مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Thursday, July 15, 2010

یوم پاکستان کا پیغام

تئیس مارچ انیس سو چالیس کے دن برصغیر کے مسلمانوں نے ایک آزاد وطن کا خواب دیکھا تھا۔ انگریزوں اور ہندوو ¿ں کے ظلم و ستم کے ستائے ہوئے لوگوں نے آزاد فضاو ¿ں میں سانس لینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔ یہ دن ایک عزم کے اظہار کا دن ہے کہ جب لاکھوں پروانے قائد اعظم کی پکار پر دنیا کی پہلی نظریاتی ریاست بنانے کے لیے نکل پڑے تھے۔ مسلمانوں کے غزوہ بدر کی طرح قائد اعظم کے ان ساتھیوں نے ہندو اکثریت اور انگریزوں کی طاقت کے سامنے ڈٹ جانے کی قسم کھائی تھی۔ یہ دن ہمیں اس وعدے کی پاسداری کی یاد دلاتا ہے کہ جب ہمارے بزرگوں نے آنیوالے نسلوں کو آزادی کی نعمت سے مالا مال کرنے کے لیے قربانیوں کی داستان رقم کی تھی۔ مسلم لیگ قرارداد پاکستان کی منظوری تک ایک بڑی جماعت نہ تھی اور نہ ہی مسلمانوں کے اکثریت اس کے ساتھ تھی لیکن اس قرارداد کے منظور ہوتے ہی اس کی مقبولیت اپنی انتہا کو چھونے لگی۔ سب کی زبان پر صرف ایک ہی نعرہ تھا کہ " پاکستان کا مطلب کیا۔۔ لا الہ الا اللہ "" اور اسی نعرے کی گونج میں یہ سفر شروع ہوا۔ تئیس مارچ انیس سو چالیس تو آغاز سفر تھا ۔ اس دن اقبال کے خواب کی تعبیر کے لیے قائد اعظم کی قیادت میں قافلے نے رخت سفر باندھا۔ یہ پر عزم لوگ تھے۔ یہ معاشرے کے وہ پسے ہوئے افراد تھے کہ جنہیں انگریزوں اور ہندوو ¿ں نے زندگی کی ہر خوشی سے محروم کر کے رکھ دیا تھا۔ یہ اپنا حق لینے نکلے تھے۔ یہ نہتے لوگ طوفانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ یوم پاکستان نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں اہم ترین مقام رکھتا ہے کیونکہ اسی دن ایک ایسی تحریک کا آغاز ہوا اور ایک ایسی جدوجہد کی بنیاد رکھی گئی کہ جو مکمل طور پر پر امن تھی۔ یہ سفر آسان ہرگز نہ تھا کیونکہ ہر ہر قدم پر شدید مخالفت اور مشکلات کا سامنا تھا۔ کہیں اپنے مخالف تھے تو کہیں بیگانے سازشی۔ کہیں ہندوو ¿ں کا پروپیگنڈا تھا تو کہیں انگریزوں کے الزامات۔۔ قیدو بند کی صعوبتیں تھیں تو کہیں سزاو ¿ں کی داستان۔۔ مقدمات کا سامنا تھا تو کہیں ریاستی جبر سے مقابلہ۔۔ کتنے ہی لوگوں کو اپنے پیاروں سے محروم ہونا پڑا ۔ کتنی ماو ¿ں بہنوں کے آنچل چھین لیے گئے۔۔ کتنے معصوم بچوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ کتنے ہی خوبصورت نوجوان بے دردی سے شہید کر دئیے گئے۔ ہجرت کی داستانیں تو اتنی غمناک ہیں کہ راتوں کی نیند اڑ جائے ۔۔ ہجرت بھی ایسی کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگنا پڑا ۔۔ عزت اور دولت کے ڈاکوو ¿ں سے بچ کر گزرنا تھا۔۔ جو شاہانہ زندگی گزارتے تھے ان کے لیے اب خیموں کی صعوبتیں تھیں ۔۔ جو گاڑیوں میں گھومتے تھے انہیں سینکڑوں میل پیدل آنا تھا۔۔ لیکن یہ لوگ باہمت اور جوان جذبوں والے تھے۔۔ ان غیر مسلح لوگوں نے ظالم ہندوو ¿ں اور بربریت کی داستانیں رقم کرنیوالے انگریزوں سے ٹکرانا تھا۔ اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ ان پرعزم اور باہمت لوگوں نے یہ خواب سچا کر دیکھایا۔ صرف سات سال کی کھٹن اور تکیلف دہ جدوجہد نے ہی تمام مخالفوں کو پاکستان کا مطالبہ منظور کرنے پر مجبور کر دیا۔ تئیس مارچ انیس سو چالیس کو دیکھا گیا خواب چودہ اگست انیس سو سینتالیس اپنی تعبیر سے ہمکنار ہو رہا تھا ۔
جی ایک معجزہ ہو چکا تھا ۔ صرف سات سال پہلے کیے گئے عہد کو ایفا کر دیا گیا تھا۔ قربانی کی بانہوں میں جھولتی آزادی ہمیں نصیب ہو چکی تھی۔ پاکستان بن چکا تھا۔۔ دنیا کی پہلی نظریاتی ریاست۔ قائد و اقبال کے خوابوں کی تعبیر۔۔ لیکن سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس ارض پاک کے بننے میں اگر کوئی اہم ترین دن آیا تو وہ تئیس مارچ انیس سو چالیس کہ جسے اب ہم یوم پاکستان کے نام سے یاد کرتے ہیں کیونکہ عہد تو اسی دن ہوا تھا نہ۔۔ خواب تو اسی دن دیکھا گیا تھا۔۔۔ یہ دن انمول ہے اور ہمیں چاہیے کہ آج بھی اسی طرح ملک کو ترقی یافتہ ، پرامن اور عالم دنیا میں معزز ترین بنانے کے لیے عہد کریں۔۔۔

ملکی حالات اور نوجوانوں کی ذمہ داری

ہم میں سے ہر کوئی اس حقیقت سے واقف ہے کہ ملک پاکستان کو ان دنوں شدید ترین مشکلات کا سامنا ہے ۔ بم دھماکوں ، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے ۔ بہت سے ملکی اور غیر ملکی شرپسند عناصر ارض پاک کا امن و امان تباہ کر دینا چاہتے ہیں ۔ ملک میں موجود بہت سے گروہ اسلامی جماعتوں کے لبادے میں غیر ملکی ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔ مساجد میں دہشت گردی کے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں جبکہ علماءکرام پر حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ معصوم اور پرامن شہریوں کو قتل و غارت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ مذہبی حلقے شرپسندوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں اور ایسے عناصر کی کوشش ہے کہ ملک کو ایک بار پھر فرقہ وارانہ فسادات کی طرف دھکیل دیا جائے ۔ مذہبی جلسوں ، جلوسوں کی آڑ میں بعض شرپسند عناصر افراتفری ، نفرت اور تعصب کی فضاءقائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ عوام کے جذبات کو مشتعل کرکے دوسرے مسالک اور مذہبی تنظیموں کے خلاف ابھارا جا سکے ۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران ایسے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں کہ جن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملک کو مسلح تصادم کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ ان حالات میں معاشرے کے ہر فرد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ شرپسند اور غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کار عناصر کے خلاف متحد ہو جائیں ۔ ہمیں نہ صرف اپنے اردگرد نظر رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ عملی طور پر ہر قسم کے حالات کے لیے تیاری کرنا ہوگی ۔دین الہی کی تبلیغ اور اسلام کی دعوت کو عام کرنے کا راستہ سب سے زیادہ پرخطر بنتا جا رہا ہے ۔ دین کی تبلیغ کو ہر حال میں جاری رکھنا ہم سب کا فرض ہے ۔ مشکل حالات میں نوجوان نسل پر سب سے زیادہ ذمہ داری عای
¿د ہوتی ہے کہ وہ اپنے مذہبی فریضے کو سمجھیں اور دینی جماعتوں کا ساتھ دیں ۔ مسلک حقہ کا رکن ہونے کے ناطے آپ احباب کا فرض بنتا ہے کہ دینی جماعتوں کے دست و بازو بن جائیں اور دین اسلام کی تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھنے میں مدد گار بنیں۔ نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے آپ کو یوتھ فورس کے ساتھ منسلک کریں اور جماعتی نظم کے تحت کسی بھی ناگہانی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اگر کسی بھی لمحے کوئی شرپسند کسی جلسے ، درس یا جلوس کو منفی ہتھکنڈوں سے روکنے کی کوشش کرے تو نوجوانوں کی یہ جماعت اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے موجود ہو۔ آپ کا فرض بنتا ہے کہ دین کے لیے اپنے وقت کو وقف کریں اور ہر اہم تقریب کے موقعے پر حاضر ہوں ۔ یوتھ فورس کی قیادت نوجوانوں کے ایسے گروپ بنانے کی تیاری کر رہی ہے کہ جو مختلف مواقع پر متحد ہو کر سکیورٹی کے فرائض سر انجام دیں سکیں ۔ ایک ایسا نظم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس میں مسلک حقہ کو ماننے والے تمام نوجوانوں کو لایا جا سکے اور بہ وقت ضرورت ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جا سکے ۔ فیصل آباد کے واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر کسی جماعت کے پاس حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے نوجوان افراد کی خاطر خواہ تعداد موجود نہ ہوتو اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ اگر کسی جماعت کے فعال کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کسی بھی ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے موجود نہ ہو تو شرپسند عناصر کو اس جماعت کے رہنماو
¿ں اور ان کی املاک کو نشانہ بنانے کا موقعہ مل جاتا ہے ۔ اس صورتحال کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ یوتھ فورس کے نظم کو مضبوط کیا جائے ۔ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کے ساتھ رابطے کرکے ایک ایسا گروپ تشکیل دے دیا جائے جو کہ ہر موقعے پر خود کو پیش کرنے کے لیے تیار ہو۔ یہ افراد جلسوں اور دیگر تقریبات کی سکیورٹی کا فریضہ سر انجام دیں ۔ اس طرح ایسے شر پسند عناصر کہ جو محض تعصب اور عناد کی بنیاد پر نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ بھی محتاط رہیں گے اور بلاوجہ گڑ بڑ کی کوشش نہیں کی جائے گی ۔

خواتین کا معاشرتی کردار

خواتین نے اپنی محنت اور لیاقت کے بل بوتے پر زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بعض ایسے مشکل کام جو کہ پہلے عورتوں کے لیے ممنوع سمجھے جاتے تھے ۔ آج ان میں ہی خواتین نے اپنی صلاحیت ثابت کر دی ہے ۔ آج خواتین پائلٹ بن کر جہاز اڑا رہی ہیں اور محقق بن کر پیچیدہ سائنسی مسئلے حل کرنے میں مصروف ہیں ۔ انجیئرنگ کی شعبے میں بھی خواتین کی شرکت بڑھتی جا رہی ہے اور آج کے پروفیشنل ادارے خواتین سے بھرے نظر آتے ہیں ۔ سپاہ گری اور جرائم کے خلاف منظم فورسز میں ایک عرصے تک خواتین کو بھرتی نہیں کیا جاتا تھا لیکن اب دنیا بھر میں خواتین پائلٹس کی تعداد ہزاروں میں ہے جبکہ شاید ہی کوئی فوج ایسی ہو جس میں خواتین موجود نہ ہوں ۔ خواتین اگلے محازوں پر موجود ہیں اور جدید اسلحے کو بخوبی استعمال کر رہی ہیں ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب نے خواتین کے لیے بے شمار مواقع پیدا کیے ہیں کیونکہ اس شعبے میں خواتین باقی شعبوں کی نسبت زیادہ آزادی اور تحفظ کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے سکتی ہیں ۔ اور یہی وجہ ہے سافٹ وئیر کی دنیا اور آئی کی دیگر شعبوں میں خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ پاکستان کی ایک نو سالہ لڑکی مائیکرو سافٹ کا سرٹیفیکیٹ حاصل کر چکی ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خواتین نے معمولی اور چھوٹی سطح کے کام کاج کی بجائے پیچیدہ اور زیادہ منافع بخش کاموں میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دی ہے ۔ خواتین آج دنیا کی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں اہم پوزیشنز پر موجود ہیں ۔ پروفیشنل تعلیم کے حصول کے بعد انہوں نے ہر اہم پوسٹ کے لیے خود کو اہل ثابت کیا ہے ۔ سیاست ہمیشہ سے ہی کسی بھی معاشرے کا اہم ترین شعبہ رہا ہے اور اس کے زریعے ہی معاشرے کو کنٹرول کیا جاتا ہے ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور ہر ملک میں مقامی سطح پر خواتین کی جدوجہد کے باعث سیاست میں خواتین اہم ترین مقام حاصل کر چکی ہیں ۔ پاکستان میں خاتون وزیر اعظم محترمہ بے نظیر دو مرتبہ اپنے عہدے پر منتخب رہ چکی ہیں ۔ بنگہ دیش میں وزیر اعظم اور اپوزیشن دونوں ہی خواتین ہے ۔ بھارت میں صدر اور سپیکر کے عہدے پر خاتون موجود ہے ۔ جرمنی کی چانسلر خاتون ہیں جبکہ دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکہ کی طاقتور ترین وزیر خارجہ بھی ایک خاتون ہی ہیں ۔ ہیلری کلنٹن نے صدارت کے لیے بھی جدوجہد کی تھی جو کہ امریکہ کی تاریخ میں پہلا موقع ہے ۔ تھائی لینڈ میں گیارہ سال سے زائد عرصے سے نظر بندی کی سزا کاٹتی آنگ سان سوچی جمہوری جدوجہد اور عوامی حقوق کے حوالے سے ایک روش مثال بن چکی ہے ۔ خواتین اب انتہائی پراعتماد طریقے سے عام انتخابات میں حصہ لیتی ہیں ۔ بھارت میں سونیا گاندھی ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی والے اس ملک کی طاقتور ترین شخصیت سمجھی جاتی ہیں ۔ سماجی شعبے میں خواتین کی شرکت بھی بہت زیادہ ہے ۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کی این جی اوز میں خواتین خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ حتی زیادہ تر این جی اوز کا مکمل کنٹرول خواتین کے پاس ہے ۔ یہ این جی اوز نہ صرف خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی ہیں بلکہ سماجی برائیوں کے خلاف بھی سرگرم عمل ہیں ۔ صحافت اور میڈیا اور شوبز کے شعبوں کی زیادہ تر رنگینیاں خواتین کے ہی دم سے ہیں ۔ آج کی دنیا میں ایسی بھی اداراکائیں اور ماڈلز پائی جاتی ہیں کہ جو اپنی محنت سے کروڑوں ڈالر کی مالک ہیں ۔ انہوں نے ان شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو منوا کر شہرت اور دولت کی بلندیوں کو چھوا ہے ۔ خواتین نے شوبز اور میڈیا میں صرف کیمرے کے سامنے سجنے سنورنے اور اداکاری کے میدانوں میں ہی کام نہیں کیا بلکہ بہت سی خواتین عملی میدانوں میں بھی موجود ہیں ۔ مغربی میڈیا سے منسلک خواتین افغانستان اور عراق جیسے شورش زدہ علاقوں میں فرائض سرانجام دیتی پائی جاتی ہیں ۔ بعض نے اس دوران قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کی ہیں ۔ ٹیچنگ کا شعبہ خواتین کے لیے ہمیشہ سے ایک نمایاں مقام رکھتا ہے ۔ بہت سے ایسے معاشرے کہ جہاں خواتین کے کام کاج پر پابندی ہوتی ہے وہاں بھی خواتین کی بطور استاد خدمات کو سراہا جاتا ہے ۔ نفیساتی ماہرین اس چیز پر متفق ہیں کہ خواتین ننھے بچوں کا پڑھائی سے لگاو بڑھانے اور سمجھانے میں زیادہ کامیاب ہو جاتی ہیں اور ان کا نرم رویہ بچوں کو پڑھائی سے مانوس کر دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی زیادہ تر پرائمری استاتذہ خواتین ہی ہیں ۔ ۔ نرسنگ کے شعبے میں خواتین کی خدمات کسی تعارف کی محتاج سے کم نہیں ۔ زندگی سے مایوس اور انتہائی خطرناک بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی دیکھ بھال کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتی اور خواتین نے اس ڈیوٹی کو خوب طریقے سے نبھایا ہے اور ہسپتالوں میں ہزاروں خواتین خدمات سرانجام دے رہی ہیں ۔ لیڈی ڈاکٹرز بچوں اور عورتوں کے حوالے سے انتہائی کامیاب ثابت ہوتی ہیں

ایک یادگار شادی کا احوال

آصف کی شادی واقعی دلچسپ واقعہ ہے۔۔ اس نے شادی کارڈ پکڑاتے ہی ہمیں دھمکی دی تھی کہ اگر کوئی صبح آٹھ بجے سے ایک منٹ بھی لیٹ ہوا تو اس کو بارات کے ساتھ نہیں لے جایا جائے گا۔ اور ہم بیچارے سارے ہی اس کی دھمکی میں آ گئے۔ جوجی اور حنان کا کہنا تھا کہ ہم تو جیسے زندگی میں پہلی مرتبہ اتنی جلدی اٹھے ہیں۔ خیر میں بھی آٹھ بجے پہنچ چکا تھا۔ وہاں موجود لوگوں سے آصف کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ وہ تیار ہونے گیا ہے۔۔ جب کہ اندر کی خبر یہ ہے کہ بہت سے پارلر والوں نے اسے تیار کرنے سے انکار کر دیا تھا اور پھر کافی بڑی رقم دیکر ایک بندے کو راضی کر لیا گیا۔۔ اس کی وجہ کی تلاش ابھی جاری ہے۔۔ خیر مجھے تو اس کے ایک کزن نے ایک ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔۔ دو گھنٹے موبائل پر ریڈیو سنتے اور لوگوں کو ایس ایم ایس کرکے تنگ کرتے گزرے۔۔ اس دوران آصف کو صلواتیں سنانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔۔ اچانک ایک بھونچال آ گیا۔۔ پتہ چلا کہ صاحب سلامیاں وصول کرنے کےلیے باہر گلی میں سجائے گئے ہال میں تشریف لا رہے ہیں۔۔ اور مجھے تو سب سے زیادہ حیرانی اس بات پر ہوئی جب تین چار لوگوں نے مجھے نام لیکر پکارا اور فوری طور پر آصف کے ساتھ بٹھا دیا گیا۔۔ اتنی عزت افزائی کا پتہ تو بعد میں اس وقت چلا کہ جب مجھے ایک ڈائری اور پن پکڑا کر سلامیاں لکھنے پر لگا دیا گیا۔۔ خیر ایک مصروفیت تو مل گئی نہ۔۔ کوئی پنتالیس منٹ تک آصف صاحب امیر ہوتے رہے جبکہ میں پاس بیٹھا ایک اچھے اور ایماندار اکاو ¿نٹنٹ کی طرح بڑی بڑی رقمیں لکھتا رہا۔۔ اور ہاں آصف کے قد کاٹھ میں اس سے بھی بڑے شہ بالے کے بارے میں تو میں بتانا ہی بھول گیا۔۔ بیچارے کو بار بار بتانا پڑتا تھا کہ میں دولہا ہوں ورنہ کوئی اس پر اعتبار کرنے کو تیار ہی نہ تھا۔۔ خیر سلامیاں وصول کرنے کے بعد آصف صاحب تو پتہ نہیں کہاں روانہ ہو گئے لیکن میں جوجی اور حنان کے ساتھ بارات کی روانگی کا انتظار کرنے لگا۔۔ اس دوران آصف نے گلی میں دو چار چکر لگانے کا مظاہرہ کیا۔۔ اس کے ساتھ فیملی کے کچھ لوگ تھے جبکہ ان کے پیچھے پیسے لوٹنے والے دو چار سو بچے تھے۔ جن کی وجہ سے وہاں ایک ہنگامہ مچا ہوا تھا۔ بارات لیٹ ہو رہی تھی اور گرمی کے باعث براحال ہوتا جا رہا تھا جس پر ہم نے آصف کو کافی مہذب الفاظ میں یاد کیا۔۔ تھوڑی دیر بعد آصف بھی گاڑی میں بیٹھا تو کچھ امید پیدا ہوئی۔۔ لیکن جی اس ساری باراک کا ریمورٹ کنٹرول جن کے پاس تھا ان کو کسی بھی قسم کی جلدی نہ تھی وہ ہر منٹ بعد گاڑیاں روک دیتے۔۔ بعد میں ایک اور انکشاف ہوا کہ محلے والوں نے اس بارات کو روکنے کے لیے راستہ ہی بند کر رکھا ہے اور اب کسی دوسرے راستے سے جانا ہے۔۔ اگر اس نے محلے والوں سے تعلقات ٹھیک رکھے ہوتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔۔
خواتین کا معاشرتی کردار

پھول والا دن( پارٹ ٹو

ابھی چند برس ہوئے ہیں میں نے پھول والا دن کے نام سے ویلنٹائن ڈے کی ایک مزاحیہ روداد لکھی تھی۔ بس یونہی آپ مخلص اور اچھے دوستوں کے سنگ خوشیوں بھرے دن گزار رہے ہوں تو ایسی شرارتیں سوجھتی رہتی ہیں۔آصف یونس نے پیغام بھیا ہے کہ اک بار پھر سے کوئی نیا شکوتنہ نہ چھوڑا جائے۔ 14 فروری کے حولاے سے پھر ایک ہنسانے ولای کوئی رومانوی کہانی لکھ دو۔ اس بھولے بادشاہ کو کیا معلوم کہ اب وقت کے تیز دھارے میں کتنا کچھ بدل چکا ہے۔ ایک ٹی وی چینل کے نیوز روم میں بیٹھ کر جہاں بجنے ولای ہر گھنٹی کسی نئے حادثے کی خبر دیتی ہے آپ کس طرح کوئی رومانوی قصہ چھیڑ سکتے ہو۔ میرے خوش باش ملک میں بدقستمی سے اندھیریوں نے اتنا سرخ خون بکھیرا ہے کہ ہم تو شائد اب سرخ گلاب کو بھول ہی گئے ہیں۔ خون کا رنگ گلاب سے کچھ زیادہ گہرا ہوتا ہے اور جہاں جابجا خون بہنے کے واقعات عام ہوں وہاں کے باسیوں کو سرخ گلاب کی تجارت سے باز رہنا چاہےے جب ہمارے پاکستانی پھول بارود کی بارش میں سرجھا رہے ہیں تو ہم کس طرح درختوں پر اگلنے والے سرخ گلابوں کے تبادلے کی بات کریں شائد بہت سے روشن خیال لوگ اسے بورنگ اور قدامت پرستانہ رویہ قرار دیں لیکن میرے خیال میں بے حسی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے خواب غفلت میں گہری نیند سونا ٓج کا فیشن ٹھہرا ہے لیکن کچھ سرپھروں کو بیدار بھی رہنا چاہےے وہی جنہیں ماڈرن لوگ ضبطی خیال کرتے ہیں اور انہیں پرانے زمانے کے بوسیدہ خیالات کے حامل قرار دیتے ہیں۔ یار مجھے معاف کر دینا میں اس بار تمہارے لےے کسی مسکراہٹ کا اہتمام نہیں کر پاﺅں گا جب دل ہی اداس ہو تو لفظوں سے مصنوعی خوشیوں کی جھنکار پیدا نہیں کی جاسکتی اردگرد بکھرا گہرا سرخ خون سرخ گلابوں کو ہمارے لےے اجنبی بنا رہا ہے۔ میرے دوست مجھے چند سال پہلے ہمارے گرد پھیلی مسکراہٹوں کی تھوڑی سی آہٹ سنادو، کالج کی راہداریوں میں گونجتے خوشگوار قہقہوں کی جھلک دکھا دو کہ جب میرے دیس میں خون کا تذکرہ عام نہیں ہوا تھا کہ جب ہم خوب خوشی کے میلے منایا کرتے تھے۔ اگر تم وہ گزرتے دن واپس لاسکو تو میرا وعدہ ہے کہ میں پھر سے کوئی ہنسانے والا قصہ لکھنے کی کوشش کروں

سانجھ میں تحریر کردہ



رسومات چھوڑیں ۔۔۔ سکھ پائیں

سانجھ کے بڑے مقاصد میں ایک خاندان کو بہتری کی طرف رہنمائی کرنا بھی تھا اور اسی سلسلے میں اس دفعہ نہائیت ہی اہم مسئلہ زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث بہت سے خاندانوں کے لیے رشتے ناتے نبھانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ خوشی اور غمی کی تقریبات میں شرکت محدود ہوتی جا رہی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خاندان کے کچھ گھرانے خود کو بہت سے رسم و رواج کو نبھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سانجھ کے ذریعے ایک انقلابی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ خاندان کے بزرگوں سے گزارش ہے کہ وہ اس سلسلے میں بھرپور رہنمائی کریں ۔ اس سلسلے میں ایک اہم اجلاس بھی منعقد کیا جائے گا جس میں تمام بڑوں کو دعوت دی جائے گی ۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اس سلسلے میں بھرپور تیاری کریں اور اجلاس میں مفید مشورے دیں۔ اس سلسلے میں حافظ سرور (03217990563) کے ساتھ رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر سارے خاندان کا اتفاق ہو جائے تو مندرجہ ذیل رسومات کا خاتمہ کر دیا جائے۔

٭ جب کوئی کسی رشتہ دار کے گھر ملنے جائے تو واپسی پر اسے رقم نہیں دی جائے گی۔( یعنی ہر گھرانہ مہمان کی اچھی طرح خدمت کرے کیونکہ مہمان رحمت ہوتا ہے تاہم واپسی پر اسے یا بچوں کو پیسے نہیں دئیے جائیں گے کیونکہ یہ ایک اضافی بوجھ ہے۔

٭ جب کسی شادی شدہ جوڑے کی دعوت کی جائے تو اسے بھی کپڑے اور پیسے نہیں دئیے جائیں گے۔

٭ جب کوئی کسی کی بیمار پرسی کرنے جائے گا تو وہ پھل وغیرہ تو لیجا سکتا ہے تاہم پیسے وغیرہ نہیں دئیے جائیں گے۔ ( یہ اس لیے ضروری ہے کہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بہت سے رشہ دار صرف اس لیے کسی کی بیمار پرسی نہیں کرتے کیونکہ اس کے لیے کافی زیادہ پیسے درکار ہوتے ہیں۔ البتہ بیمار کی مالی مدد کے لیے سانجھ بنک قائم کیا جائے گا۔

اسی طرح یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ اجلاس میں مزید رسوم کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا اور جن پر اتفاق ہو گا ان کو ختم کر دیا جائے گا اور سب لوگ اس کی پابندی کریں گے۔سب لوگوں سے ایک دفعہ پھر التماس ہے کہ اس بارے میں اپنے قیمتی مشورے ارسال کریں۔



اظہار تشکر

سب سے پہلے تو ہمیں اللہ تعالی کا بے حد شکر ادا کرنا چاہیے کہ جس نے ہمیں سانجھ رسالے کا دوسرا شمار آپ کے لیے پیش کرنے کی توفیق بخشی ہے۔ ہم تمام قارئین کے بھی بے حد مشکور ہیں کہ جنہوں نے پہلے رسالے کو اس قدر پسند کیا اور بعض نے تو خطوط لکھ کر ہماری حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔ اگرچہ ان کی تعداد توقع سے انتہائی کم رہی لیکن ہمیں پھر بھی ان کی کوشش کی ضرور داد دینی چاہیے۔ تمام لکھاریوں نے کافی محنت سے اس رسالے کے لیے تحریریں ارسال کیں جس پر ہم ان کے بھی بے حد مشکور ہیں۔ رسالے کی تیاری میں خصوصی معاونت کرنیوالے افراد یعنی حافظ سرور صاحب، جناب نعیم احمد نعیم صاحب ۔ اسلام آباد والے، جناب حافظ آصف سہیل صاحب (پرفیکٹ آئی ٹی سلوشن والے) کا ذکر بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ ان کی معاونت کے بغریر یہ رسالہ آپ کی خدمت میں نہیں پہنچ سکتا تھا۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ اگلے رسالے کے لیے جلد از جلد تحریرں ارسال کریں ار ہاں۔ چوری شدہ مواد اور انتخاب بھیجنے سے گریز کریں ۔ خود لکھیں اور خاندان کے واقعات سے اس رسالے کی مدد کریں۔ دوسروں کو بھی ایسا ہی کرنے کی تلقین کریں۔اگر سب کا تعاون جاری رہا تو ہمیں یقین ہے کہ آنیوالے دنوں میں ہم مزید بہترین رسالہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

سانجھ بنک کا قیام

سانجھ کی انتظامیہ نے رسالے کی وساطت سے ایک انقلابی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس منصوبے کے تحت خاندان کا ایک بنک قائم کیا جارہا ہے کہ جس کی مدد سے خاندان کے مالی معاملات کو کنٹرول کیا جائے گا۔ منصوبے کے تحت خاندان کا ہر گھرانہ اس کا ممبر ہوگا اور ہر ممبر ماہانہ ایک معمولی رقم جمع کرائے گا۔۔ رقم کا فیصلہ خاندان کے بزرگوں کے ہونیوالے اجلاس میں کیا جائے گا۔ اس رقم کو خاندان کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیا جائے گا اور یہ مشترکہ رقم کسی بھی ہنگامی حالت کی صورت میں ممبران کو فراہم کی جائے گی۔ مثلا خدا نہ کرے خاندان کے کسی فرد کو کوئی حادثہ پیش آ جاتا ہے یا پھر کوئی موذی بیماری لاحق ہو جاتی ہے تو اس کو سانجھ بنک سے رقم فراہم کی جائے گی۔ اس بنک سے خاندان کے ایسے ہونہار بچوں کو بھی مالی امداد فراہم کی جائے گی کہ جو وسائل کم ہونے کی بنا پر اعلی تعلیم نہ حاصل کر سکتے ہوں۔ اسی طرح فوتگی کی صورت میں اس سانجھی رقم سے کھانے کا انتظام بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اس بنک میں جمع ہونیوالی رقم کو بے شمار مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ خاندان کے کسی فرد کو کاروبار کے لیے بھی رقم فراہم کی جا سکتی ہے۔ اس بارے میں اصول وضوابط بنائے جا رہے ہیں اور اس منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بھی سب بزرگو ںکی مدد درکار ہے۔

اپنے بارے میں جانئیے۔ ( ایک نیا سلسلہ

سانجھ رسالے کی تیاری میں خاندان ے کے بڑے بہت کم حصہ لے رہے ہیں اس لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ماموں سرورکی طرح دوسرے لوگوں کی شخصیت کو موضوع بحث بنا یا جائے۔ اس سلسلے میں تمام بڑوں سے گزارش ہے کہ جو اپنے بارے میں دوسروں کے خیالات جاننا چاہتا ہو وہ ہمیں اطلاع کر دے۔ جو راضی ہوگا اس کے بارے میں تحریریں شائع کی جائیں گے ۔یعنی سانجھ کے لکھاری اس شخصیت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں گے اور یہ خیال رہے کوئی بھی اس سرگرمی کی وجہ سے ہرگز ناراض نہیں ہوگا۔ یہ ایک دلچسپ سلسہ ہوگا جس سے سب کو بھرپور شرکت کا موقعہ ملے گا اور اس طرح اس شخصیت کے بارے میں بھرپور معلومات بھی ملیں گی۔ ۔ پہلی مرتبہ ڈیرہ ملا سنگھ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے یعنی اس گاو


¿ں میں گزرے واقعات ۔ اس سے منسلک خوشیاں۔ ماحول اور وہ سب کچھ جو آپ اس کے بارے میں بتانا چاہیں۔ اور ہاں آئندہ اس سلسلے میں صرف اس شخص کا نام دیا جائے گا کہ جو خود آمادگی ظاہر کرے گا۔ میرے خیال میں سب کو چاہیے کہ ایمانداری سے اپنی رائے کا اظہار کریں ۔

پہلی بات

جیسے ہی رسالہ آپ کے ہاتھوں میں پہنچے گا تو میرا خیال ہے ضرور آپ خوشی سے اچھل پڑیں گے ۔ جی کیوں نہیں۔ ہم نے آپ کے خیالات سے ہی تو اس سانجھے رسالے کو چار چاند لگائے ہیں۔ لیکن مجھے ایک اور ڈر بھی ہے کہ رسالہ پڑھ لینے کے بعد آپ تھوڑے سے غصے کا اظہار بھی کریں گے ۔ ہر کوئی سوچ رہا ہوگا کہ یہ ننھا سا رسالہ ہر بار اتنی دیر سے کیوں آتا ہے۔ تین ماہ کا عرصہ کافی ہوتا ہے۔ آپ کا غصہ بجا ہے لیکن ذرا میری بھی تو سنئیے جناب۔ کیا آپ خود اپنے طرز عمل کے بارے میں غور کرنا پسند فرمائیں گے۔ جی مجھے کہنے دیجئیے کہ رسالے کو دیر سے آنے کا طعنہ دینے والوں میں بہت سے ایسے شامل ہیں کہ جنہوں نے تحریریں بھیجنے میں کافی زیادہ وقت لگایا ہے۔ ان میں سے ہی بہت سے ایسے ہیں کہ جنہوں نے اس رسالے کے لیے کسی قسم کی تحریر ارسال کرنے سے گریز کیا ہے۔ شاید انہیں یہ سب کچھ پسند نہیں آیا یا پھر وہ ابھی تک اس کی افادیت سے آگاہ نہیں ہو پائے۔ اور ہاں ایک بڑی تعداد ان کی بھی ہے کہ جنہوں نے اس رسالے کی تیاری کے لیے مقرر کی گئی معمولی سی رقم دینے سے ہی گریز کیا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایسا کیوں ہوا۔ کیا یہ بہت زیادہ رقم تھی ۔ میرا تو خیال ہے کہ تین ماہ کے دوران صرف ایک سو روپیہ یعنی ہر گھرانہ روزانہ کا صرف ایک روپیہ دینے سے قاصر ہے؟؟۔ کچھ ایسی ہی وجوہات ہیں کہ رسالہ دیر سے آپ کے پاس پہنچ رہا ہے۔ یقین کریں کہ یہ ایک محنت طلب کام ہے اور اس کی تیاری میں گھنٹوں لگتے ہیں ۔ اس کا مقصد صرف خاندان کے بچوں میں ادبی ذوق پیدا کرنا اور کچھ اچھی روایات کو فروغ دینا ہے۔ اور صرف اسی مقصد کے لیے ہم مشکلات سے کھیل رہے ہیں۔ لیکن بعض لوگوں کے ردعمل سے واقعی مایوسی ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس مرتبہ فیصلہ ہو ہی جانا چاہیے کہ رسالے کو جاری رکھنا ہے یا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر کم از کم پچیس گھرانے بھی اس منصوبے میں حصہ دار بن جائیں تو یہ کامیابی سے چل سکتا ہے ۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر ہمیں بھی اپنے اس مہنگے شوق سے باز آ جانا چاہیے۔ کیونکہ ہم کوئی خیراتی رسالہ نہیں چلا رہے اور نہ ہی اس کا مقصد ثواب دارین حاصل کرنا ہے۔ سانجھ کا تقاضا ہے کہ سب مل کر اس کی تیاری میں حصہ لیں اور اگر ایسا نہیں ہو پاتا تو پھر ہماری اس آخری کوشش کو ضرور یاد رکھیئے گا اور ہو سکے تو دعا بھی کرد یجئیے گا۔

میراجنم دن

زندگی کے پورے سولہ سال مجھے اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ اللہ تعالٰی نے مجھے کس خاص دن اس عالم دنیا میں تشریف آوری کا شرف پخشا ہے۔ بھلا ہو امریکہ کا اس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ میں اپنے مشہورو معروف اور تہلکہ آمیز جنم دن کے بارے میں خوب سوچ بچار کروں۔۔ دو ہزار ایک تک تو بس اتنا ہی پتہ تھا کہ قائد اعظم اس دن دار فانی سےکوچ کرکے جاتے جاتے سارےپاکستان کی ذمہ داری میرے ناتواں کندھوں پر ڈال گئے تھے۔ کیونکہ یہی دن ان کی وفات کا ہے۔ آپ نے اکثر جھوٹی فلموں میں دیکھا ہوگا کہ جیسے ہی کسی عظیم لیڈر کی موت کا وقت قریب آتا ہے۔عین انہی لمحات میں آنیوالے دور کا ایک لیڈر پیدا ہو رہا ہوتا ہے۔۔۔۔ لیکن کیا ہے کہ ایسی ساری فلمیں جھوٹی ہوتی ہیں اور ان پر اعتبار کر کے ایسی کسی خوش فہمی میں مبتلا رہنا بےوقوفی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم امریکہ نے نائن الیون کی عجیب و غریب حرکت کر کے مجھے ایک دفعہ پھر اپنی سالگرہ کی مفہوم و اہمیت کے بارے غور کرنا پڑا۔۔۔ کیسا عجیب منظر ہے کہ سالگرہ کی خوشی ایک ایسے حادثے سے جڑی ہو کہ جس نے لاکھوں انسانوں کی زندگی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ امریکہ میں نائن الیون دہشت کی علامت ہے اور افغانستان اور عراق کے لوگ بھی اس دن کی تباہ کاریوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔۔ میرے کلاس فیلوز کہتے تھے کہ تمہں امریکہ والوں نے کھبی ویزہ نہیں دینا کیونکہ تمہاری سالگرہ کی خوشی انکی ہلاکت کی علامت سے جڑی ہوئی ہے۔ چلو یہ سب تو قابل برداشت تھا لیکن اس بار تو نائن الیون کا دن اور بھی ہنگامہ خیز گزرا ہے۔۔ امریکیوں نے پاکستانی علاقے پر میزائل مار کر پاکستانیوں کو شہد کردیا ہے۔۔ اور پاکستانی فوج کے سربراہ نے امریکی حملوں کا خوب جواب دینے کا اعلان کیا ہے۔ یعنی نائن الیون کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔۔ میرا ایک دوست بڑا سیانا ہے اس نے مجھے ایک بڑے پتےکی بات بتائی ہے کہ یہ ساری سازشیں دراصل تمہارے خلاف ہیں کیونکہ دنیا والے کھبی بھی اچھے لوگوں کو برداشت نہیں کرتے اور ان کے خلاف ہو جاتےہیں۔۔ اب یہ تو پتہ نہیں اس نے مجھے کیونکر اچھا کہا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ تمام ممالک کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ لڑائی جھگڑے کا شوق پورا کرنے کےلیے کسی اور دن کا انتخاب ہی کر لیں۔۔ نائن الیون ہی ضروری نہیں ہے۔۔۔ اور میرا تو خیال ہے کہ سال کے سارے دنوں کو کسی نہ کسی کی خوشی کا لمحہ قرار دیکر ان میں لڑائی جھگڑے سے پرہیز کیا جائے۔۔ اور دنیا میں امن کے لیے کوششیں کی جائیں۔۔۔

میری تو دعا ہے کہ اگلا نائن الیون امن کا پیغام لیکر آئے۔۔اور سال کےسارے ہی دن پیارومحبت کے پھیلاو کا باعث بننے لگیں نہ کہ خوف اور دہشت کی علامت۔۔۔

ماں

ماں اس لازوال رشتے کا نام ہے کہ جو ہر حال میں بچوں کے لیے راحت و خوشی کا سامان پیدا کرتی ہے اور ایک ننھی منی جان کو زندگی کے حقائق کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ آج کی دنیا میں کم و بیش ہر ملک میں ماں کے عظیم رشتے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی خاص دن منایا جاتا ہے۔ مختلف ممالک میں ماوں کا دن منانے کی تاریخیں مختلف ہیں اور اس سلسلے کی ابتداءکیسے ہوئی ۔اس کے بارے میں بھی روایات الگ الگ ہیں۔ قدیم یونانی تہذیب میں یہ دن منانے کی روایت موجود تھی اور اس تہوار کو سائبیلی کا نام دیا گیا تھا ۔ جبکہ رومی تہذیب میں موٹرونالیا کے تہوار کا مقصد بھی ماوں کو خراج تحسین پیش کرنا تھا اور اس دن ماوں کو تحفے دئیے جاتے تھے۔ ایران میں ماوں کا دن حضرت محمد ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کے یوم ولادت کی نسبت سے قمری سال کے مطابق بیس جمادی الثانی کو منایا جاتا ہے۔ اگر مغرب کا رخ کریں تو برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک میں ایسٹر کے تہوار سے تین ہفتے قبل آنیوالا اتوار کا دن اس مقصد کے لیے مخصوص ہے۔ اور اس کا تعلق سولہویں صدی کیایک مذہبی روایت سے جوڑا جاتا ہے کہ جس دن خاندان کے تمام افراد ماوں کے ساتھ عبادت میں حصہ لیتے تھے۔ البتہ امریکہ اور کئی دوسرے ملکوں میں مئی کے دوسرے اتوار کو ماوں کا دن قرار دیا گیا ہے ۔ ایک امریکی شاعرہ اور صحافی جولیا وارڈ ہوو نے Julia Ward Howe اس دن کو سرکاری سطح پر منانے کی تحریک چلائی اور ااٹھارہ سو ستر میں پہلی دفعہ اپنی ماں کو تحفہ پیش کرکے ایک نئی روایت کا آغاز کیا ۔ انیس سو بارہ میں ایک سماجی کارکن انا جیرویس نے امریکہ میں Mother's Day International Association قائم کر کے حکومت سے اس دن کو منانے کی باضابطہ منظوری حاصل کی ۔ اسلامی نقطہ نظر سے ماں کے حقوق کو باپ کے مقابلے میں تین گنا زیادہ قرار دیا گیا ہے اور حضور اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے ۔ ماں کے کسی بھی انسان کی زندگی پر احسانات اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ انہیں تحائف اور الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے لیکن دنیا بھر کے لوگ اب ایک خاص دن منا کر اس عظیم ہستی کو خراج عقیدت پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس دن ماوں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے اور بچے مختلف قسم کے کارڈز، پینٹنگز ، پھولوں اور قیمتی تحائف کے ذریعے ماوں کے ساتھ محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔ اس دن کی نسبت سے مختلف تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے جن کا مقصد ماں جیسے لازوال رشتے کو سلام پیش کرنا ہوتا ہے

(مصطفی احمد شہید ۔(روداد

یار ذیشان! مصطفی احمد کی موت ایک پر اسرار حادثے کے نتیجے میں ہوئی ہے۔ شاید تم کو یہ سب اچھا نہ لگے لیکن اس کے جنازے میں موجود ہزاروں لوگوں کا یہی خیال تھا کہ اسے قتل کیا گیا ہے۔ ہمیں اس کے قریبی ہمسایوں سے یہ پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ مصطفی احمد کے والد نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا اور کچھ ہی عرصے کے بعد ان کے ساتھ ایک " حادثہ " پیش آ گیا۔ کیا تم کو یہ سن کر حیرانی نہیں ہو گی کہ ایک نوجوان کے گھر والے اس کا جان لیوا حادثہ ہو جانے کے بعد کافی دیر سے ہسپتال پہنچیں۔ جبکہ اس سے پہلے محلے کی مسجد کے امام کو فون آئے جس میں کہا جائے کہ " آپ کے نمازی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ جائیں اور اس کا پتہ لیں"" جبکہ گھر والے کافی دیر بعد پہنچیں ؟؟

یار ہم سب افسوس کے لیے مصطفی احمد صدیقی کے گھر گئے تھے۔ لیکن ہر کوئی یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہسپتال سے میت گھر پہنچنے کے بعد اس کے گھر والوں نے وصول کرنے سے انکار کر دیا اور محلے کے ایک بزرگ کو بلا کر کہا کہ " آپ ہی اپنے مسلمان بھائی کی میت وصول کریں۔" اور پھر محلے والوں نے ہی لاش وصول کی اور نہلایا وغیرہ بھی۔ جنازے کے انتظامات بھی انہوں نے اور ہم لوگوں نے کیے۔ اسی لیے مصطفی احمد کی میت کو اس کے گھر میں بھی نہیں رکھا گیا اور ایمبولینس سے اتارنے کے صرف چند منٹ بعد ہی مسجد پہنچا دیا گیا۔ حتی کہ ماں اور بہن نے آخری دیدار بھی وہیں آ کر کیا۔ معصومہ ، عاصمہ ناز اور دیگر لڑکیاں اس کے گھر گئی تھیں۔۔ معصومہ سے میری بات ہوئی کہ سوائے ماں کے اس نے کسی کو روتے ہوئے نہیں پایا۔ یعنی جیسے کسی کو دکھ ہی نہ ہو۔۔ ہم وہاں کئی گھٹوں تک رہے لیکن وہاں مصطفی کے خاندان کے صرف پندرہ سے بیس افراد ہی موجود تھے۔ میرے خیال میں چھوٹے سے چھوٹےخاندان کے قریبی عزیز بھی اکھٹے ہوں تو وہ سو پچاس تو بن ہی جاتے ہیں،۔ ہم سب حیران رہ گئے جب مصطفی احمد کی وصیت سامنے لائی گئی جوکہ اس نے کچھ ہی دن پہلے لکھی تھی۔۔کہ "شاید میں زندہ نہ رہوں""۔۔

مجھے یقین ہے کہ اگر وہاں ہم لوگ نہ ہوتے تو ایک بڑا مذہبی مسئلہ کھڑا ہو جاتا۔ کیونکہ مصطفی احمد کے سب دوست اس حادثے کو ایک قتل قرار دےرہے تھے اور ان کے خیال میں اس کی وجہ صرف اور صرف مذہب کی تبدیلی۔ تھی۔ شاید ہم اس سب کو جذباتیت ہی قرار دیتے۔۔لیکن ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے واقعات کو کیسے جھوٹا قرار دے سکتے تھے۔۔ مصطفی احمد صدیقی کے جنازے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اور ہر کسی کی زبان پر موت کی وجوہات جاننے کا سوال تھا۔ شاید تم اس ساری صورتحال کو سمجھ کر بہتر جواب دے سکو۔۔ لیکن ہم تو مذہب تبدیلی کی اتنی بڑی سزا دیکھ کر ابھی تک حیران و پریشان ہیں۔۔ ہاں ہر کوئی یہ ضرور کہہ سکتا ہے کہ کیا کوئی خود سے بھی کسی کی جان لیتا ہے۔۔ لیکن وہاں موجود ایک شخص کے پاس ایسے بیس سے زائد افراد کی لسٹ تھی کہ جن کو قبول اسلام کے تھوڑے عرصے بعد ہی حادثہ پیش آ گیا۔

قصہ شیر جوانوں کا

ہمارے خاندان میں سب سے مظلوم طبقہ جوانوں کا ہے کہ جنہیں ہر قسم کی تقریبات میں ہمیشہ کام کاج کے لیے بلایا جاتا ہے اور ذرا بھی پروا نہیں کی جاتی ہے کہ ان بیچاروں کے بھی تو کوئی جذبات ہونگے ۔ کوئی بھی موقعہ ہو ا نکی قسمت میں بس قائد اعظم کے قول پر عمل کرتے ہوئے کام ، کام اور بس کام ہی کرتے رہنا ہوتا ہے ۔ شادی ہو تو انہیں برتن لانے لیجانے سے لیکر ان کو دھونے دھلوانے تک سارے ہی کام کرنے پڑتے ہیں۔.۔. خواتین تو ان مواقع پر سجنے سنورنے میں مصروف ہوتی ہیں اور حکم چلانے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہوتی ہیں۔ اک یہی شیر جوان ہوتے ہیں جو دنیا و ما فیھا سے بے خبر کام کاج میں مصروف پائے جاتے ہیں۔ آپ اندازہ لگائیے کہ شادی والے گھر کے اندرونی کام کرنے کے لیے تو ایک عدد خالہ یا باجی ضرور رکھی جاتی ہے البتہ ان بیچاروں کی مدد کے لیے کوئی بھی نہیں ہوتا۔ ایک نائی ہوتا ہے کہ جو تھوڑی تھوڑی دیر بعد کوئی نہ کوئی حکم سنا رہا ہوتا ہے۔ اب آپ خود ہی سوچیئے خوشی کی یہی تقریبات ہی تو لمحات کی رنگینیوں سے مستفید ہونے کا موقعہ ہوتی ہیں اور ان بیچاروں کو یہ سارا وقت نائی ، عیسائی اور برتن دھونے والی مائی کے ساتھ گزارنا ہوتا ہے اور تو اور کھانا کھلانے کا مرحلہ تو زخموں پر نمک چھیڑکنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اجلے اجلے اور صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس مہمان ہمیں تو گویا غلام ہی سمجھے بیٹھے ہوتے ہیں۔۔یوں رعب سے آڈر کیے جاتے ہیں کہ جیسے انہیں افریقہ کے کسی قبیلے سے خرید کر لایا گیا ہو۔ چلو اپنے رشہ داروں کو تو انکی اعلی خصوصیات اور جذبہ خدمت خلق کا علم ہوتا ہی ہے تاہم بندہ چند گھڑی کے بیگانے مہمانوں کو کیا سمجھائے کہ یہ بھی انہی کے رشتہ دار لگتے ہیں اور اب کچھ وقت کے لیے خدمت گزاری کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ہماری اطلاعات کے مطابق بہت سے مہان اپنے اپنے گھر جا کر کھانا کھلانے والوں کے سلیقے کی تعریف کرتے پائے جاتے ہیں اور انکو اپنے ہاں شادیوں پر بطور نوکر بلانے کا پکہ ارادہ بھی کر لیتے ہیں۔وہ تو خیر انہوں نے ابھی ایسے کسی کاروبار کے بارے سوچا نہیں ہے ورنہ سنا ہے اس طرح کے کاموں میں کافی آمدن ہو جاتی ہے۔ اور لاگ شاگ الگ سے ۔۔بس جی ظلم در ظلم کی انتہا ہے ۔۔خاندان کے ذہین ،فطین،، چست وچالاک،،ہنر مند،،سلیقہ شعار،،اور نہ جانے جانے کیا کیا خوبیوں کے مالک ان بیچاروں کو خدمت گزاری پہ لگا دیا جا تا ہے اور بعض لوگ زخموں پہ نمک چھڑکنے کی خاطر کچھ اس طرح کا سلوک کرتے ہیں کہ بس جی ہمارا تو صبر ہی ہے۔۔اوپر سے اپنی برادری کے بعض کام چور حضرات بھی ان مواقع پر مخالفین کے ساتھ جا ملتے ہیں ۔۔ذرا خود سوچیئے کہ آپ کا دوست کسی کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہو اور آپ کو کالی کلوٹی دیگ کے اردگرد چکر لگانے پڑیں تو وہ منظر کتنا دلخراش ہوگا۔۔بس جی یہ سب برداشت کرنا ہمت والوں کا ہی کام ہے۔۔ورنہ اس گئے گزرے دور میں کون قربانیوں کی داستان رقم کرتا ہے۔۔

غرض خوشی کے مواقع پر کام کاج میں مصروف ہونا ایک منفرد احساس ہوتا ہے جو ہمارے خاندان کے نوجوانوں کو قبول کرنا پڑتا ہے۔۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادہ تر لڑکے ان کاموں کو ذوق و شوق سے کرتے ہیں اور ہرگز سستی کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ بھاگم بھاگ سارا کام سنبھال لیتے ہیں۔۔مل جل کر کام کرنا اور دوسروں کا ہاتھ بٹانا ہی تو خاندانی نظام کی سب سے بڑی خوبی ہے ۔اگر یہ ہی نہ ہو تو رشتوں کے بندھن میں دراڑیں پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔۔اس لیے خاندان کے تمام نوجوانوں کے نام پیغام ہے کہ چاہے اوکھے ہوں یا پھر سوکھے یہ سارے کام آپ کو ہی کرنا ہیں کیونکہ حلقہ نسواں سے کسی قسم کے کام کاج کی امید فضول ہے کیونکہ اس طرح انکے قیمتی جوڑے اور منوں کے حساب سے کیا گیا میک اپ خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ نوجوانو یہ ذمہ داری آپ کو اس وقت تک نبھانی ہے کہ جب آپ کو بھی ماموں اور چاچا کہنے والے بڑے نہ ہو جائیں۔

اداریہ ( سانجھ میگزین)

خاندان کا رسالہ نکالنے کا خےال اکثر ہمارے درمےان موضوع بحث رہا ہے۔ اس تےز رفتار ترقی کے دور مےںخاندانوں کے درمےان باہمی فاصلے بڑھتے جا رہے ہےں ۔وقت نکال کر ملنے جانا اور کچھ دن قےام کرنا اب تو خواب ہی بن کر رہ گےا ہے ان حالات مےں کےسے تمام رشتہ داروں کے درمےان ربط قائم رہ سکے اور کس طرح اےک دوسرے کے احوال سے آگاہی ہو سکے ۔ انہی مقاصد کے لےے ےہ ادنیٰ سی کاوش کی جارہی ہے اور سب سے بڑھ کر اس رسالے کا مقصد نئی نسل کو اپنے آباءکے طرز زندگی سے آگاہ کرنا ہے ۔ ان صفحات پر ان واقعات کا ذکر کےا جا نا مقصود ہے کہ جو ہمےں اپنے بزرگوں کی محنت کا پتہ بتائےں کہ جو فوت ہو چکے ہےں ےا ابھی تک ہماری رہنمائی کے لےے موجود ہےں، ہمےں آگاہ ہونا چاہےے۔ ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ کن کن مشکل حالات سے گزر کر انہوں نے آج ہمارے لےے سہولتوں کا بندوبست کےا ہے ۔اس رسالے کا مقصد سب کو اظہار رائے کا موقعہ دےنا بھی ہے تا کہ ہر اےک مےں چھپے خےالات کو زبان دی جا سکے اور خاندان کے لوگ اےکدوسرے کے تجربات و خےالات سے مستفےد ہو سکےں ۔دوسر ے خاندانوں کی طرح ہمارے خاندان مےں بھی اےسے افراد موجود ہےں جو محنت اور لگن سے کامےابی کی سےڑھی چڑھے ہےں ۔ہمارے لےے ضروری ہے کہ ان کے بارے مےں معلومات حاصل کرےں اور اس سے اپنے لےے نشان راہ متعےن کرےں ۔ ہر اےک کی تعلےمی ،کاروباری ہنر مندی اور گھرےلو سلےقہ مندی کی کامےابےوں کو سراہنا ہمارے اس مےگزےن کا مقصد ہے ےقےنا حوصلہ افزائی ہی وہ سب سے ضروری چےز ہو تی ہے کہ جو کسی بھی فرد کو کامےاب بنا سکتی ہے دوسروں کی مشکلات سے آگاہی بھی ان صفحات کے لکھنے کا مقصد ہے ا ور ےہ بھی کہ خاندان کا کونسا فرد کسی دوسرے کو مشکل سے نکالنے مےں کیا مدد دے سکتا ہے ۔اےک دوسرے کے بارے مےں زےادہ سے زےادہ معلومات کے ذرےعے تمام رشتہ داروں کو مختلف حالات مےں دوسروں کے کام آنے کا موقع مل سکے گا ۔سارا خاندان ےک جان ہو کر کسی فرد کو مشکل سے نکال سکے گا ۔ ان صفحات پر آپ اپنے مسائل بھی لکھ سکتے ہےں ۔ان صفحات کے ذرےعے کوئی بھی اپنی خدمات پےش کر سکتا ہے مثلا ےہ کہ کون کسی دوسرے کو نوکری کے حصول مےں مدد دے سکتا ہے اگر کسی کو اپنے کاروباری معاملات مےں با اعتماد ساتھی کی ضرورت ہے تو وہ اس مےگزےن کے ذرےعے اپنے رشتہ داروں مےں موجود کسی باصلاحےت فرد کا انتخاب کر سکتا ہے ۔ہر کوئی قےمتی مشورے دے سکتا ہے خاص کر پڑھتے ہوئے بچوں کو کہ وہ کس طرح خود کو کامےاب بنا سکتے ہےں۔۔ےہ مےگزےن اےک رہنمائی کا پلےٹ فارم ہے کہ جس کے ذرےعے اپنی اپنی فےلڈز مےںکامےاب افراد دوسروں کو گر سکھا سکتے ہےںآپ کو ان صفحات کے ذرےعے پتہ چلے گا کہ ہمارے کس رشتہ دار نے کس کاروبار کا آغاز کےا ہے اور ہم کس طرح اس مےںمعاون ثابت ہو سکتے ہےںکےونکہ اسطرح باہمی تعاون سے سارے خاندان کے افراد زندگی کے ہر موڑ پر اےک دوسرے کا ہاتھ بٹا سکتے ہےں۔۔خاندانی تقرےبات کا احوال اور آنےوالے دنوں مےں کےا ہونے والا ہے ےہ سب آپ کو ےہاں مل سکے گا اگر آپ کسی تقرےب مےں شرکت نہےں کر سکے تو اس کا احوال ضرور پڑھ لےں۔ خاندان مےںہونےوالی ہر خوشی غمی کو مکمل تفصےلات کے ساتھ ذکر کےا جائے گا۔تمام لکھنے والوں کو چاہےے کہ واقعات کا ذکر کرتے وقت مکمل اےمانداری اور غےر جانبداری کا ثبوت دےں اور وےسے بھی رسالے کی اہمےت کے باعث اس مےں سخت ادارتی پالےسی اپنائی جائے گی اور کسی بھی اےسی تحرےر شائع کرنے سے اجتناب کےا جائے گا جس سے دوسرے کی دل آزاری ہو ۔پھر بھی ہماری تمام قارئےن سے گزارش ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ناراض ہو نے کی بجائے اپنے مفےد مشوروں سے نوازےں تا کہ ہم معےار کو بہتر سے بہترےن بنا سکےں ۔ہمےں پورا ےقےن ہے کہ ہمارے خاندان مےں بہت سے اےسے باصلاحےت افراد موجود ہےں کہ جو اگر تھوڑی سی بھی توجہ دےں تو رسالہ آنےوالے دنوں مےں اعلیٰ کار کردگی کا مظاہر ہ کر سکتا ہے ۔ےہاں پر ہر اےک کی تحرےر شائع ہو گی ماسوائے اس کہ جس مےں کسی کی تضحےک کا پہلو نکلتا ہو۔تمام قارئےن سے گزار ش ہے زےادہ سے زےادہ مواد فراہم کرےںاور سب سے پہلے ہر گھرانہ اپنامکمل تعارف روانہ کرے تا کہ پورے خاندان سے متعلق معلومات فراہم کی جا سکےں ۔ےعنی گھر مےں کتنے افراد ہےں انکی عمرےں قابلےت اور جو کچھ خاص وہ بتانا چاہتے ہوں۔۔طنزو مزاح کا حصہ کسی بھی رسالے مےں بنےادی اہمےت کا حامل ہوتا ہے۔پالےسی کے مطابق کوئی بھی اےسی تحرےر شائع نہےں ہو گی جو دل آزاری کا باعث ہو ۔تاہم اےسی تحرےرےں نماےاں کر کے چھاپی جائےں گی کہ جن مےں لکھاری اپنے بارے مےں بتائے اور اےسے واقعات کا ذکر کرے جس مےں اسکی اپنی ذاتی حس مزاح کا پتہ چلتا ہو مثلا شرارتےں ،بچپن کے واقعات ،سکول کے قصے سفر نامے وغےرہ ۔ اس رسالے کو شروع کرنےوالے تمام افراد نے مکمل خلوص نےت اور بھرپور عزم کے ساتھ اس کا آغاز کےا ہے اور انکی بھرپور کو شش ہے کہ چاہے کےسے بھی حالات ہوں اس کا م کو جاری رکھا جائے تاکہ اس سے زےادہ سے زےادہ افراد مستفےد ہو سکےں۔لےکن ےہ بھی حقےقت ہے کہ دنےا کا کوئی بھی کام دوسروں کی مدد کے بغےر نہےں مکمل ہو سکتا ۔ہمےں سب سے بڑھ کر اچھی تحرےروں کی ضرورت ہے تاکہ اس رسالے کو بھرپور مواد کے ساتھ شائع کےا جائے تمام قارئےن سے التماس ہے کہ وہ ہر ماہ بھرپور محنت سے اور باقاعدگی سے تحرےرےں ارسال کرےں

۔اور جو لوگ خود کمپوز کر سکتے ہےں وہ ای مےل کردےں تا کہ وقت اور اخراجات بچائے جا سکےں رسالے کو نمائندگان کی ضرورت ہے کہ جو اسکی بہتری، مواد کی فراہمی اور ترسےل کا فرےضہ سر انجام دے سکےں ۔ رسالے کو نہ صرف خود پڑھےں بلکہ دوسروں کو بھی پڑھنے پہ مجبور کرےں جہاں جہاں بھی خاندان کے گھرانے موجود ہےںوہاں سے کم ازکم اےک نمائندہ ضروری ہے ۔لکھنے والے ےہ خےال رکھےں کہ تحرےر انکی اپنی تخلےق کردہ ہو ہم نے اس رسالے کو بڑے لکھارےوں کی چوری شدہ تحرےرون سے مزےن نہےں کرنابلکہ اس کامقصد خاندان کے افراد کو اظہار خےال کا موقع دےناہے۔اس لےے کوشش کرےں کہ تحرےر اپنی تخلےق کردہ ہو ےہ ےاد رکھےں کہ تحرےر لکھنے کے لےے مطالعہ کرنا اور دوسروں سے مشورہ لےنا اچھی بات ہے تاہم کسی دوسرے کی لکھی تحرےر چوری کرنا انتہائی گھٹےا حرکت ہے اور اگر آپ کسی کی شاعری ےا تحرےر بھےجےں تو مصنف اور شاعر کا نام ضرور لکھےں تاکہ اسے انتخاب کے طور پہ شائع کےا جاسکے وےسے آپ بذات خود تھوڑی سی زحمت کرےں اﷲ ضرور مدد کرے گا۔۔ ہمےں اس رسالے کی تےاری اور ترسےل کے لےے کوئی لمبے چوڑے فنڈز کی ہرگز ضرورت نہےںہے ہر گھرانہ اےمانداری کے ساتھ اپنا رسالہ خرےدے اور بر وقت اس کی قےمت ادا کرے تو ےہ منصوبہ بڑی کامیابی سے چل سکتا ہے۔ اور آخر میں سب سے اہم بات یہ رسالہ صرف ان افراد کو جاری کیا جائے گا جو پیشگی قیمت ادا کر یں گے۔ ہم کیونکہ بہت چھوٹے پیمانے پر رسالہ شائع کر رہے ہیں اس لیے اخراجات کافی ہوتے ہیں ۔ اسی مجبوری کے تحت اضافی کاپیاں نہیں بنائی جا سکتی ہیں۔ اس لیے جس کو بھی رسالہ چاہیے وہ پہلے قیمت ادا کرے گا۔ اگر آپ نے رسالہ خریدا ہے تو مہربانی فرما کر اسے صرف اپنے گھرانے تک ہی محدود رکھیں اور کسی کو بھی پڑھنے کے لیے ہرگز نہ دیں کیونکہ اگر یہ رواج عام ہو گیا تو پھر سارے گاوں میں صرف ایک ہی گھر خریدے گا اور باقی سارے مانگ مانگ کر پڑھیں گے۔ اگر آپ اس رسالے کو شائع ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں تو مہربانی فرما کر مانگ کر پڑھنے کے رواج کو سختی سے ختم کریں۔ ورنہ یقینا یہ رسالہ کامیابی سے نہیں چل سکے گا اور خدانخواستہ اسے بند کرنا پڑے گا۔ آخر میں تمام قارئین اور خصوصا بزرگوں سے التماس ہے کہ وہ ہماری کامیابی کے لیے دعا ضرور کریں۔

ماہ رمضان کا پیغام

رمضان المبارک کی آمد سے ہر مسلمان کا دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔ایک نیکیوں کا احساس جاگ اٹھتا ہے۔ عبادتوں کاسلسلہ شروع ہوتا ہے۔ جو زیادہ تر مسجدوںمیں نہیں جا پاتے وہ مساجد کی آبادی بڑھاتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ گویا ایک اٹھتی ہے۔۔نیکیاں کرنے کی۔۔دعائیں سمیٹنے کی۔۔عبادتوں میں رب تعالی کوراضی کرنے کی۔۔دوسروں کا خوب خیال رکھا جاتا ہے۔۔افطار کی دعوتوں کے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔۔رمضان میں زیادہ تر لوگ بدے ہوئے پائے جاتے ہیں۔۔۔

یہ بہت ہی اچھا منظر ہوتا ہے۔۔مسلمانوں کو یونہی کرنا چاہیے۔۔ دوسروں کا خیال رکھنے کا جذبہ ہمیشہ ایسے ہی برقرار رہنا چاہیے۔ افطار کی دعوتوں میں غریبوں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔۔ اور روٹھے ہووں کو بھی اسی ماہ مبارکہ کی برکت سےمنا لینا چاہیے۔۔ ہم میں سے ہرکوئی ایمانداری کی قسم کھائے۔۔ جو عہدیدار ہیں وہ فرائض پوری تندہی سے سرانجام دینے کا پکا ارادہ کرلیں۔۔ ہم اپنی زندگیوں میں اسلامی طرز زندگی کی زیادہ سے زیادہ آمیزش کرنے عہد کریں۔۔ کوئی جھوٹ سے توبہ کرے تو دوسرا دھوکہ دہی سے بیزاری کا اظہار کرے۔۔

اگر ہم اس ماہ رمضان کو اپنی زندگیوں میں تھوڑی سے تبدیلی کا ذریعہ بنالیں تو یقینا یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔۔آسمانوں کا رب تو راضی ہوگا ہی دنیا والے بھی آپ کی نیک نامی کے قائل ہوں گے۔۔کتنا ہی اچھا ہوکہ یہ ماہ رمضان ہماری زندگیوں پر کچھ ایسے نقوش چھوڑ جائے کہ ہر غریب ، محکوم اور مظلوم شخص اس کے جلد از جلد آنے کی دعا کرے۔ غیر مسلم اور دین سے دور افراد اس قدر متاثر ہوں کہ دین محمدی کی حقانیت اور عملیت کے قائل ہو جائیں۔۔۔

آو! آج سے ہی ہم سب بدلنے کا عہد کریں۔۔پھر تھوڑی سی کوشش بھی۔۔۔اور خلوص دل سےعمل بھی۔۔۔

ماہ رمضان کا یہی پیغام ہے۔۔اور تقوی کے حصول کے لیے اس مہینے کو اتارا گیا ہے۔۔جس کا حصول یقینا خود کو اللہ تعالی کے مزید قریب کرنے سے ہی ممکن ہے۔۔۔

To The Point

Do you know what is the only appreciated Combine-Activity in Punjab University ? No fear of any teacher, Guard or Jamatia. But a separation is still there inside the "Points".

If u visit Punjab University you will find young charming students waiting for this special thing. "Point" is a word used for transport buses used to facilitate the students. Waiting for and traveling in the points is always considered as a unique experience. Most students of Punjab University and employees get benefit from this facility.

At a specific time huge number of students gathered and wait for points happily and emotionally with great courage. If you want to see a mob rushing towards the buses then please come Punjab University to see this interesting situation. you will surely feel pity for innocent students of Punjab University .over lodging makes the points very dangerous and difficult place for every one inside. Students are entered just like goats in the points. Most people find no seat and they have to travel standing all the way. But it is a fact that it is a good facility for Punjab University students and employees. Front seats are reserved for girls only. So in points females lead the males ,this shows the exact vision given by our President Gen.Pervaz Mushraf .

Waiting the point makes many interesting situations. It is considered as a opportunity hold event by the younkers of Punjab University. Most young boys make them busy to impress the standing girls by their gestures ,actions and takings. It is a discussion , recognition and selection period. In other words it's a selection ,rejection and again another selection time. It is difficult to choice any one that time.

Points are also used for visits , tours. And other outdoor activities of the students and employees of Punjab University . Points can also be hired by private people on rent. Usually music is not allowed in points but at picnic tours students can surely enjoy loud music. It is a free of cost facility offered to every one having "Bus Pass" after paying transportation fee.

It is necessary that Punjab University administration must check this system and take many steps to avoid all the back draws in it. New buses must be added to facilitate more and more the students.

طنز و مزاح اور شاعری




































یوم تکبیر

اٹھائیس مئی کے دن کو پاکستانی تاریخ میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ۔ یوم تکبیر بھارتی ایٹمی تجربات کے جواب میں چاغی کے مقام پر نعرہ تکبیر کی گونج میں ہونیوالے پانچ ایٹمی دھماکوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔اس دن پاکستان نے دنیا کی ساتویں جبکہ اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بننے کا اعزاز حاصل کیا ۔ گیارہ مئی انیس سو اٹھانوے کو پوکھران میں تین بم دھماکے کر کے بھارت نے خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ بھارتی قیادت کی جانب سے ایٹمی دھماکے کے بعد پاکستان کو خطرناک دھمکیوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ ایک طرف بھارت دھمکیوں اور اسرائیل کی مدد سے پاکستان کی ایٹمی تجربہ گاہوں پر حملے کی تیاری کر رہا تھاتو دو سری جانب مغربی ممالک پابندیوں کا ڈراوا دیکر پاکستان کو ایٹمی تجربے سے باز رکھنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے بھی پانچ بار فون کر کے وزیر اعظم نواز شریف کو ایٹمی دھماکہ نہ کرنے کا مشورہ دیا جبکہ اس کے بدلے کروڑوں ڈالر امداد کی پیشکش بھی کی گئی۔ تاہم عالمی دباو کے باوجود وزیر اعظم نواز شریف نے جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اٹھائیس مئی کے دن پانچ ایٹمی دھماکے کرنے کا حکم دے دیا اور چاغی کے پہاڑوں پر نعرہ تکبیر کی گونج میں ایٹمی تجربات کر دئیے گئے ۔پاکستان کے ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر نے انیس سو چوہتر میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھ کر ایٹمی پروگرام کے لیے کام کرنے پر آمادگی کا اظہار اور اسی سال کہوٹہ لیبارٹریز میں یورینیم کی افزودگی کا عمل شروع کر دیا گیا ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان اس وقت ایک سو کے قریب ایٹمی وار ہیڈز رکھتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شدید عالمی دباو کے باوجود تیزی سے جاری ہے اور پاکستان ہر سال اپنے ہتھیاروں کے ذخیرے میں دس نئے ایٹم بموں کا اضافہ کر لیتا ہے۔ بھارت امریکہ ایٹمی معاہدے کے بعد پاکستان کی جانب سے چین کے ساتھ ایسا ہی معاہدہ کیا گیا ہے جبکہ فرانس نے بھی پرامن مقاصد کے لیے پاکستان کو جوہری ٹیکنالوجی کی فراہمی پر آمادگی ظاہر کر دیا ہے اس سلسلے میں حتمی معاہدہ جولائی میں ہوگا۔ چین کے تعاون سے ایٹمی بجلی گھر بھی بنائے جا رہے ہیں جبکہ خوشاب کے قریب پلو ٹینیم تیار کرنیوالے دو نئے ایٹمی ری ایکٹرز بھی مکمل ہو جائیں گے جن سے ایٹمی ہتھیار بنانے کی ملکی صلاحیت میں مزید اضافہ ہونا یقینی ہے۔۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف شروع سے ہی سازشوں کا سلسلہ جاری ہے ۔حکومت اور پوری قوم کا فرض ہے کہ ملکی سلامتی کی علامت اس ایٹمی پروگرام کی حفاظت اور ترقی کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار رہیں اور یہی یوم تکبیر کا پیغام ہے۔

دوہزار آٹھ کی یادیں

سال دو ہزار ا?ٹھ کے شروع میں عالمی سطح پر پیدا ہونیوالے غذائی بحران نے بڑے خوفناک طریقے سے دنیا بھر کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ غذائی بحران کی وجہ ا?بادی میں اضافہ ،سیاسی،معاشی اور عدم استحکام کو قرار دیا جا رہا ہے۔عالمی مارکیٹ میں فروری دوہزار ا?ٹھ میں گندم کی قیمت دگنا ہو گئی۔ چاول کی قیمتیں دس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔ جبکہ دودھ اور گوشت کی قیمتوں میں بھی دگنا سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ترقی پزیر ممالک میں غذائی درا?مدی بل دو ہزارسات کے مقابلے میں پچیس فیصد زائد ہو گیا۔ چین ، برازیل ، بھارت ، انڈونیشیا، ویتنام، کمبوڈیا اور مصر نے چاول کی برا?مد پر فوری پابندی عائد کر دی ہے دوسری طرف ارجنٹائن ، یوکرائن، روس اور سربیا گندم کی برا?مد پر پابندی لگانے پر مجبور ہوئے۔ اکثر ممالک غذائی اجناس پر سبسڈی دیکر اس بحران کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غذائی بحران کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ غذائی بحران کی روک تھام کے لیے اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو دنیا میں سنگین سطح کی بدامنی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ نے براعظم افریقہ کے بائیس ممالک کو انتہائی قحط زدہ قرار دیدیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چھتیس ترقی پزیرممالک بھی غذائی اجناس کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ غذائی بحران کی وجہ سے بعض ممالک میں پرتشدد ہنگامے بھی ہو چکے ہیں حتٰی کہ اس بدترین غذائی بحران سے چین ، امریکہ اور بھارت جیسے بڑے ممالک بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی بات کریں توایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد کو بینادی غذائی اجناس دستیاب نہیں ہیں۔ زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے گندم اور چاول ہمارے ہاں وافر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن گزشتہ دو برسوں کےدوران عوام کو ا?ٹا ملا ہے نہ چاول۔ پاکستان کا شمار گندم پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے اور اس کا اس لسٹ میں نواں نمبرہے لیکن اسکے باوجود ملک میں ا?ٹے کا بدترین بحران موجود ہے اور لوگ ا?ٹے کے حصول کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے دیکھائی دیتے ہیں۔دوسری طرف ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے غذائی قلت پر قابو پانے کیلئے امریکہ سے پانچ لاکھ ٹن گندم مانگ لی ہے۔امریکہ پاکستان کو گندم غریب ممالک کیلئے جاری امریکی امدادی پروگرام پی ایل۔ اڑتالیس کی تحت فراہم کرے گا۔ اسی طرح گوشت اور دودھ کی قیمتیں بھی ا?سمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کی غلط پالیسیوں کا بھی عمل دخل ہے۔ جبکہ دوسری جانب تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے نے بھی عوام کے منہ سے نوالہ چھین لیاہے۔

تیل کی قیمتیں

دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کو توانائی کے سب سے بڑے ذریعے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ا?مدورفت اورصنعتی پیداوارمیںتیل بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔حالیہ دنوںمیں عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قمیتوں میں اضافے نےدینا بھر کی معشیتوں کو متاثر کیاہے۔ماہرین کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین میں مشرق وسطٰی کی صورتحال، ڈالر کی قیمت میں تبدیلی اور اوپیک کی پالیسی نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ مشرق وسطٰی کی خراب سیاسی صورتحال تیل کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ اس سے پہلے 1979 ئ


میں انقلاب ایران کے موقعہ پر جب ایران میں تیل کی پیداوار بچیس لاکھ بیرل روزانہ کم ہو گئی تھی تو عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دوگنا ہو گئی تھیں۔ اسی طرح ایران عراق جنگ کے باعث بھی تیل کی پیداوار 65 لاکھ بیرل روزانہ کم ہونے کے باعث قیمیتں چودہ ڈالر سے پنیتیس ڈالر فی بیرل ہو گئیں تھیں۔ عالمی حالات کے باعث تیل کی قیمتوں میں بھی کمی پیشی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن نائن الیون کے واقعات کے بعد تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ستمبر 2003 ئ
میں پچیس ڈالر فی بیرل فروخت ہونیوالا تیل 135.09 ڈالر فی بیرل کی ریکارڈ سطح کو بھی چھو چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق چین اور بھارت میں پٹرولیم مصنوعات کی طلب بہت زیادہ بڑھ رہی ہے جبکہ اوپیک کی جانب سے پیداوار میں اس حساب سے اضافہ نہیں کیا جا رہا جس کے باعث عالمی طور پر قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ جبکہ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر افراط زر میں اضافے، عراق جنگ اور ڈالر کی قیمت میں کمی بھی تیل کی قیمت کو متاثر کر رہی ہے۔ دنیا کا چالیس فیصد تیل پیدا کرنیوالے ممالک کی تنظیم اوپیک کا کہنا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں ہونیوالا اضافے کی وجہ افواہیں ہیں حالانکہ دنیا بھر میں کہیں بھی تیل کی کمی نہیں ہے دوسری جانب امریکہ سمیت مختلف ممالک اوپیک سے پیداوار میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اوپیک کے پیداوار بڑھانے کے اعلان کے باعث عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی ا?نا شروع ہوئی ہے۔ تیل کی قیمت میں اضافے سے جہاں ترقی پذیر ممالک بری طرح متاثر ہوئے ہیں وہیں ترقی یافتہ ممالک میں کافی تشویش کا اضہار کیا جارہے ہے۔ فرانس کے صدر نکولس سرکوزی نے یورپی ممالک کو مشورہ دیا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے یورپی ممالک کو پٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکس میں کمی کر دینی چاہیے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافے نے پاکستانی معیشت کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھنے کے باعث اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کے باعث عام ا?دمی شدید متاثر ہوا ہے۔ عوامی سطح پر حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ تیل کی مد میں دی جانیوالی سبسٹڈی کی رقم کو بڑھا کر تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کو روکا جائے۔

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی