مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Monday, September 6, 2010

ہوگوشاویز کی غیرت اور ہمارے حکمران


وینزویلا لاطینی امریکہ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے ۔ تیل کی دولت سے مالا مال ہے لیکن وسائل کی کمی اور ٹیکنالوجی نہ ہونے کے باعث ابھی تک اس سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکا ۔ اسے گزشتہ کئی سالوں سے بجلی کے بحران ، غربت ، بیروزگاری سمیت کئی مسائل کا سامنا ہے ۔ لیکن ان سب دیرینہ مسائل کے باوجود وینزویلا عالمی سیاست میں ایک بھرپور آواز رکھتا ہے ۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ چھوٹا سا ملک عالمی سیاست کو متاثر کرتا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ ہر عالمی مسی ¿لے پر صدر ہوگوشاویز کا ردعمل جرات مندانہ ہوتا ہے ۔ دنیا کے طاقتور ترین ملک ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا ہمسایہ اور دور دراز ملک ہونے کے باوجود وینزویلا کی آواز مشرق وسطی سے لیکر چین اور روس میں سنی جا سکتی ہے ۔ ہوگوشاویز نے انتہائی مہارت سے ان ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کر رکھے ہیں ۔ حالیہ کچھ عرصے میں چین ، ایران اور روس سمیت کئی بڑے ممالک کے سربراہان مملکت وینزویلا کے دورے کر چکے ہیں ۔ چین اور روس کی مداخلت پر تو امریکی حکام انتہائی سیخ پا بھی نظر آتے ہیں لیکن وینزویلا کے صدر ہوگوشاویز کو اس کی ہرگز پرواہ نہیں اور وہ ملکی خودمختاری اور آزادانہ خارجہ پالیسی پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ۔ غزہ کو جانیوالے فریڈم فلوٹیلا کا مسی ¿لہ ہو یا ایران کے ایٹمی پروگرام کا تنازعہ ، افغانستان اور عراق کی جنگیں ہوں یا عالمی معاشی بحران ہوگوشاویز کسی بھی موقعے پر امریکہ ، اسرای ¿یل اور اس کے حواریوں کی خوب خبر لیتے رہتے ہیں ۔ وینزویلا مسلمان ملک نہیں لیکن اس کے باوجود اس نے غزہ کے مظلوم مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے فریڈم فلوٹیلا پر حملے کی وجہ سے وینزویلا نے اسرای ¿یل سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا ۔ وینزویلا ان دنوں ایک بار پھر عالمی خبروں میں ہے ۔ وینزویلا کے امریکی نواز ہمسایہ ملک کولمبیا کے صدر ایلویرو اریبے نے ہوگوشاویز پر اپنے ہاں سرگرم باغیوں کی مدد کا الزام لگایا ہے ۔ کولمبین صدر نے وینزویلا سے ”دہشت گردی“ کے کیمپوں کو بند نہ کرنے کی صورت میں کارروائی کی دھمکی دی ۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی تو معمول کی بات ہے لیکن سنگین الزامات پہلی مرتبہ لگائے گئے ہیں ۔ کولمبین صدر نے ویڈیو اور تصاویری ثبوت بھی پیش کیے ہیں جن میں فارک باغی تنظیم کے اہم رہنماو ¿ں کو وینزویلا میں دیکھایا گیا ہے ۔ کولمبیا کا کہنا ہے کہ وینزویلا باغی گروپوں کو اسلحہ ، تحفظ اور مالی مدد بھی دے رہا ہے ۔ کولمبیا کو اس سلسلے میں امریکہ کی بھرپور مدد حاصل ہے ۔ کولمبیا کو امید تھی کہ امریکہ کے ڈراوے کی وجہ سے شاید وینزویلا بھی پاکستان کی طرح فوری طور پر آپریشن شروع کر دے گا ۔ لیکن اس کا اثر الٹا ہوا ہے ۔ یہ الزامات سامنے آتے ہی ہوگوشاویز نے انتہائی سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا ۔ اس نے فوری طور پر کولمبیا سے اپنا سفیر واپس بلا کر سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ وینزویلا نے کولمبیا کے ساتھ پانچ ارب ڈالر کا تجارتی معاہدہ بھی منسوخ کر دیا ہے ۔ ہوگوشاویز کا موقف ہے کہ یہ الزامات وینزویلا کی خودمختاری پر حملہ ہے اس لیے کولمبین صدر فوری طور پر معافی مانگیں ۔ وینزویلا نے ہنگامی طور پر سرحدوں پر فوج کے اضافی دستے تعینات کر دئیے ہیں جبکہ جنگی طیاروں کو بھی فضائی نگرانی بڑھانے کی ہدایت کی ہے ۔ ہوگو شاویز کا کہنا ہے کہ اگر کولمبیا کی جانب سے کسی قسم کی جارحیت کی گئی تو نہ صرف بھرپور جواب دیا جائے گا بلکہ امریکہ کو تیل کی سپلائی بھی بند کر دی جائے گی ۔ امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس کی دھمکی کو نظر انداز نہیں کر سکتا کیونکہ وینزویلا اسے سستا تیل فراہم کرتا ہے ۔ اور اگر امریکی حکومت وینزویلا کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے کی کوشش کرتی ہے تو خود اس کی اپنی ریاستوں کی جانب سے سخت مخالفت کا خدشہ ہے ۔ کیونکہ اس سے سستا تیل ملنا بند ہو جائے گا اور کئی امریکی ریاستیں شدید متاثر ہوںگی ۔ اور یہی وجہ ہے کہ کولمبیا اور اس کا سرپرست امریکہ اب چپ سادھے بیٹھے ہیں اور ہوگوشاویز کی للکاروں کا جواب تک نہیں دے رہے ۔ ہوگوشاویز جو مرضی الزام لگائے یا جتنا مرضی تنقید کرے امریکہ جواب نہیں دیتا بلکہ وہ تو سابق صدر بش کو پاگل بھی قرار دے چکا ہے ۔ وینزویلا کا ایک معمولی سے الزام کے جواب میں اس قدر سخت ردعمل دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ۔ ایک ایٹمی طاقت پاکستان پر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اس کے دیرینہ دشمن بھارت میں کھڑے ہو کر الزامات کی بارش کر دیتا ہے ۔ لیکن ردعمل کیا ہوتا ہے صرف ہائی کمشنر کی طلبی اور نرم الفاظ پر مشتمل ایک احتجاجی مراسلہ ۔ تقریبا ساری اہم ملکی سیاسی قیادت صدر زرداری سے دورہ برطانیہ منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتی ہے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا ۔ ملک کے عوام سیلاب کے باعث تباہ حال ہیں لیکن صدر پاکستان کو برطانیہ میں ایک مہنگا ترین دورہ ضرور کرنا ہے ۔ کہاں ایک چھوٹے سے ملک وینزویلا کا ردعمل اور کہاں اٹھارہ کروڑ کی آبادی والی ایک ایٹمی طاقت کے حکمرانوں کا کردار ۔ یہ بات واضح ہے کہ ملکی خودمختاری ، عالمی برادری میں عزت اور وقار کا تحفظ حکمرانوں کو ہی کرنا ہوتا ہے اگر ان میں ہی احساس نہ رہے تو وہ ملک دنیا میں انتہائی کمتر سمجھے جانے لگتے ہیں ۔ جس کا دل چاہتا ہے اسے کارٹونز میں کتے کے روپ میں دیکھا دیتا ہے اور جس کا جی چاہتا ہے اس کا جھنڈا بگاڑ دیتا ہے ۔ دوسرے ممالک کے وہ چھوٹے چھوٹے اہلکار کہ جن کو اپنے ملک میں بھی کوئی نہیں پوچھتا وہ الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں اور انتہائی غلیظ حملے کرتے ہیں ۔ کاش کے ہمارے حکمران بھی عالمی برادری میں اپنی اہمیت کا احساس کر سکیں ۔ صدر ، وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کو ضرور وینزویلا جانا چاہیے اور ہوگوشاویز سے دریافت کرنا چاہیے کہ اتنی کم فوجی طاقت ، محدود وسائل اور چھوٹے سے جغرافیے کے ساتھ اس نے کیسے عالمی برادری میں عزت کمائی ہے ۔

ہمارے اصل ہیرو

ارض پاک میں آنیوالے بدترین سیلاب نے ملک کے ایک تہائی حصے کو تباہی سے دوچار کیا ہے ۔ امن و امان کی خراب صورتحال اور سیاسی ابتری کے اس دور میں سیلاب کی ناگہانی آفت نے لاکھوں پاکستانیوں کی زندگیوں کو خطرے سے دوچار کر رکھا ہے ۔ ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں تو دوسری جانب حکومتی نااہلی ، عالمی برادری کی بے حسی اور وسائل کی کمی نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے ۔ سیاستدان اور وڈیرے اپنی زمینوں کو بچانے کے لیے بند بنانے اور توڑنے میں مصروف ہیں جبکہ جماعتیں الزام تراشیوں سے کام چلا رہی ہیں ۔ لیکن مشکل کی اس گھڑی میں سب کچھ ہی مایوس کن نہیں ۔ ڈوبتے ہوئے ہم وطنوں کو بچانے اور مال و اسباب سے محروم ہونیوالوں کا آسرا بننے کے لیے درد دل اور خوف خدا رکھنے والے بہت سے لوگ بھی اپنے کام میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ سب سے پہلے پہنچنے والے اور بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیوں میں مصروف ان سرفروشوں کا تذکرہ آپ کو میڈیا میں کم ہی ملے گا ۔ شاید یہ لوگ زرائع ابلاغ کے ذریعے نمود و نمائش کے مروجہ اصولوں پر یقین نہیں رکھتے ۔ لیکن غیر ملکی میڈیا لمبی داڑھیاں چہروں پر سجائے ان افراد کو نہیں بھولا ۔ نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں پھوٹ پڑنے والے اسلام فوبیا کا اثر مغرب میں مزید بڑھتا جا رہا ہے ۔ غیر ملکی میڈیا نے ہی ہمیں بار بار یہ تلقین کی تھی کہ تمہارے ہاں کچھ ایسے لوگ بستے ہیں کہ جن سے دنیا کو خطرہ ہے ۔ اور ہمارے ہاں کے بھولے لوگوں نے یقین بھی کر لیا ۔ ممبئی حملوں جیسے واقعات کو جواز بنایا گیا اور جماعت الدعوہ اپنی لازوال فلاحی سرگرمیوں کے باوجود ملزم ٹھہرا دی گئی تاہم بعد میںاعلی عدلیہ نے تمام پابندیاں ختم بھی کر دیں ۔لیکن سیلاب کی آمد کے بعد جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاو ¿نڈیشن ایک بار بھر دنیا بھر کی نظروں میں ہے ۔ سیلاب زدہ علاقوں میں اس کے رضا کاروں کی جرا ¾ت مندانہ سرگرمیوں نے بہت سے ناقدوں کے منہ بند کر دئیے ہیں ۔ مغربی میڈیا تو بطور خاص چیخ رہا ہے کہ لوگوں کے دل جیتنے میں یہ لوگ انتہائی کامیاب رہے ہیں ۔ جانوں پر کھیل کر جانیں بچانے والے یہ لوگ ان امریکیوں اور نام نہاد این جی اوز سے کہیں آگے ہیں کہ جو اس قوم کو بے راہ روی کے راستے پر چلانے کا ایجنڈا رکھتی ہیں ۔ جنہیں دہشت گرد کہہ کر بدنام کیا جاتا تھا وہی انسانیت کے سب سے بڑے مسیحا نکلے ہیں ۔ افسوس یہ ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے حصے پر اب بھی ” کالعدم“ کی فضول اور من گھڑت اصطلاع کی آڑ میں ان امدادی سرگرمیوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ کتنا عجیب ہے کہ ہم اپنے معاشرے کے ان مسیحاو ¿ں کا تذکرہ کرنے سے صرف اس لیے ڈرتے ہیں کہ اس سے غیر ملکی ناراض ہو جائیں گے ۔ ہم اپنے لوگوں کو مغربی میڈیا کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسی لائن پر سوچتے ہیں کہ جو ہمیں غیر ملکی ذرائع ابلاغ دیکھاتے ہیں ۔ حالانکہ یہی تو موقعہ تھا کہ پاکستانی میڈیا دین دار اور انسانیت کی فلاح کا جذبہ رکھنے والی جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاو ¿نڈیشن کا انسان دوست روپ عالمی دنیا کو دیکھاتا ۔ انہیں بتایا جاتا کہ جن کے بارے میں تمہارے ذہنوں میں غلط فہمیاں ہیں ان کا اصل کردار تو یہ ہے ۔ جن کے بارے میں تم دہشت پھیلانے کا پروپیگنڈا کرتے ہو وہ تو بھوکوں کو کھانا بانٹتے ہیں ، بے آسراو ¿ں کا سہارا بنتے ہیں ، ڈوبتے ہوو ¿ں کو بچا رہے ہیں ، سسکتے ہوو ¿ں کو اپنی آغوش میں لے رہے ہیں اور بیماروں کی تیمارداری اور امداد میں سب سے آگے ہیں ۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا ۔ ملکی عہدیداروں اور میڈیا پر بدستور جمود طاری ہے ۔ جماعت الدعوہ پاکستان میں ہرگز کالعدم تنظیم نہیں اور اس حوالے سے مغربی میڈیا کا پروپیگنڈا محض قوم کو تقسیم کرنے کی سازش اور اس تنظیم کی سرگرمیوں کو روکنا اور انہیں بد دل کرنا ہے ۔ لیکن خدا کا شکر ایسا نہیں ہو سکا اور جماعت الدعوہ پہلے سے بھی زیادہ توجہ سے ریلیف کے کاموں میں مصروف ہے ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو تسلیم کیا جاتا ہے کہ
سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونیوالے علاقوں میں صرف یہی تنظیم سرگرم ہے جبکہ دوسری جانب اس کو روکنے کے مطالبات ہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایسے مطالبات کرنے والے افراد ان سیلاب متاثرین کی بے بسی کا تماشہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ غیر ملکی طاقتیں شاید یہ چاہتی ہیں کہ سیلاب متاثرین کو بھوکے مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے ۔ یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ تباہی کے بعد ہر پاکستانی غیر ملکی امداد کا محتاج ہوگا لیکن جماعت الدعوہ اور دیگر دینی جماعتوں نے بڑے پیمانے پر ریلیف سرگرمیاں سر انجام دے کر یہ منصوبہ خاک میں ملا دیا ہے اور اسی لیے اب تنقید اور الزامات کا سلسلہ جاری ہے ۔ایسی قوتوں کی کوشش یہ ہے کہ تمام تر امداد صرف نام نہاد این جی اوز کے ذریعے فراہم کی جائے اور یا پھر ایسے اداروں کے ذریعے کہ جن میں سے اکثر تو باقاعدہ عیسائیت کی تبلیغ کا فریضہ بھی سر انجام دیتے ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ اس موقعے پر غور کرے کہ وہ کونسے ادارے ہیں کہ جنہوں نے اس مشکل گھڑی میں عوام کا ساتھ دیا ہے اور کون ایسے ہیں کہ جنہوں نے محض طعنوں اور الزامات سے کام چلایا ہے ۔ خدا کرے کہ سیلاب کی یہ آزمائش غیروں اور بعض اپنوں کے ذہنوں میں بھی سرایت کر جانے والی غلط فہمیوںکو بھی بہا لے جائے اور مشکل کی اس گھڑی میں پوری قوم متحد ہو ۔ غیر ملکی قوتوں پر انخصار کی بجائے ملکی وسائل پر توجہ دی جائے ۔ جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاو ¿نڈیشن کے رضا کار سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور بیرونی عناصر کے نام نہاد پروپیگنڈے کا بھرپور جواب دیا جائے ۔ یہی ہمارے اصل ہیروز ہیں ۔



میڈیا : برائی کی جڑ یا ایک کارآمد ہتھیار



میڈیا کی حیران کن ترقی نے دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی شدید متاثر کیا ہے ۔ اس نے ہر معاشرے کی طرح ہمارے ہاں بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ میڈیا کے طاقتور اثرات کے باعث کی وجہ سے معاشرتی رویے تبدیل ہوئے ہیں جبکہ اس نے بعض روایات کو بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ میڈیا کے معاشرے پر بے پناہ اثرات کی وجہ سے ہی آج کے دور کو ذرائع ابلاغ کا دور قرار دیا جاتا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کی مختلف صورتیں ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا ( ٹی وی چینلز ۔ سی ڈی اور دیگر ویڈیوز ) ، براڈ کاسٹ یعنی ریڈیو ۔۔ سائبر میڈیا ( انٹرنیٹ ) ، پرنٹ میڈیا ( اخبار، رسائل وغیرہ ) اسی طرح موبائل فونز اور دیگر ذرائع کے ذریعے پیغام رسانی بھی زرائع ابلاغ کا حصہ ہیں ۔ تعلقات عامہ جدید دور کا اہم ترین موضوع ہے اور اسی طرح میڈیا کے دیگر میدانوں کے حوالے سے بھی معلومات اور پیشہ ورانہ تربیت کا خاطر خواہ مواد موجود ہے ۔ حکومتیں ، ادارے ۔ تنظمیں اور مختلف افراد میڈیا کو اپنے پیغامات کی اشاعت ، نظریات کے فروغ ، سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں حتی کہ بعض اوقات جنگی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ۔ترقی یافتہ دنیا میں میڈیا کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے استعمال کرنے کا آغاز کئی دہائیاں پہلے ہو چکا تاہم ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ کی آمد کو ابھی چند سال ہی ہوئے ہیں ۔ یہ ایک نیا چیلنج ہے کہ جس نے ہمارے معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح دینی حلقوں کو بھی متاثر کیا ہے ۔ میڈیا کی روایتی پریکٹس اور تفریحی مواد کی زیادتی کے باعث اسے اسلام اور سماج مخالف سمجھ لیا گیا ہے اور بہت سے حلقے تو تمام تر برائیوں کی جڑ اسے ہی قرار دینے پر مصر ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ دینی حلقوں میں یہ بات سرایت کر چکی ہے کہ میڈیا ہمارے معاشرے میں الحاد ، فحاشی ۔ غیر اسلامی روایات اور ایسی ہی منفی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے تیار کردہ ایک سازش کا حصہ ہے اور اس سے صرف اور صرف وہی کام لیا جا سکتا ہے جو کہ آجکل پاکستانی ۔ بھارتی اور مغربی میڈیا پر نظر آ رہا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دینی حلقے اس سے دور نظر آتے ہیں ۔ میڈیا کے خلاف تقاریر ، تحریروں کی بھرمار ہے حتی کہ فتوے بھی سامنے آئے ہیں لیکن اس کے اثرات کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔ تاہم کچھ مخلص حلقوں نے میڈیا کے میدان میں دینی حوالے سے سرگرمی دیکھائی ہے اور شاید اسی لیے اب کہیں کہیں میڈیا کو سمجھنے اور اس کے درست استعمال کی کوششیں بھی نظر آتی ہیں ۔ حالات کی ٹھوکروں نے میڈیا کی اہمیت تو باور کرا دی ہے لیکن دینی طبقہ ابھی تک میڈیا کے بنائے ہوئے ماحول کو سمجھنے اور اس کی موجودہ پریکٹس میں اپنے لیے راہ تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس تحریر کا مقصد میڈیا سے متعلق پائی جانیوالی غلط فہمیوں کی وضاحت اور دینی طبقے کو ایک دعوت فکر دینا ہے ۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر میڈیا ٹیکنالوجی کو دینی علوم رکھنے والے افراد مکمل پیشہ ورانہ اصولوں کے ساتھ استعمال کریں تو اسے تبلیغ دین کے لیے باآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ چلئیے ہم اس معاملے کو ایک مثال کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے بات واضح ہو جائے گی ۔ ایک ہوائی جہاز آپ کو یورپ کے عشرت کدوں یا عیاشی کے اڈوں میں لے جا سکتا ہے اور وہی مکہ مکرمہ میں حج کے لیے بھی ۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ نے کونسی سمت منتخب کی ہے اور پائیلٹ کو کیا ہدایات دی ہیں ۔ معزز علمائے کرام اور قارئیں کرام ! میڈیا ٹیکنالوجی بھی ہوائی جہاز ، موٹر کاروں اور دیگر سہولیات کی طرح ایک ایجاد ہی ہے ۔ چند آلات بنائے گئے ہیں کہ جن کو پیغام رسانی ، اپنے نظریات کے فروغ اور ان کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ اگر آپ اس کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کریں گے تو یہ آپ کا نظریہ اور پیغام ہر سو پھیلا دے گا اور اگر اس سے دور رہ کر محض تنقید سے کام چلانے کی کوشش کی تو یہ اتنا طاقتور ہے کہ آپ کی آواز کو گمنام بنا دے گا یا آپ خود ہی اس کے اثرات کے سامنے خاموش ہو جائیں گے ۔ ایک اور مثال سمجھتے ہیں کہ کیا آج کے دور میں آپ نے کوئی ایسا نیک شخص دیکھا ہے جو مکمل خلوص اور صرف اور صرف ثواب کے جذبے کے تحت پیدل حج پر جانا چاہتا ہو ۔ شاید نہیں ! کیونکہ علمائے کرام سمیت ہر کوئی اسے جہاز یا اور کوئی تیز ترین ذریعہ استعمال کرنے کی تلقین کرے گا ۔ آج ہم گاڑیوں ، کمپیوٹرز اور ایسی ہی دیگر چیزوں سے صرف اس لیے دور ہونا پسند نہیں کریں گے کہ ان کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے ۔ یہی حال میڈیا ٹیکنالوجی کا ہے ۔ یہ تو دعوت کو تیز ترین طریقے سے بڑے پیمانے پر پھیلا دینے کا ہتھیار ہے ۔ اگر ملحدین اپنا پیغام پھیلانے کے لیے ایسا مواد تیار کر سکتے ہیں کہ جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنے تو اسلامی اصولوں کے اندر رہتے ہوئے بھی ایسا مواد تیار کیا جا سکتا ہے کہ جس سے عقائد پر بھی فرق نہ آئے اور دعوت کا کام بھی ہو سکے ۔ شرط یہ ہے کہ اس کا استعمال سیکھ کر آلات کو مرضی کے مطابق چلانا سیکھا جائے ۔ سوچ و بچار کے بعد اور بھرپور تیاری سے مواد کی تیاری کے لیے کام کیا جائے ۔


س مضمون کے ذریعے دینی طبقوں کو مخاطب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہی اشاعت اسلام کا بھرپور جذبہ رکھتے ہیں اور اس کے لیے اپنا وقت اور توانائیاں صرف کرتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں دین کی جو رہی سہی جھلک نظر آتی ہے وہ مسجد و محراب کے ان وارثوں کی ہی وجہ سے ہے ۔ مدارس کے پڑھے ہوئے علماءکرام ہی ہمارے معاشرے میں دین کے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اس تحریر کا مقصد صرف ان کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اس کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی طرف توجہ دی جائے ۔ دعوت کے جذبے سے ان آلات کو اپنی آواز کفر کے ایوانوں میں پہنچانے کے لیے تصرف میں لایا جائے ۔ یقین کریں کہ میڈیا سے دوستی آپ کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو گی اور یہ آپکی دعوت کو چہار سو پھیلانے کا باعث بن سکتا ہے ۔میڈیا کے درست استعمال کے حوالے سے درپیش مسئلہ کو سمجھنے اور اس کو حل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ یہ واضح ہے کہ اسلام گوشہ نشینوں اور تارک دنیا افراد کا دین نہیں ہے اس کے ماننے والے معاشرے کے فعال رکن بن کر جیتے ہیں ۔تو پھر کیونکر دینی طبقہ کی جانب سے میڈیا کے میدان کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ابلاغ کا شعبہ معاشرے کی تشکیل میں شامل نہیں ہوتا ؟ دینی دعوت کا کام سرانجام دینے والے لوگ اور تنظیمیں کیونکر اس کے بارے میں غور نہیں کرتے ۔ کیا یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ یونیورسٹیز میں ماس کمیونیکشن کرنیوالے طلبہ جو کہ ملکی نظام تعلیم کی خرابیوں کے باعث دین کا کچھ زیادہ نظریاتی علم ہی نہیں رکھتے وہ ہی میڈیا کے میدان میں سب کی رہنمائی کریں گے ۔ دینی طبقہ کیا ان سے معجزوں کی امید لگائے بیٹھا ہے ؟ کیا یہ انتظار ہے کہ یہ لوگ میڈیا کو ایسا بنا دیں گے جو کہ دین کی دعوت کے لیے اچھا ہو اور اس سے اسلام کیا شاعت ہو سکے ؟ اگر ایسا ہے تو واقعی پریشان کن ہے کیونکہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بغیر نظریاتی علم اور ٹھوس علمی بنیاد کے صرف پیشہ ورانہ علم ہی کافی نہیں ہوتا ۔ اور میڈیا کی درست سمت کے تعین کے لیے دینی علم رکھنے والوں کو خود میدان میں آنا پڑے گا ۔
اس تحریر کا مقصد کسی کو طعنے دینا نہیں ہے بلکہ کوشش صرف یہ ہے کہ دینی علوم رکھنے والے افراد میڈیا کی جانب متوجہ ہوں ۔ یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ میڈیا کا خود اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا بلکہ اس کو چلانے والے اپنے خیالات عام کرتے ہیں ۔ اگر دینی لوگ اس کی باگ دوڑ سنبھالیں گے تو یقینا اسے ہدایت کا سرچشمہ بنایا جا سکتا ہے اور اگر کم دینی علم رکھنے والے یا بلکل ہی نابلد لوگوں کے ہاتھ میں میڈیا کی طاقت دے دی جائے تو پھر یقینا یہی کچھ ہو گا کہ جو آج آپ دیکھ رہے ہیں ۔ یونیورسٹیز کے طلبہ کے پاس اچھی دینی معلومات تو ہو سکتی ہیں لیکن نظریاتی حدود کا خیال اور معاشرتی تبدیلیوں کی دینی لحاظ سے درست سمت کا تعین وہی لوگ کر سکتے ہیں کہ جنہوں نے باقاعدہ دینی علوم حاصل کر رکھے ہوں ۔ میری مراد مدارس کے پڑھے افراد ہیں اور وہ علما جو اصل دینی مصادر سے استفادہ کرتے ہیں ۔ احادیث کے علوم سے واقف ہیں جبکہ غلط عقائد اور خالص اسلامی حکم کے درمیان فرق کر سکتے ہیں ۔ میڈیا کو تو اچھے بولنے والے چاہیے ۔ یہ واقعی المیہ ہے کہ اس وقت جو دینی پروگرام پیش کیے جا رہے ہیں ان میں ٹھوس دینی علم رکھنے والوں کی بجائے نیم دینی علم رکھنے والے لوگ غالب ہیں ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مستند دینی حلقے اچھے اینکر اور ٹی وی پر اچھے بولنے والے افراد فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ میدان جاوید غامدی اور ڈاکٹر عامر لیاقت جیسے لوگوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ اب دینی پروگراموں کو اپنے طریقے سے چلا رہے ہیں اور یہی حال ویب سائٹس ، ایف ایم ریڈیوز وغیرہ کا بھی ہے ۔ اسی طرح دینی طبقات میں اچھی کتابیں لکھنے کا رواج تو عام ہے لیکن میڈیا کے لیے مضامین نہیں لکھے جاتے ۔ ہمارے ہاں حالات حاضرہ کو دینی نقطہ نظر سے زیر بحث لانے کا انتظام نہیں ۔ آپ کو ایک ایک سو یا اس سے بھی زیادہ کتابیں لکھنے والے علمائے کرام تو مل جائیں گے لیکن کالم نگار ، فیچر نگار علماءکی تعداد انتہائی کم ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ علماءکی کتابیں انہی کے حلقے کے لوگ تو ضرور پڑھتے ہیں یا پھر اچھا ادبی ذوق رکھنے والے طبقے بلکہ اس میں مسلک اور جماعت کی تفریق بھی حائل ہو جاتی ہے ۔ جبکہ اگر یہی علماءاچھے انداز سے میڈیا میں اظہار خیال کریں ۔ کالم لکھیں ، معاشرتی مسائل پر فیچر لکھیں تو نہ صرف زیادہ بڑا طبقہ مستفید ہوگا بلکہ لوگ دین کی طرف مائل بھی ہوں گے ۔ حالات حاضرہ کو دینی نقطہ نظر سے زیر بحث لانے سے یہ بھی فائدہ ہوگا کہ علمائے کرام کے بارے میں عام تاثر بھی دور ہو گا کہ یہ وقت کے تقاضوں کو نہیں سمجھتے ۔
ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا یعنی ٹی وی ۔۔ فلم اور دیگر ویڈیوز کو ہی سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے جبکہ حققیت یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ذرائع ابلاغ کا ایک طاقتور حصہ ضرور ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کے بغیر پیغام رسانی اور نظریات کا فروغ ہی ممکن نہیں ۔ ویسے تو بہت سے دینی حلقے کچھ حدود و قیود کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا کے قائل ہو چکے ہیں لیکن اگر کوئی جماعت اس کے بغیر ہی چلنا چاہے تو بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں آنے کے لیے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے کیونکہ دینی تبلیغ کے لیے موجودہ رائج الوقت طریقے کار آمد نہیں ہوں گے ۔ دینی جماعتوں کو چاہیے کہ الیکٹرانک میڈیا میں زور آزمائی سے پہلے پہلے دیگر شعبہ جات یعنی پرنٹ میڈیا ( اخبارات و رسائل ) ، سائبر میڈیا یعنی انٹرنیٹ وغیرہ میں زیادہ کام کریں ۔ کچھ عرصہ کی مکمل پیشہ ورانہ تربیت کے بعد الیکٹرانک میڈیا کی طرف آیا جائے ۔ کیونکہ یہ ایک مہنگا کام ہے اس لیے بغیر پیشہ ورانہ تربیت کے فنڈز ضائع ہونے کا بھی خدشہ ہے ۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انٹرنیٹ ، پرنٹ میڈیا اور دیگر زرائع ابلاغ بھی کچھ کم اہمیت کے حامل نہیں ہیں اور اگر ان کو مکمل پیشہ ورانہ اصولوں سے استعمال کیا جائے تو ان سے انتہائی مفید نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ شرط صرف اور صرف یہ ہے کہ روایتی اور ڈنگ ٹپاو ¿ طریقوں سے ہٹ کر اس شعبے کی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔ پروپیگنڈا کرنا ایک مکمل سائنس کا درجہ حاصل کر چکا ہے اور اس کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے ۔ ایک وضاحت یہ بھی ضروری ہے کہ ” پروپیگنڈا“ کے لفظ کو بھی میڈیا کی طرح صرف منفی معنوں میں ہی استعمال کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ اس سے مراد پیغام کو زیادہ سے زیادہ پھیلا دینا ہے ۔ یعنی دعوت کو عام کرنا ۔ یہ منفی اور مثبت دونوں معنوں میں استعمال ہو تا ہے ۔ انشاءاللہ آئندہ کسی مضمون میں اس کی تکنیکس


کے بارے میں بھی بتانے کی کوشش کروں گا ۔ دعوتی سرگرمیوں سے منسلک علماءکرام کو ان سے متعلق جاننے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکیں ۔ انتہائی سستے طریقے موجود ہیں کہ جن کے زریعے آپ اپنی بات سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں تک با آسانی پہنچا سکتے ہیں ۔ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس ، ای میلز ، ڈیلی نیوز لیٹر ، بلاگس ، ویب سائٹس اور ایسی بہت سے چیزوں کے استعمال سے دعوتی سرگرمیوں ملکی بلکہ عالمی سطح پر پھیلایا جا سکتا ہے۔ اخبارات میں اچھے لکھنے والوں کے لیے ابھی بہت گنجائش موجود ہے جبکہ الیکٹرانک میڈیا میں اچھے بولنے والوں کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے ۔ صرف اچھے رابطے کے ذریعے میڈیا گروپس سے فوائد حاصل کیے جاتے ہیں دینی طبقہ کے میڈیا کے میدان میں زیادہ اثر و رسوخ نہ ہونے کی ایک وجہ ہے بھی ہے کہ مذہبی جماعتوں ، ذیلی تنظیموں ، بڑے دینی اداروں وغیرہ کے شعبہ اطلاعات سے منسلک افراد بھی میڈیا کی ورکنگ سے پوری طرح آگاہ نہیں اور شاید بہت سے مواقع پر تو اس عہدے کو صرف خانہ پری ہی سمجھا جاتا ہے ۔ آج کے دور میں یہ انتہائی اہم عہدہ ہوتا ہے ۔ دینی جماعتیں کسی اہم اور نامور عہدیدار کو ہی ترجمان اور اطلاعات کے شعبے کا انچارج مقرر کرنا پسند کرتی ہیں ۔ اگر کسی بڑے نام کو ہی ترجمان مقرر کرنا مقصود ہو تو بھی کم از کم اس کی مدد کے لیے ہی کسی پروفیشنل کو مقرر کر دیں ۔ ہم زندگی کے دیگر شعبوں میں ٹیکنیکل کاموں کے لیے ہنرمند افراد کی مدد لینا پسند کرتے ہیں ۔ لیکن شاید میڈیا کے لیے اس اصول کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے ۔کیا ہم اپنی گاڑی کا ڈرائیور یا عمارت کا معمار بھی محض تعلق کی بنا پر مقرر کرنا پسند کریں گے ؟ ۔ہرگز بہیں کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ اگر ایسا کیا تو اناڑی ڈرائیور ضرور حادثہ کرا دے گا اور اگر معمار ہنرمند نہ ہوا تو عمارت کو اس طرح بنائے گا کہ وہ جلد گر جائے گی ۔ شعبہ اطلاعات اور تعلقات عامہ کو مضبوط اور ماہر افراد کی زیر نگرانی ہونا چاہیے کیونکہ اس کا درست استعمال آپکی دعوت کو زیادہ تیزی سے عام کرے گا ۔ ہر ہر موقعے پر مکمل منصوبہ بندی کی جائے کہ کس مسئلے پر کیا طریقہ کار اختیار کرنا ہے ۔ کسی کے اخلاص پر شک نہیں کیا جا سکتا ۔ دینی جماعتوں کے شعبہ اطلاعات سے منسلک افراد یقینا مخلص ہوتے ہیں اور اپنے طور پر بھرپور کوشش بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود مطلوبہ نتائج صرف اس لیے حاصل نہیں ہو پاتے کہ منصوبہ بندی اور پیشہ ورانہ مہارت کی کمی ہوتی ہے ۔
اس کے علاوہ بہت سی دینی جماعتوں اور رہنماو ¿ں کو یہ اعتراض بھی ہے کہ میڈیا انہیں کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتا اور اس کا زیادہ فوکس سیاست اور دیگر تفریحی مواد کی طرف ہوتا ہے ۔ اس اعتراض سے پہلے یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا کسی دینی جماعت نے میڈیا کی تربیت کے حوالے سے کوئی ادارہ قای ¿م کیا ہے ؟ کیا میڈیا میں موجود افراد سے تعلقات بڑھانے اور ان تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں ؟ کیا دینی جماعتوں نے باقاعدہ ایسے افراد تیار کیے ہیں جو کہ میڈیا پر مخالفانہ پروپیگنڈے کا جواب دے سکیں ؟ کیا میڈیا کے لیے مواد کی فراہمی اور موجودہ پیش کیے جانیوالے مواد کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں متبادل فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہو سکا تو پھر اعتراض کیسا ؟ جب کچھ بویا ہی نہیں گیا تو کیا کاٹنے کی امید کی جا رہی ہے ۔ اگر آج میڈیا پر لادینیت اور سیکولرازم غالب نظر آتا ہے اور ایسی چیزوں کی بہتات ہے جو کہ اسلامہ تعلیمات کے خلاف ہیں تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عالمی سطح پر اسلام مخالف اداروں نے اس کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں ۔ ایسے ادارے موجود ہیں کہ جو مکمل منصوبہ بندی کے زریعے میڈیا پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ ریسرچ سینٹرز قائم کیے گئے ہیں ، سروے رپورٹس اور انکشافات کے زریعے میڈیا کو ایک خاص لائن فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اسلام مخالفت ادارے میڈیا سے منسلک ہنرمند اور تجربہ کار افراد کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی میں ایسا مواد تیار کیا جاتا ہے جو کہ بظاہر تفریح ، کھیل یا کسی بھی اور مقصد کے لیے ہوتا ہے لیکن اس کا پوشیدہ مقصد معاشرے میں لادینیت پھیلانا ہے ۔ میڈیا پر اس مواد کی اشاعت کے لیے سپانسرز ڈھونڈے جاتے ہیں اور ایک نیٹ ورک کے ذریعے اس کو عام کر دیا جاتا ہے ۔ ہیری پوٹر سیریز اور انڈین چینلز کے ڈرامے اس کی مثال ہیں ۔ ہیری پوٹر سیریز میں جادو وغیرہ کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ اس کی کتاب مارکیٹ میں آتی ہے ۔ چینلز اس کی کوریج کرتے ہیں ۔ پھر فلم بنائی جاتی ہے ۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اس کی مشہوریاں بناتی ہیں ۔ اس نام کے کھلونے اور دیگر سرگرمیاں سامنے آتی ہیں ۔ غرض ایک مکمل منصوبہ بندی کے زریعے اسے پوری دنیا میں زبان زدعام بنا دیا جاتا ہے ۔ یہی حال انڈین ڈراموں کا ہے ۔ ان میں ہندو مذہب کی بھرپور تبلیغ کی جاتی ہے ۔ خواتین کے لباس کے ایسے ڈیزائن متعارت کرائے جاتے ہیں کہ جو بے حیائی کا باعث ہوں ۔ تاجر فور ی طور پر اس قسم کے ڈیزائن کردہ لباس بازار میں لے آتے ہیں اور اس طرح ایک منصوبہ بندی کے زریعے مقصد حاصل کیا جاتا ہے ۔ اگر ہمیں میڈیا کو دینی تبلیغ اور اسلامی روایات کے فروغ کے لیے استعمال کرنا ہے تو اس کے لیے اسی قسم کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی جماعتوں کو میڈیا کے میدان میں کچھ بونے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی فصل معاشرے میں پھیلنے والے اثرات کی صورت میں کاٹ سکیں ۔۔
مسئلے کو صرف محفلوں میں زیر بحث لانا اور ” استغراللہ“ اور نعوذ با اللہ کا ورد کرتے ہوئے میڈیا میں کام کرنیوالوں کو بے دین اور اسلام مخالف قرار دینا بھی مناسب نہیں ۔ کیونکہ اس سے پریشانی حل نہیں ہو گی بلکہ خلیج بڑھتی جائے گی ۔ اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ میڈیا میں کام کرنیوالے بہرحال مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے اور ہمارے اسی مسلم معاشرے میں ہی پروان چڑھے ہیں ۔ یقین کریں کہ ان میں سے کسی کا بھی تعلق بھارت یا ہندوازم سے نہیں ہے اور نہ ہی ان کی تربیت امریکہ ، یہودی تنظیموں یا اسلام مخالف گروہوں میں سے کسی نے کی ہے ۔ یہ اسی معاشرے کے ایسے فرد ہیں کہ جنہیں نظام تعلیم کی خرابی ، دینی طبقے سے رابطے کے فقدان ، مخصوص معاشرتی معاشرتی ماحول اور دیگر عوامل نے موجودہ مقام تک پہنچا دیا ہے ۔ بات تو تلخ ہے لیکن تسلیم کرنا چاہیے کہ انہیں دینی طبقہ میڈیا کے میدان کوئی خاص رہنمائی فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے اور اب یہ لوگ مغرب اور بھارتی ثقافت میں رنگے نظر آتے ہیں ۔ دینی جماعتیں اور حلقے یہ ہی کیوں چاہتے ہیں کہ سب لوگ خود بخود ہی چل کر ان کے پاس آئیں اور آکر رہنمائی کی درخواست کریں ۔ اس بات پر کیونکر غور نہیں کیا جاتا کہ دعوت کا فریضہ تو بہرحال آپ کو ہی سرانجام دینا ہے ۔ اگر آپ اپنی دعوتی سرگرمیوں کو اچھے طریقے سے سرانجام دیں گے اور مضبوط نیٹ ورک بنائیں گے تو معاشرے کا بڑا طبقہ بشمول میڈیا آپ کے ساتھ چلے گا اور اگر ایسا نہ ہو


سکا تو یقینا مخالفین حاوی نظر آئیں گے اور محض مساجد دئیے گئے وعظ اور خطبات کام نہ آ سکیں گے ۔ دینی تعلیمات سے ہٹ کر زندگی گزارنے والوں کو بھی بہرحال کسی صورت بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ اس بحث کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ نظریات کے اس تصادم میں اسلام کی دعوت کے امین اور صاحب علم دینی حلقوں کو کچھ زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے اور خاص کر میڈیا کے میدان میں ۔ یہ بھی حققیت ہے کہ جب بھی کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی تو یہی نوجوان نسل کہ جسے دین بیزار سمجھ لیا گیا تھا وہ ہی ہراول دستہ ثابت ہوئی ۔ کشمیر اور فلسطین کی تحریک آزادی میں یونیورسٹیز کے طلبہ کا ایک بڑا کردار ہے ۔ انٹرنیٹ پر تبلیغ میں بھی بڑا حصہ حصہ ایسے افراد کا ہے جو کہ شاید کبھی کسی مدرسے نہ گئے ہوں ۔ یہ علماءکرام کی کتابوں کی تشہیر کرتے ہیں اور مطالعہ کرکے دلائل ڈھونڈتے ہیں ۔ دینی طبقے کو میڈیا سے منسلک افراد سے رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ دینی اور نظریاتی افراد کو بھی پیشہ ورانہ مہارت حاصل کرکے میڈیا کے اداروں میں داخل کرایا جا سکتا ہے۔ ۔

اس مضمون کا مقصد دعوت فکر تھا کہ ہمیں کے میدان میں ذرا تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ بلکل کام ہی نہیں ہو رہا ۔ بہت سے حلقے کوششیں کر رہے ہیں اور ان کے کچھ مفید نتائج بھی نکلے ہیں ۔ صرف یہ ہے کہ کام منظم نہیں ہے ۔ ایسا سمجھ لینا کہ لوگ میڈیا کے زریعے دین کی دعوت کو سننا ہی نہیں چاہتے بلکل ٹھیک نہیں ہے ۔ یہ میڈیا ہی ہے کہ جس کے باعث آج ڈاکٹر ذاکر نائیک کو پوری دنیا جانتی ہے ۔ مولانا سید توصیف الرحمٰن شاہ کی دعوت عام ہو رہی ہے ۔ ڈاکٹر فرحت ہاشمی عالمی سطح پر پہچان رکھتی ہے ۔ بہت سی اسلامی تنظیموں نے ایسا مواد تیار کیا ہے جو کہ واقعی پرکشش ہے اور اس کی وجہ سے ہی بہت سے لوگ مسلمان بھی ہوئے ۔ انٹرنیٹ تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے اور یورپ و امریکہ میں اتنے لوگ اس کے ذریعے مسلمان ہوئے ہیں جن تک پہنچنا شاید ویسے ممکن ہی نہ ہوتا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی موبائل ایس ایم ایس سروس سے کئی ہزار لوگ مسلمان ہو چکے ہیں ۔ فلسطینی تنظیم حماس اور لبنان میں حزب اللہ نے اپنے مقاصد کے لیے میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا ہے ۔ انہوں نے متعدد مواقع پر یہودی اور مغربی میڈیا کو شکست دی ہے ۔ یہ لوگ انتہائی مہارت سے میڈیا کو اپنے حق کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ ایران میں بھی میڈیا کی روایتی پریکٹس سے ہٹ کر متبادل فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اگر یہ سب منظم طریقے سے ہونے لگے تو کافی زیادہ اچھے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں
یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ وقتی طور پر کسی گروپ کا غلبہ دیکھ کر پریشان نہ ہوا جائے ۔۔ ایسا تو انبیاءکے دور میں بھی نہیں ہوا کہ سب لوگ ہی ہدایت یافتہ ہو گئے ہوں۔۔ یہ مقابلے کی دنیا ہے ۔۔ ہر گروہ کو اپنا اپنا کام کرنا ہوتا ہے ۔ میڈیا معاشرتی تبدیلی کا طاقتور ترین ہتھیار ہے اور دعوت کے میدان میں اس کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہیں ۔ اس لیے دینی طبقے کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا سے دور رہنے کی پالیسی کو دور کرتے ہوئے اسے اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوششوں کا آغاز کریں ۔

میڈیا : برائی کی جڑ یا ایک کارآمد ہتھیار



میڈیا کی حیران کن ترقی نے دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی شدید متاثر کیا ہے ۔ اس نے ہر معاشرے کی طرح ہمارے ہاں بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ میڈیا کے طاقتور اثرات کے باعث کی وجہ سے معاشرتی رویے تبدیل ہوئے ہیں جبکہ اس نے بعض روایات کو بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ میڈیا کے معاشرے پر بے پناہ اثرات کی وجہ سے ہی آج کے دور کو ذرائع ابلاغ کا دور قرار دیا جاتا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کی مختلف صورتیں ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا ( ٹی وی چینلز ۔ سی ڈی اور دیگر ویڈیوز ) ، براڈ کاسٹ یعنی ریڈیو ۔۔ سائبر میڈیا ( انٹرنیٹ ) ، پرنٹ میڈیا ( اخبار، رسائل وغیرہ ) اسی طرح موبائل فونز اور دیگر ذرائع کے ذریعے پیغام رسانی بھی زرائع ابلاغ کا حصہ ہیں ۔ تعلقات عامہ جدید دور کا اہم ترین موضوع ہے اور اسی طرح میڈیا کے دیگر میدانوں کے حوالے سے بھی معلومات اور پیشہ ورانہ تربیت کا خاطر خواہ مواد موجود ہے ۔ حکومتیں ، ادارے ۔ تنظمیں اور مختلف افراد میڈیا کو اپنے پیغامات کی اشاعت ، نظریات کے فروغ ، سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں حتی کہ بعض اوقات جنگی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ۔ترقی یافتہ دنیا میں میڈیا کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے استعمال کرنے کا آغاز کئی دہائیاں پہلے ہو چکا تاہم ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ کی آمد کو ابھی چند سال ہی ہوئے ہیں ۔ یہ ایک نیا چیلنج ہے کہ جس نے ہمارے معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح دینی حلقوں کو بھی متاثر کیا ہے ۔ میڈیا کی روایتی پریکٹس اور تفریحی مواد کی زیادتی کے باعث اسے اسلام اور سماج مخالف سمجھ لیا گیا ہے اور بہت سے حلقے تو تمام تر برائیوں کی جڑ اسے ہی قرار دینے پر مصر ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ دینی حلقوں میں یہ بات سرایت کر چکی ہے کہ میڈیا ہمارے معاشرے میں الحاد ، فحاشی ۔ غیر اسلامی روایات اور ایسی ہی منفی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے تیار کردہ ایک سازش کا حصہ ہے اور اس سے صرف اور صرف وہی کام لیا جا سکتا ہے جو کہ آجکل پاکستانی ۔ بھارتی اور مغربی میڈیا پر نظر آ رہا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دینی حلقے اس سے دور نظر آتے ہیں ۔ میڈیا کے خلاف تقاریر ، تحریروں کی بھرمار ہے حتی کہ فتوے بھی سامنے آئے ہیں لیکن اس کے اثرات کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔ تاہم کچھ مخلص حلقوں نے میڈیا کے میدان میں دینی حوالے سے سرگرمی دیکھائی ہے اور شاید اسی لیے اب کہیں کہیں میڈیا کو سمجھنے اور اس کے درست استعمال کی کوششیں بھی نظر آتی ہیں ۔ حالات کی ٹھوکروں نے میڈیا کی اہمیت تو باور کرا دی ہے لیکن دینی طبقہ ابھی تک میڈیا کے بنائے ہوئے ماحول کو سمجھنے اور اس کی موجودہ پریکٹس میں اپنے لیے راہ تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس تحریر کا مقصد میڈیا سے متعلق پائی جانیوالی غلط فہمیوں کی وضاحت اور دینی طبقے کو ایک دعوت فکر دینا ہے ۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر میڈیا ٹیکنالوجی کو دینی علوم رکھنے والے افراد مکمل پیشہ ورانہ اصولوں کے ساتھ استعمال کریں تو اسے تبلیغ دین کے لیے باآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ چلئیے ہم اس معاملے کو ایک مثال کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے بات واضح ہو جائے گی ۔ ایک ہوائی جہاز آپ کو یورپ کے عشرت کدوں یا عیاشی کے اڈوں میں لے جا سکتا ہے اور وہی مکہ مکرمہ میں حج کے لیے بھی ۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ نے کونسی سمت منتخب کی ہے اور پائیلٹ کو کیا ہدایات دی ہیں ۔ معزز علمائے کرام اور قارئیں کرام ! میڈیا ٹیکنالوجی بھی ہوائی جہاز ، موٹر کاروں اور دیگر سہولیات کی طرح ایک ایجاد ہی ہے ۔ چند آلات بنائے گئے ہیں کہ جن کو پیغام رسانی ، اپنے نظریات کے فروغ اور ان کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ اگر آپ اس کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کریں گے تو یہ آپ کا نظریہ اور پیغام ہر سو پھیلا دے گا اور اگر اس سے دور رہ کر محض تنقید سے کام چلانے کی کوشش کی تو یہ اتنا طاقتور ہے کہ آپ کی آواز کو گمنام بنا دے گا یا آپ خود ہی اس کے اثرات کے سامنے خاموش ہو جائیں گے ۔ ایک اور مثال سمجھتے ہیں کہ کیا آج کے دور میں آپ نے کوئی ایسا نیک شخص دیکھا ہے جو مکمل خلوص اور صرف اور صرف ثواب کے جذبے کے تحت پیدل حج پر جانا چاہتا ہو ۔ شاید نہیں ! کیونکہ علمائے کرام سمیت ہر کوئی اسے جہاز یا اور کوئی تیز ترین ذریعہ استعمال کرنے کی تلقین کرے گا ۔ آج ہم گاڑیوں ، کمپیوٹرز اور ایسی ہی دیگر چیزوں سے صرف اس لیے دور ہونا پسند نہیں کریں گے کہ ان کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے ۔ یہی حال میڈیا ٹیکنالوجی کا ہے ۔ یہ تو دعوت کو تیز ترین طریقے سے بڑے پیمانے پر پھیلا دینے کا ہتھیار ہے ۔ اگر ملحدین اپنا پیغام پھیلانے کے لیے ایسا مواد تیار کر سکتے ہیں کہ جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنے تو اسلامی اصولوں کے اندر رہتے ہوئے بھی ایسا مواد تیار کیا جا سکتا ہے کہ جس سے عقائد پر بھی فرق نہ آئے اور دعوت کا کام بھی ہو سکے ۔ شرط یہ ہے کہ اس کا استعمال سیکھ کر آلات کو مرضی کے مطابق چلانا سیکھا جائے ۔ سوچ و بچار کے بعد اور بھرپور تیاری سے مواد کی تیاری کے لیے کام کیا جائے ۔


س مضمون کے ذریعے دینی طبقوں کو مخاطب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہی اشاعت اسلام کا بھرپور جذبہ رکھتے ہیں اور اس کے لیے اپنا وقت اور توانائیاں صرف کرتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں دین کی جو رہی سہی جھلک نظر آتی ہے وہ مسجد و محراب کے ان وارثوں کی ہی وجہ سے ہے ۔ مدارس کے پڑھے ہوئے علماءکرام ہی ہمارے معاشرے میں دین کے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اس تحریر کا مقصد صرف ان کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اس کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی طرف توجہ دی جائے ۔ دعوت کے جذبے سے ان آلات کو اپنی آواز کفر کے ایوانوں میں پہنچانے کے لیے تصرف میں لایا جائے ۔ یقین کریں کہ میڈیا سے دوستی آپ کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو گی اور یہ آپکی دعوت کو چہار سو پھیلانے کا باعث بن سکتا ہے ۔میڈیا کے درست استعمال کے حوالے سے درپیش مسئلہ کو سمجھنے اور اس کو حل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ یہ واضح ہے کہ اسلام گوشہ نشینوں اور تارک دنیا افراد کا دین نہیں ہے اس کے ماننے والے معاشرے کے فعال رکن بن کر جیتے ہیں ۔تو پھر کیونکر دینی طبقہ کی جانب سے میڈیا کے میدان کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ابلاغ کا شعبہ معاشرے کی تشکیل میں شامل نہیں ہوتا ؟ دینی دعوت کا کام سرانجام دینے والے لوگ اور تنظیمیں کیونکر اس کے بارے میں غور نہیں کرتے ۔ کیا یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ یونیورسٹیز میں ماس کمیونیکشن کرنیوالے طلبہ جو کہ ملکی نظام تعلیم کی خرابیوں کے باعث دین کا کچھ زیادہ نظریاتی علم ہی نہیں رکھتے وہ ہی میڈیا کے میدان میں سب کی رہنمائی کریں گے ۔ دینی طبقہ کیا ان سے معجزوں کی امید لگائے بیٹھا ہے ؟ کیا یہ انتظار ہے کہ یہ لوگ میڈیا کو ایسا بنا دیں گے جو کہ دین کی دعوت کے لیے اچھا ہو اور اس سے اسلام کیا شاعت ہو سکے ؟ اگر ایسا ہے تو واقعی پریشان کن ہے کیونکہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بغیر نظریاتی علم اور ٹھوس علمی بنیاد کے صرف پیشہ ورانہ علم ہی کافی نہیں ہوتا ۔ اور میڈیا کی درست سمت کے تعین کے لیے دینی علم رکھنے والوں کو خود میدان میں آنا پڑے گا ۔
اس تحریر کا مقصد کسی کو طعنے دینا نہیں ہے بلکہ کوشش صرف یہ ہے کہ دینی علوم رکھنے والے افراد میڈیا کی جانب متوجہ ہوں ۔ یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ میڈیا کا خود اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا بلکہ اس کو چلانے والے اپنے خیالات عام کرتے ہیں ۔ اگر دینی لوگ اس کی باگ دوڑ سنبھالیں گے تو یقینا اسے ہدایت کا سرچشمہ بنایا جا سکتا ہے اور اگر کم دینی علم رکھنے والے یا بلکل ہی نابلد لوگوں کے ہاتھ میں میڈیا کی طاقت دے دی جائے تو پھر یقینا یہی کچھ ہو گا کہ جو آج آپ دیکھ رہے ہیں ۔ یونیورسٹیز کے طلبہ کے پاس اچھی دینی معلومات تو ہو سکتی ہیں لیکن نظریاتی حدود کا خیال اور معاشرتی تبدیلیوں کی دینی لحاظ سے درست سمت کا تعین وہی لوگ کر سکتے ہیں کہ جنہوں نے باقاعدہ دینی علوم حاصل کر رکھے ہوں ۔ میری مراد مدارس کے پڑھے افراد ہیں اور وہ علما جو اصل دینی مصادر سے استفادہ کرتے ہیں ۔ احادیث کے علوم سے واقف ہیں جبکہ غلط عقائد اور خالص اسلامی حکم کے درمیان فرق کر سکتے ہیں ۔ میڈیا کو تو اچھے بولنے والے چاہیے ۔ یہ واقعی المیہ ہے کہ اس وقت جو دینی پروگرام پیش کیے جا رہے ہیں ان میں ٹھوس دینی علم رکھنے والوں کی بجائے نیم دینی علم رکھنے والے لوگ غالب ہیں ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مستند دینی حلقے اچھے اینکر اور ٹی وی پر اچھے بولنے والے افراد فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ میدان جاوید غامدی اور ڈاکٹر عامر لیاقت جیسے لوگوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ اب دینی پروگراموں کو اپنے طریقے سے چلا رہے ہیں اور یہی حال ویب سائٹس ، ایف ایم ریڈیوز وغیرہ کا بھی ہے ۔ اسی طرح دینی طبقات میں اچھی کتابیں لکھنے کا رواج تو عام ہے لیکن میڈیا کے لیے مضامین نہیں لکھے جاتے ۔ ہمارے ہاں حالات حاضرہ کو دینی نقطہ نظر سے زیر بحث لانے کا انتظام نہیں ۔ آپ کو ایک ایک سو یا اس سے بھی زیادہ کتابیں لکھنے والے علمائے کرام تو مل جائیں گے لیکن کالم نگار ، فیچر نگار علماءکی تعداد انتہائی کم ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ علماءکی کتابیں انہی کے حلقے کے لوگ تو ضرور پڑھتے ہیں یا پھر اچھا ادبی ذوق رکھنے والے طبقے بلکہ اس میں مسلک اور جماعت کی تفریق بھی حائل ہو جاتی ہے ۔ جبکہ اگر یہی علماءاچھے انداز سے میڈیا میں اظہار خیال کریں ۔ کالم لکھیں ، معاشرتی مسائل پر فیچر لکھیں تو نہ صرف زیادہ بڑا طبقہ مستفید ہوگا بلکہ لوگ دین کی طرف مائل بھی ہوں گے ۔ حالات حاضرہ کو دینی نقطہ نظر سے زیر بحث لانے سے یہ بھی فائدہ ہوگا کہ علمائے کرام کے بارے میں عام تاثر بھی دور ہو گا کہ یہ وقت کے تقاضوں کو نہیں سمجھتے ۔
ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا یعنی ٹی وی ۔۔ فلم اور دیگر ویڈیوز کو ہی سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے جبکہ حققیت یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ذرائع ابلاغ کا ایک طاقتور حصہ ضرور ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کے بغیر پیغام رسانی اور نظریات کا فروغ ہی ممکن نہیں ۔ ویسے تو بہت سے دینی حلقے کچھ حدود و قیود کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا کے قائل ہو چکے ہیں لیکن اگر کوئی جماعت اس کے بغیر ہی چلنا چاہے تو بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں آنے کے لیے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے کیونکہ دینی تبلیغ کے لیے موجودہ رائج الوقت طریقے کار آمد نہیں ہوں گے ۔ دینی جماعتوں کو چاہیے کہ الیکٹرانک میڈیا میں زور آزمائی سے پہلے پہلے دیگر شعبہ جات یعنی پرنٹ میڈیا ( اخبارات و رسائل ) ، سائبر میڈیا یعنی انٹرنیٹ وغیرہ میں زیادہ کام کریں ۔ کچھ عرصہ کی مکمل پیشہ ورانہ تربیت کے بعد الیکٹرانک میڈیا کی طرف آیا جائے ۔ کیونکہ یہ ایک مہنگا کام ہے اس لیے بغیر پیشہ ورانہ تربیت کے فنڈز ضائع ہونے کا بھی خدشہ ہے ۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انٹرنیٹ ، پرنٹ میڈیا اور دیگر زرائع ابلاغ بھی کچھ کم اہمیت کے حامل نہیں ہیں اور اگر ان کو مکمل پیشہ ورانہ اصولوں سے استعمال کیا جائے تو ان سے انتہائی مفید نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ شرط صرف اور صرف یہ ہے کہ روایتی اور ڈنگ ٹپاو ¿ طریقوں سے ہٹ کر اس شعبے کی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔ پروپیگنڈا کرنا ایک مکمل سائنس کا درجہ حاصل کر چکا ہے اور اس کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے ۔ ایک وضاحت یہ بھی ضروری ہے کہ ” پروپیگنڈا“ کے لفظ کو بھی میڈیا کی طرح صرف منفی معنوں میں ہی استعمال کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ اس سے مراد پیغام کو زیادہ سے زیادہ پھیلا دینا ہے ۔ یعنی دعوت کو عام کرنا ۔ یہ منفی اور مثبت دونوں معنوں میں استعمال ہو تا ہے ۔ انشاءاللہ آئندہ کسی مضمون میں اس کی تکنیکس


کے بارے میں بھی بتانے کی کوشش کروں گا ۔ دعوتی سرگرمیوں سے منسلک علماءکرام کو ان سے متعلق جاننے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکیں ۔ انتہائی سستے طریقے موجود ہیں کہ جن کے زریعے آپ اپنی بات سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں تک با آسانی پہنچا سکتے ہیں ۔ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس ، ای میلز ، ڈیلی نیوز لیٹر ، بلاگس ، ویب سائٹس اور ایسی بہت سے چیزوں کے استعمال سے دعوتی سرگرمیوں ملکی بلکہ عالمی سطح پر پھیلایا جا سکتا ہے۔ اخبارات میں اچھے لکھنے والوں کے لیے ابھی بہت گنجائش موجود ہے جبکہ الیکٹرانک میڈیا میں اچھے بولنے والوں کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے ۔ صرف اچھے رابطے کے ذریعے میڈیا گروپس سے فوائد حاصل کیے جاتے ہیں دینی طبقہ کے میڈیا کے میدان میں زیادہ اثر و رسوخ نہ ہونے کی ایک وجہ ہے بھی ہے کہ مذہبی جماعتوں ، ذیلی تنظیموں ، بڑے دینی اداروں وغیرہ کے شعبہ اطلاعات سے منسلک افراد بھی میڈیا کی ورکنگ سے پوری طرح آگاہ نہیں اور شاید بہت سے مواقع پر تو اس عہدے کو صرف خانہ پری ہی سمجھا جاتا ہے ۔ آج کے دور میں یہ انتہائی اہم عہدہ ہوتا ہے ۔ دینی جماعتیں کسی اہم اور نامور عہدیدار کو ہی ترجمان اور اطلاعات کے شعبے کا انچارج مقرر کرنا پسند کرتی ہیں ۔ اگر کسی بڑے نام کو ہی ترجمان مقرر کرنا مقصود ہو تو بھی کم از کم اس کی مدد کے لیے ہی کسی پروفیشنل کو مقرر کر دیں ۔ ہم زندگی کے دیگر شعبوں میں ٹیکنیکل کاموں کے لیے ہنرمند افراد کی مدد لینا پسند کرتے ہیں ۔ لیکن شاید میڈیا کے لیے اس اصول کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے ۔کیا ہم اپنی گاڑی کا ڈرائیور یا عمارت کا معمار بھی محض تعلق کی بنا پر مقرر کرنا پسند کریں گے ؟ ۔ہرگز بہیں کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ اگر ایسا کیا تو اناڑی ڈرائیور ضرور حادثہ کرا دے گا اور اگر معمار ہنرمند نہ ہوا تو عمارت کو اس طرح بنائے گا کہ وہ جلد گر جائے گی ۔ شعبہ اطلاعات اور تعلقات عامہ کو مضبوط اور ماہر افراد کی زیر نگرانی ہونا چاہیے کیونکہ اس کا درست استعمال آپکی دعوت کو زیادہ تیزی سے عام کرے گا ۔ ہر ہر موقعے پر مکمل منصوبہ بندی کی جائے کہ کس مسئلے پر کیا طریقہ کار اختیار کرنا ہے ۔ کسی کے اخلاص پر شک نہیں کیا جا سکتا ۔ دینی جماعتوں کے شعبہ اطلاعات سے منسلک افراد یقینا مخلص ہوتے ہیں اور اپنے طور پر بھرپور کوشش بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود مطلوبہ نتائج صرف اس لیے حاصل نہیں ہو پاتے کہ منصوبہ بندی اور پیشہ ورانہ مہارت کی کمی ہوتی ہے ۔
اس کے علاوہ بہت سی دینی جماعتوں اور رہنماو ¿ں کو یہ اعتراض بھی ہے کہ میڈیا انہیں کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتا اور اس کا زیادہ فوکس سیاست اور دیگر تفریحی مواد کی طرف ہوتا ہے ۔ اس اعتراض سے پہلے یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا کسی دینی جماعت نے میڈیا کی تربیت کے حوالے سے کوئی ادارہ قای ¿م کیا ہے ؟ کیا میڈیا میں موجود افراد سے تعلقات بڑھانے اور ان تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں ؟ کیا دینی جماعتوں نے باقاعدہ ایسے افراد تیار کیے ہیں جو کہ میڈیا پر مخالفانہ پروپیگنڈے کا جواب دے سکیں ؟ کیا میڈیا کے لیے مواد کی فراہمی اور موجودہ پیش کیے جانیوالے مواد کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں متبادل فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہو سکا تو پھر اعتراض کیسا ؟ جب کچھ بویا ہی نہیں گیا تو کیا کاٹنے کی امید کی جا رہی ہے ۔ اگر آج میڈیا پر لادینیت اور سیکولرازم غالب نظر آتا ہے اور ایسی چیزوں کی بہتات ہے جو کہ اسلامہ تعلیمات کے خلاف ہیں تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عالمی سطح پر اسلام مخالف اداروں نے اس کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں ۔ ایسے ادارے موجود ہیں کہ جو مکمل منصوبہ بندی کے زریعے میڈیا پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ ریسرچ سینٹرز قائم کیے گئے ہیں ، سروے رپورٹس اور انکشافات کے زریعے میڈیا کو ایک خاص لائن فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اسلام مخالفت ادارے میڈیا سے منسلک ہنرمند اور تجربہ کار افراد کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی میں ایسا مواد تیار کیا جاتا ہے جو کہ بظاہر تفریح ، کھیل یا کسی بھی اور مقصد کے لیے ہوتا ہے لیکن اس کا پوشیدہ مقصد معاشرے میں لادینیت پھیلانا ہے ۔ میڈیا پر اس مواد کی اشاعت کے لیے سپانسرز ڈھونڈے جاتے ہیں اور ایک نیٹ ورک کے ذریعے اس کو عام کر دیا جاتا ہے ۔ ہیری پوٹر سیریز اور انڈین چینلز کے ڈرامے اس کی مثال ہیں ۔ ہیری پوٹر سیریز میں جادو وغیرہ کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ اس کی کتاب مارکیٹ میں آتی ہے ۔ چینلز اس کی کوریج کرتے ہیں ۔ پھر فلم بنائی جاتی ہے ۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اس کی مشہوریاں بناتی ہیں ۔ اس نام کے کھلونے اور دیگر سرگرمیاں سامنے آتی ہیں ۔ غرض ایک مکمل منصوبہ بندی کے زریعے اسے پوری دنیا میں زبان زدعام بنا دیا جاتا ہے ۔ یہی حال انڈین ڈراموں کا ہے ۔ ان میں ہندو مذہب کی بھرپور تبلیغ کی جاتی ہے ۔ خواتین کے لباس کے ایسے ڈیزائن متعارت کرائے جاتے ہیں کہ جو بے حیائی کا باعث ہوں ۔ تاجر فور ی طور پر اس قسم کے ڈیزائن کردہ لباس بازار میں لے آتے ہیں اور اس طرح ایک منصوبہ بندی کے زریعے مقصد حاصل کیا جاتا ہے ۔ اگر ہمیں میڈیا کو دینی تبلیغ اور اسلامی روایات کے فروغ کے لیے استعمال کرنا ہے تو اس کے لیے اسی قسم کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی جماعتوں کو میڈیا کے میدان میں کچھ بونے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی فصل معاشرے میں پھیلنے والے اثرات کی صورت میں کاٹ سکیں ۔۔
مسئلے کو صرف محفلوں میں زیر بحث لانا اور ” استغراللہ“ اور نعوذ با اللہ کا ورد کرتے ہوئے میڈیا میں کام کرنیوالوں کو بے دین اور اسلام مخالف قرار دینا بھی مناسب نہیں ۔ کیونکہ اس سے پریشانی حل نہیں ہو گی بلکہ خلیج بڑھتی جائے گی ۔ اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ میڈیا میں کام کرنیوالے بہرحال مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے اور ہمارے اسی مسلم معاشرے میں ہی پروان چڑھے ہیں ۔ یقین کریں کہ ان میں سے کسی کا بھی تعلق بھارت یا ہندوازم سے نہیں ہے اور نہ ہی ان کی تربیت امریکہ ، یہودی تنظیموں یا اسلام مخالف گروہوں میں سے کسی نے کی ہے ۔ یہ اسی معاشرے کے ایسے فرد ہیں کہ جنہیں نظام تعلیم کی خرابی ، دینی طبقے سے رابطے کے فقدان ، مخصوص معاشرتی معاشرتی ماحول اور دیگر عوامل نے موجودہ مقام تک پہنچا دیا ہے ۔ بات تو تلخ ہے لیکن تسلیم کرنا چاہیے کہ انہیں دینی طبقہ میڈیا کے میدان کوئی خاص رہنمائی فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے اور اب یہ لوگ مغرب اور بھارتی ثقافت میں رنگے نظر آتے ہیں ۔ دینی جماعتیں اور حلقے یہ ہی کیوں چاہتے ہیں کہ سب لوگ خود بخود ہی چل کر ان کے پاس آئیں اور آکر رہنمائی کی درخواست کریں ۔ اس بات پر کیونکر غور نہیں کیا جاتا کہ دعوت کا فریضہ تو بہرحال آپ کو ہی سرانجام دینا ہے ۔ اگر آپ اپنی دعوتی سرگرمیوں کو اچھے طریقے سے سرانجام دیں گے اور مضبوط نیٹ ورک بنائیں گے تو معاشرے کا بڑا طبقہ بشمول میڈیا آپ کے ساتھ چلے گا اور اگر ایسا نہ ہو


سکا تو یقینا مخالفین حاوی نظر آئیں گے اور محض مساجد دئیے گئے وعظ اور خطبات کام نہ آ سکیں گے ۔ دینی تعلیمات سے ہٹ کر زندگی گزارنے والوں کو بھی بہرحال کسی صورت بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ اس بحث کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ نظریات کے اس تصادم میں اسلام کی دعوت کے امین اور صاحب علم دینی حلقوں کو کچھ زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے اور خاص کر میڈیا کے میدان میں ۔ یہ بھی حققیت ہے کہ جب بھی کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی تو یہی نوجوان نسل کہ جسے دین بیزار سمجھ لیا گیا تھا وہ ہی ہراول دستہ ثابت ہوئی ۔ کشمیر اور فلسطین کی تحریک آزادی میں یونیورسٹیز کے طلبہ کا ایک بڑا کردار ہے ۔ انٹرنیٹ پر تبلیغ میں بھی بڑا حصہ حصہ ایسے افراد کا ہے جو کہ شاید کبھی کسی مدرسے نہ گئے ہوں ۔ یہ علماءکرام کی کتابوں کی تشہیر کرتے ہیں اور مطالعہ کرکے دلائل ڈھونڈتے ہیں ۔ دینی طبقے کو میڈیا سے منسلک افراد سے رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ دینی اور نظریاتی افراد کو بھی پیشہ ورانہ مہارت حاصل کرکے میڈیا کے اداروں میں داخل کرایا جا سکتا ہے۔ ۔

اس مضمون کا مقصد دعوت فکر تھا کہ ہمیں کے میدان میں ذرا تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ بلکل کام ہی نہیں ہو رہا ۔ بہت سے حلقے کوششیں کر رہے ہیں اور ان کے کچھ مفید نتائج بھی نکلے ہیں ۔ صرف یہ ہے کہ کام منظم نہیں ہے ۔ ایسا سمجھ لینا کہ لوگ میڈیا کے زریعے دین کی دعوت کو سننا ہی نہیں چاہتے بلکل ٹھیک نہیں ہے ۔ یہ میڈیا ہی ہے کہ جس کے باعث آج ڈاکٹر ذاکر نائیک کو پوری دنیا جانتی ہے ۔ مولانا سید توصیف الرحمٰن شاہ کی دعوت عام ہو رہی ہے ۔ ڈاکٹر فرحت ہاشمی عالمی سطح پر پہچان رکھتی ہے ۔ بہت سی اسلامی تنظیموں نے ایسا مواد تیار کیا ہے جو کہ واقعی پرکشش ہے اور اس کی وجہ سے ہی بہت سے لوگ مسلمان بھی ہوئے ۔ انٹرنیٹ تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے اور یورپ و امریکہ میں اتنے لوگ اس کے ذریعے مسلمان ہوئے ہیں جن تک پہنچنا شاید ویسے ممکن ہی نہ ہوتا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی موبائل ایس ایم ایس سروس سے کئی ہزار لوگ مسلمان ہو چکے ہیں ۔ فلسطینی تنظیم حماس اور لبنان میں حزب اللہ نے اپنے مقاصد کے لیے میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا ہے ۔ انہوں نے متعدد مواقع پر یہودی اور مغربی میڈیا کو شکست دی ہے ۔ یہ لوگ انتہائی مہارت سے میڈیا کو اپنے حق کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ ایران میں بھی میڈیا کی روایتی پریکٹس سے ہٹ کر متبادل فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اگر یہ سب منظم طریقے سے ہونے لگے تو کافی زیادہ اچھے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں
یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ وقتی طور پر کسی گروپ کا غلبہ دیکھ کر پریشان نہ ہوا جائے ۔۔ ایسا تو انبیاءکے دور میں بھی نہیں ہوا کہ سب لوگ ہی ہدایت یافتہ ہو گئے ہوں۔۔ یہ مقابلے کی دنیا ہے ۔۔ ہر گروہ کو اپنا اپنا کام کرنا ہوتا ہے ۔ میڈیا معاشرتی تبدیلی کا طاقتور ترین ہتھیار ہے اور دعوت کے میدان میں اس کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہیں ۔ اس لیے دینی طبقے کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا سے دور رہنے کی پالیسی کو دور کرتے ہوئے اسے اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوششوں کا آغاز کریں ۔

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی