بتانا چاہیں۔ اور ہاں آئندہ اس سلسلے میں صرف اس شخص کا نام دیا جائے گا کہ جو خود آمادگی ظاہر کرے گا۔ میرے خیال میں سب کو چاہیے کہ ایمانداری سے اپنی رائے کا اظہار کریں ۔

پہلی بات

جیسے ہی رسالہ آپ کے ہاتھوں میں پہنچے گا تو میرا خیال ہے ضرور آپ خوشی سے اچھل پڑیں گے ۔ جی کیوں نہیں۔ ہم نے آپ کے خیالات سے ہی تو اس سانجھے رسالے کو چار چاند لگائے ہیں۔ لیکن مجھے ایک اور ڈر بھی ہے کہ رسالہ پڑھ لینے کے بعد آپ تھوڑے سے غصے کا اظہار بھی کریں گے ۔ ہر کوئی سوچ رہا ہوگا کہ یہ ننھا سا رسالہ ہر بار اتنی دیر سے کیوں آتا ہے۔ تین ماہ کا عرصہ کافی ہوتا ہے۔ آپ کا غصہ بجا ہے لیکن ذرا میری بھی تو سنئیے جناب۔ کیا آپ خود اپنے طرز عمل کے بارے میں غور کرنا پسند فرمائیں گے۔ جی مجھے کہنے دیجئیے کہ رسالے کو دیر سے آنے کا طعنہ دینے والوں میں بہت سے ایسے شامل ہیں کہ جنہوں نے تحریریں بھیجنے میں کافی زیادہ وقت لگایا ہے۔ ان میں سے ہی بہت سے ایسے ہیں کہ جنہوں نے اس رسالے کے لیے کسی قسم کی تحریر ارسال کرنے سے گریز کیا ہے۔ شاید انہیں یہ سب کچھ پسند نہیں آیا یا پھر وہ ابھی تک اس کی افادیت سے آگاہ نہیں ہو پائے۔ اور ہاں ایک بڑی تعداد ان کی بھی ہے کہ جنہوں نے اس رسالے کی تیاری کے لیے مقرر کی گئی معمولی سی رقم دینے سے ہی گریز کیا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایسا کیوں ہوا۔ کیا یہ بہت زیادہ رقم تھی ۔ میرا تو خیال ہے کہ تین ماہ کے دوران صرف ایک سو روپیہ یعنی ہر گھرانہ روزانہ کا صرف ایک روپیہ دینے سے قاصر ہے؟؟۔ کچھ ایسی ہی وجوہات ہیں کہ رسالہ دیر سے آپ کے پاس پہنچ رہا ہے۔ یقین کریں کہ یہ ایک محنت طلب کام ہے اور اس کی تیاری میں گھنٹوں لگتے ہیں ۔ اس کا مقصد صرف خاندان کے بچوں میں ادبی ذوق پیدا کرنا اور کچھ اچھی روایات کو فروغ دینا ہے۔ اور صرف اسی مقصد کے لیے ہم مشکلات سے کھیل رہے ہیں۔ لیکن بعض لوگوں کے ردعمل سے واقعی مایوسی ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس مرتبہ فیصلہ ہو ہی جانا چاہیے کہ رسالے کو جاری رکھنا ہے یا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر کم از کم پچیس گھرانے بھی اس منصوبے میں حصہ دار بن جائیں تو یہ کامیابی سے چل سکتا ہے ۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر ہمیں بھی اپنے اس مہنگے شوق سے باز آ جانا چاہیے۔ کیونکہ ہم کوئی خیراتی رسالہ نہیں چلا رہے اور نہ ہی اس کا مقصد ثواب دارین حاصل کرنا ہے۔ سانجھ کا تقاضا ہے کہ سب مل کر اس کی تیاری میں حصہ لیں اور اگر ایسا نہیں ہو پاتا تو پھر ہماری اس آخری کوشش کو ضرور یاد رکھیئے گا اور ہو سکے تو دعا بھی کرد یجئیے گا۔

میراجنم دن

زندگی کے پورے سولہ سال مجھے اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ اللہ تعالٰی نے مجھے کس خاص دن اس عالم دنیا میں تشریف آوری کا شرف پخشا ہے۔ بھلا ہو امریکہ کا اس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ میں اپنے مشہورو معروف اور تہلکہ آمیز جنم دن کے بارے میں خوب سوچ بچار کروں۔۔ دو ہزار ایک تک تو بس اتنا ہی پتہ تھا کہ قائد اعظم اس دن دار فانی سےکوچ کرکے جاتے جاتے سارےپاکستان کی ذمہ داری میرے ناتواں کندھوں پر ڈال گئے تھے۔ کیونکہ یہی دن ان کی وفات کا ہے۔ آپ نے اکثر جھوٹی فلموں میں دیکھا ہوگا کہ جیسے ہی کسی عظیم لیڈر کی موت کا وقت قریب آتا ہے۔عین انہی لمحات میں آنیوالے دور کا ایک لیڈر پیدا ہو رہا ہوتا ہے۔۔۔۔ لیکن کیا ہے کہ ایسی ساری فلمیں جھوٹی ہوتی ہیں اور ان پر اعتبار کر کے ایسی کسی خوش فہمی میں مبتلا رہنا بےوقوفی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم امریکہ نے نائن الیون کی عجیب و غریب حرکت کر کے مجھے ایک دفعہ پھر اپنی سالگرہ کی مفہوم و اہمیت کے بارے غور کرنا پڑا۔۔۔ کیسا عجیب منظر ہے کہ سالگرہ کی خوشی ایک ایسے حادثے سے جڑی ہو کہ جس نے لاکھوں انسانوں کی زندگی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ امریکہ میں نائن الیون دہشت کی علامت ہے اور افغانستان اور عراق کے لوگ بھی اس دن کی تباہ کاریوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔۔ میرے کلاس فیلوز کہتے تھے کہ تمہں امریکہ والوں نے کھبی ویزہ نہیں دینا کیونکہ تمہاری سالگرہ کی خوشی انکی ہلاکت کی علامت سے جڑی ہوئی ہے۔ چلو یہ سب تو قابل برداشت تھا لیکن اس بار تو نائن الیون کا دن اور بھی ہنگامہ خیز گزرا ہے۔۔ امریکیوں نے پاکستانی علاقے پر میزائل مار کر پاکستانیوں کو شہد کردیا ہے۔۔ اور پاکستانی فوج کے سربراہ نے امریکی حملوں کا خوب جواب دینے کا اعلان کیا ہے۔ یعنی نائن الیون کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔۔ میرا ایک دوست بڑا سیانا ہے اس نے مجھے ایک بڑے پتےکی بات بتائی ہے کہ یہ ساری سازشیں دراصل تمہارے خلاف ہیں کیونکہ دنیا والے کھبی بھی اچھے لوگوں کو برداشت نہیں کرتے اور ان کے خلاف ہو جاتےہیں۔۔ اب یہ تو پتہ نہیں اس نے مجھے کیونکر اچھا کہا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ تمام ممالک کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ لڑائی جھگڑے کا شوق پورا کرنے کےلیے کسی اور دن کا انتخاب ہی کر لیں۔۔ نائن الیون ہی ضروری نہیں ہے۔۔۔ اور میرا تو خیال ہے کہ سال کے سارے دنوں کو کسی نہ کسی کی خوشی کا لمحہ قرار دیکر ان میں لڑائی جھگڑے سے پرہیز کیا جائے۔۔ اور دنیا میں امن کے لیے کوششیں کی جائیں۔۔۔

میری تو دعا ہے کہ اگلا نائن الیون امن کا پیغام لیکر آئے۔۔اور سال کےسارے ہی دن پیارومحبت کے پھیلاو کا باعث بننے لگیں نہ کہ خوف اور دہشت کی علامت۔۔۔

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی