مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Friday, May 28, 2010

اسلام مخالف اور دین بیزار قوتوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ علماء کی معمولی سے معمولی غلطیوں کو اچھال کر عوام کو ان سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ اس طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی گفتگو کا آغاز عالم اسلام کی زبوں حالی ، دنیا میں اسلام کی حالت زار، مسلمانوں پر گیر ملکی تسلط غرض جیسی باتوں سے ہوتا ہے۔ظاہر ہے کوئی بھی اس صورتحال سے انکار نہیں کر سکتا کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کو واقعی سخت ترین حالات کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جیسے ہی آپ یہ مان لیتے ہیں تو دوسرے مرحلے میں وہ ان سب خرابیوں کی وجہ علما ءکو قرار دیتے ہیں۔۔ ان کا پروپیگنڈا یہی ہوتا ہے کہ علماء ہی فرسودہ خیالات کے حامی ہیں اور ساری تباہی کی وجہ یہی ہیں۔۔۔ ان کی وجہ سے ہی اسلام کو سر بلندی نہیں مل سکی ہے اور مسلمان ممالک کی حالت زار ایسی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ طبقہ جس میں غیر مذاہب کے لوگ شامل ہیں ، اسلام سے خارج ہونیوالے قادیانی تو خاص کر اس حربے کو استعمال کرتے ہیں جبکہ ان لوگوں کو بھی اس طبقے میں شامل کیا جا سکتا ہے کہ جو مسلمانوں کے گھر پیدا ہونے کو ہی اتنا بڑا احسان سمجھتے ہیں کہ ساری زندگی مذہب کی مخالفت کرتے اور کسی بھی اسلام حکم احکام کی پابندی کے بغیر ہی گزار دیتے ہیں ۔۔ان کا موقف ہوتاہے کہ جی وہ ”جاہل علماء“ کے پیروکار نہیں بن سکتے اور اسی ایک ضد کو لیکر وہ دین اسلام سے ہی دور نظر آتے ہیں ۔ ان کے نام نہیں بدلتے لیکن ان کو دیکھ کر اکثر ”یہود وہنود “ شرماتے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔ اس گروہ کی جانب سے ہی علماء کے بارے میں من گھڑے قصے سنائے جاتے ہیں۔۔۔اور بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کو رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ عوام ان سے مزید متنفر ہوں۔خاص کر جدید دنیاوی علوم کے حامل افراد پر یہ طریقہ کافی اثر انگیز ہوتا ہے کیونکہ انکا دینی علم کچھ زیادہ نہیں ہوتا اور وہ مغربی علم اور طاقت سے کافی متاثر ہوتے ہیں۔علماء سے خوب خوب متنفر کرنے کے بعد تیسرے مرحلے میں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان حالات میں عالم اسلام کو ایک لیڈر اور ایسے رہنما کی ضرورت ہے کہ جو اس حالت کو بدل دے۔۔اب چونکہ وہ علما ء سے پہلے ہی متنفر کر چکے ہیں۔۔۔اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے یا کم دینی علم رکھنے والے افراد کا دینی طبقے سے رابطہ کم ہی ہوتا ہے۔۔۔اس لیے وہ اسے ہی سچ سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک زیادہ تر لوگ اتفاق کرتے ہیں کہ واقعی عالم اسلام کو ایک اچھے لیڈر کی ضرورت ہے۔۔۔ تاکہ مغربی تسلط کو ختم کر دیا جائے۔ اب مرحلہ آتا ہے اپنی من پسند کے لیڈر مسلط کرنے کا۔۔ قادیانی اپنے مسیح موعود کو سب مسائل کا حل قرار دیتے ہیں، کوئی اشتراکیت کا حامی ہے تو کوئی مغربیت اور سرمایہ داری کی مدد سے اسلام کو بچانا چاہتا ہے ۔۔ ہر ایک کی یہی ضد ہوتی ہے کہ اس کا پیش کردہ طریقہ اور بندہ ہی نجات دہندہ ہے۔۔آپ کو ایسے کئی لیڈر اور رہنماءمارکیٹ میں مل سکتے ہیں کہ جو علماءکی تذلیل کرکے شہرت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اکثر ان کو اسلام دشمن عناصر کی مدد حاصل ہو جاتی ہے اور بعض دین بیزار لوگ بھی ان کے ساتھی بن جاتے ہیں ۔اس گروہ کا بڑا مقصد اپنے مزموم مقاصد کے لیے لوگوں کو علماء سے متنفر کرنا ہوتا ہے۔ مثلا پاکستان پر دہشت گردی بھارت کرے ، ازبک گوریلے یا بلیک واٹر والے قتل و غارت میں ملوث ہوں الزام ہمیشہ علماء پر ہی آئے گا۔۔۔ اگر پورے ملک میں کہیں کسی کی ذاتی رنجش کے نتیجے میں ہی کوئی دوسرے فرقے کا فرد قتل ہو جائے تو ملزم سارا علما کا طبقہ ہی بنے گا۔۔غرض آپ کو ایسی ہزاروں مثالیں ملیں گی کہ جب مسئلہ کوئی اور ہوتا ہے جبکہ اس کو زیر بحث علماء کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔اور خاص کر پاکستان میں اس کا پروپیگنڈا کرنا انتہائی آسان ہے۔کیونکہ یہاں کے زیادہ تر لوگ ایسے معاملات پر تحقیق وغیرہ کا شوق نہیں رکھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ علماء بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔۔ وہ بھی دوسروں کی طرح انسان ہی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض لوگ خاندانی تعلق اور بعض دوسری وجوہات کی بنا پر اپنے مزموم مقاصد کے لیے عالم دین بننے کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور مذہبی رنگ کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔۔لیکن ایسے لوگ نہ صرف بہت جلد بے نقاب ہو جاتے ہیں بلکہ دینی طبقہ انہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا ۔آپ کو انسانوں کے اس طبقے سے لاکھ اختلافات ہو سکتے ہیں۔ اور یہ ہرگز کوئی عجیب بات نہیں۔ کسی بھی معاشرے میں ایسا ہونا ممکن ہے۔
کیا عیسائی پادریوں کے سکینڈل سامنے نہیں آتے؟
کیا بنیاد پرست عیسائی اور یہودی نہیں ہوتے؟
کیا یہودی علماءفلسطین کے معصوم بچوں کے قتل و غارت کی تبلیغ نہیں کرتے ؟؟
کیا مغربی ممالک میں مختلف گروہوں کے افراد ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز زبان استعمال نہیں کرتے۔۔
کیا بھارت کی دس سے زائد ریاستوں میں سرگرم نکسل باغیوں کی تربیت علما اسلام نے کی ہے جو کہ تشدد کی ایک بدترین مثال ہیں۔۔
کیا چرچوں میں پادریوں کی جانب سے زنا اور زیادتیوں کے ہزاروں واقعات سامنے نہیں آ چکے۔
کیا پاکستان میں کرپشن کے ذریعے کھربوں روپے کمانے والوں کا تعلق علما کے طبقے سے ہے۔ جو کہ ملک کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔۔
کیا کسی نے سری لنکا میں تامل باغیوں کے خودکش بمبار نہیں دیکھے ۔
قادیانیوں کی جانب سے پاکستان میں کئی افراد کے قتل اور ایک حالیہ واقعے میں تیسرے خلیفہ مرزا ناصر کے بیٹے احمد بلا ل کو محض اسلام لانے پر تشدد کا نشانہ بنانے سے ان کے مربی دہشت گرد قرار دئیے گئے ہیں
دنیا کے کئی ممالک میں کیمونسٹوں اور عیسائیوں کی جانب سے بغاوت جاری ہے۔۔۔لیکن کیا کبھی کسی نے اس کو عیسائی مذہب کی غلطی قرار دیا ہے۔۔
کیا امریکہ میں کبھی کسی قتل کی واردات کے بعد عیسائیت اور پادریوں کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔ یا میڈیا نے عیسائی نے یہودی کو قتل کر دیا کا پروپیگنڈا کیا ہے۔کیا صدر بش کی جانب سے کروسیڈ شروع کرنے کے اعلان پر اس کے رہنما پادری ملزم ٹھہرے۔ہر گز نہیں۔ کبھی بھی نہیں میرے نادان دوستو یہ سب جانتے ہیں کہ دنیا میں تہذیبوں کی جنگ جاری ہے اور اس میں وہی جیتے گا کہ جو دوسرے کے مذہب ، معاشرے اور اس کے مذہبی طبقے کو ہرانے میں کامیاب رہے گا۔علمائے کرام سمیت کسی بھی طبقے کو غلطیوں سے پاک نہیں قرار دےا جا سکتا ہے ۔ کروڑوں افراد پر مشتمل کسی طبقے کے کچھ افراد غلط بھی ہو سکتے ہیں۔۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان میں قبائلی علاقوں کی شورش کو اسلام اور علماء سے منسلک کیا جاتا ہے ۔ایسے افراد سے سوال ہے کہ بلوچستان میں جو آئے روز قتل و غارت ہوتی ہے اس کے پیچھے کون سے عالم دین ہے۔کیا وہ بھی اسلام کی جنگ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ معاشرتی ناانصافی، غیر ملکی مداخلت، مشرف جیسے حکمرانوں کی جانب سے طاقت کا غیر ضروری استعمال ، کرپشن اور لا قانونیت کے باعث ملکی معیشت کی تباہی۔ اور سب سے بڑھ کر افغانستان میں امریکی موجودگی اور ڈرون حملے وہ بنیادی وجوہات ہیں کہ جن کے باعث ملک ایسے حالات سے دوچار ہے۔۔
۔اگر کوئی طبقہ اس کے لیے اپنی عسکری کارروائیوں کے لیے اسلام کا لفظ استمال کرتا ہے تو اسے ان کی غلط فہمی اور باغی پن قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اسلام فتنے سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔ لیکن اس کے تحت پورے طبقے کو الزام دینا ٹھیک نہیں ہے۔ پاکستان کی بڑی دینی اور سیاسی جماعتیں عسکری جدوجہد سے اسلام کے نفاذ کے نظریہ سے اختلاف کرتی ہیں۔اور متعدد بار علماءکی جانب سے اس شورش کے خاتمے کے لیے امن کی کوششیں بھی کی گئی ہیں۔فرقہ واریت کا الزام سب سے بڑھ کر لگایا جاتا ہے۔تو اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اختلاف رائے ہونا کوئی بری بات نہیں۔۔۔ آپ دلائل کی بنیاد پر کسی سے بھی اختلاف کر سکتے ہو۔۔ماسوائے اللہ تعالی اور نبی اکرم ﷺ کے احکامات کے۔۔بعض اوقات بات کے مفہوم اور لاعلمی کی بنیاد پر اختلافات سامنے آتے ہیں۔اور یہ ہرگز ہرگز بری بات نہیں ہے۔ایسا صحابہ کے دور سے چلا آ رہا ہے۔ بڑے بڑے علماءاور محدث ایک دوسرے سے علمی اختلافات کرتے چلے آئے ہیں ۔لیکن کبھی کسی نے دوسرے کو کمتر نہیں سمجھا اور نہ ہی اس کو مار دینے کی دھمکی دی۔ پاکستان میں فرقہ واریت کی بنیاد پر تشدد ایک بڑا مسئلہ ہے۔جس کیکوئی بھی حمایت نہیں کرتا۔یہ سب ایک مخصوص دور میں ہوتا رہا ہے اور ان جھگڑوں میں بعض ملک دشمن اور غیر ملکی عناصر کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں۔چند برس پہلے تک ہی تمام فرقوں کی نمائندہ جماعتوں پر مشتمل مجلس عمل بنائی گئی اور سب نے باہمی اتفاق سے ملک میں پرامن ماحول بنا دیا۔ اس میں شعیہ بھی تھے اور سنی بھی ، اہلحدیث بھی اور بریلوی مسلک کی جماعتیں بھی۔ اور ایک اہم ترین بات یہی ہے کہ اگر دنیا بھر میں علماءکا پورا طبقہ ہی فرقہ واریت کی بنیاد پر تشدد کا حامی ہے تو پھر پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں یہ سب کچھ کیوں نہیں ہوتا۔۔کیا وہاں شعیہ اور سنی کا اختلاف نہیں ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ایک عالمی سازش کے تحت پاکستان میں اس طرح کی کارروائیاں بعض ملک دشمن عناصر کراتے ہیں جس کا مقصد ملک اور اسلام کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ کراچی میں عاشورہ کے جلوس میں بم دھماکے کا الزام دوسرے پر فرقے پر عائد کریں حالانہ ابھی تک اس کے بھی کوئی ثبوت سامنے نہیں آئے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اس بم دھماکے کے بعد کراچی میں قتل و غارت اور مختلف مارکیٹوں کو جلانے کی کارروائی آپ کس کے کھاتے میں ڈالیں گے۔کیا مولانا حسن جان، مفتی شامزئی ، مولانا سرفراز نعیمی ، علامہ احسان الہی ظہیر اور دیگر علما کو بھی علماء نے خود ہی قتل کیا تھا ۔جبکہ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں اسلام کی اشاعت اور مسلمانوں کو مذہب سے قریب تر رکھنے کا فریضہ صرف انہی علمائے کرام نے سرانجام دیا ہے۔اگر آج یورپ اور امریکہ کی عیسائیت اپنے ہاں اسلام کے تیز ترین پھیلاو سے پریشان ہے تو یہ سب اسلام کے خادم ان علما کی ہی وجہ سے ہے۔آپ مسلمانوں کو تو کم علم اور دیگر طعنوں کے ساتھ یہ الزام دے سکتے ہیں کہ وہ علماء کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔ لیکن یورپ اور امریکہ اور دیگر ممالک کے بڑے بڑے سکالرز اور صاحب علم افراد کے قبول اسلام کو بھی کیا کوئی حادثہ ہی قرار دیا جائے گا۔ انہوں نے علماءکی ہی دعوت پر اسلام قبول کیا ہے نہ کہ دن رات علماءپر تنقید کرتے مغرب پرستوں کے کہنے پر۔علما کا کام دینی معاملات میں رہنمائی فراہم کرنا ہے اور یہ بات پورے دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے اپنا یہ فریضہ بخوبی نبھایا ہے۔اگر آپ کو کسی بھی معاملے پر دینی رہنمائی کی ضرورت ہے تو آپ کے لیے مواد کا انبار موجود ملے گا۔اگر تعصب کی آنکھ اتار کر دیکھا جائے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ ایک ایسے دور میں کہ جب مغرب سمیت پوری دنیا لادینیت کی لپیٹ میں ہے۔۔۔ عیسائیت کے ماننے والے اس کی تعلیمات پر کی بجائے ملحد بن رہے ہیں یا کم از کم ان کے طرز معاشرت میں مذہب کا کوئی کردار نہیں اور یہی حال ہندوازم کا ہے۔ تو اس دور میں اگر آج بھی مسلمانوں میں کسی حد تک دینی جذبہ برقرار ہے تو یہ صرف ان علما ہی کی وجہ سے ہے۔۔
لاکھوں لوگ کسی بھی غرض کے بغیر رضا کارانہ طور پر تبلیغ اسلام کے لیے کوشاں ہیں۔۔۔ اسلام پر ہونیوالے اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ اگر ڈھونڈنا چاہیں تو ان میں بہت سے خامیاں بھی مل جائیں گی لیکن ان کی ساری زندگی کی خدمات کو کیا نام دیا جائے گا

علماءاتنے مطعون کیوں؟؟

اسلام مخالف اور دین بیزار قوتوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ علماء کی معمولی سے معمولی غلطیوں کو اچھال کر عوام کو ان سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ اس طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی گفتگو کا آغاز عالم اسلام کی زبوں حالی ، دنیا میں اسلام کی حالت زار، مسلمانوں پر گیر ملکی تسلط غرض جیسی باتوں سے ہوتا ہے۔ظاہر ہے کوئی بھی اس صورتحال سے انکار نہیں کر سکتا کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کو واقعی سخت ترین حالات کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جیسے ہی آپ یہ مان لیتے ہیں تو دوسرے مرحلے میں وہ ان سب خرابیوں کی وجہ علما ءکو قرار دیتے ہیں۔۔ ان کا پروپیگنڈا یہی ہوتا ہے کہ علماء ہی فرسودہ خیالات کے حامی ہیں اور ساری تباہی کی وجہ یہی ہیں۔۔۔ ان کی وجہ سے ہی اسلام کو سر بلندی نہیں مل سکی ہے اور مسلمان ممالک کی حالت زار ایسی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ طبقہ جس میں غیر مذاہب کے لوگ شامل ہیں ، اسلام سے خارج ہونیوالے قادیانی تو خاص کر اس حربے کو استعمال کرتے ہیں جبکہ ان لوگوں کو بھی اس طبقے میں شامل کیا جا سکتا ہے کہ جو مسلمانوں کے گھر پیدا ہونے کو ہی اتنا بڑا احسان سمجھتے ہیں کہ ساری زندگی مذہب کی مخالفت کرتے اور کسی بھی اسلام حکم احکام کی پابندی کے بغیر ہی گزار دیتے ہیں ۔۔ان کا موقف ہوتاہے کہ جی وہ ”جاہل علماء“ کے پیروکار نہیں بن سکتے اور اسی ایک ضد کو لیکر وہ دین اسلام سے ہی دور نظر آتے ہیں ۔ ان کے نام نہیں بدلتے لیکن ان کو دیکھ کر اکثر ”یہود وہنود “ شرماتے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔ اس گروہ کی جانب سے ہی علماء کے بارے میں من گھڑے قصے سنائے جاتے ہیں۔۔۔اور بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کو رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ عوام ان سے مزید متنفر ہوں۔خاص کر جدید دنیاوی علوم کے حامل افراد پر یہ طریقہ کافی اثر انگیز ہوتا ہے کیونکہ انکا دینی علم کچھ زیادہ نہیں ہوتا اور وہ مغربی علم اور طاقت سے کافی متاثر ہوتے ہیں۔علماء سے خوب خوب متنفر کرنے کے بعد تیسرے مرحلے میں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان حالات میں عالم اسلام کو ایک لیڈر اور ایسے رہنما کی ضرورت ہے کہ جو اس حالت کو بدل دے۔۔اب چونکہ وہ علما ء سے پہلے ہی متنفر کر چکے ہیں۔۔۔اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے یا کم دینی علم رکھنے والے افراد کا دینی طبقے سے رابطہ کم ہی ہوتا ہے۔۔۔اس لیے وہ اسے ہی سچ سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک زیادہ تر لوگ اتفاق کرتے ہیں کہ واقعی عالم اسلام کو ایک اچھے لیڈر کی ضرورت ہے۔۔۔ تاکہ مغربی تسلط کو ختم کر دیا جائے۔ اب مرحلہ آتا ہے اپنی من پسند کے لیڈر مسلط کرنے کا۔۔ قادیانی اپنے مسیح موعود کو سب مسائل کا حل قرار دیتے ہیں، کوئی اشتراکیت کا حامی ہے تو کوئی مغربیت اور سرمایہ داری کی مدد سے اسلام کو بچانا چاہتا ہے ۔۔ ہر ایک کی یہی ضد ہوتی ہے کہ اس کا پیش کردہ طریقہ اور بندہ ہی نجات دہندہ ہے۔۔آپ کو ایسے کئی لیڈر اور رہنماءمارکیٹ میں مل سکتے ہیں کہ جو علماءکی تذلیل کرکے شہرت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اکثر ان کو اسلام دشمن عناصر کی مدد حاصل ہو جاتی ہے اور بعض دین بیزار لوگ بھی ان کے ساتھی بن جاتے ہیں ۔اس گروہ کا بڑا مقصد اپنے مزموم مقاصد کے لیے لوگوں کو علماء سے متنفر کرنا ہوتا ہے۔ مثلا پاکستان پر دہشت گردی بھارت کرے ، ازبک گوریلے یا بلیک واٹر والے قتل و غارت میں ملوث ہوں الزام ہمیشہ علماء پر ہی آئے گا۔۔۔ اگر پورے ملک میں کہیں کسی کی ذاتی رنجش کے نتیجے میں ہی کوئی دوسرے فرقے کا فرد قتل ہو جائے تو ملزم سارا علما کا طبقہ ہی بنے گا۔۔غرض آپ کو ایسی ہزاروں مثالیں ملیں گی کہ جب مسئلہ کوئی اور ہوتا ہے جبکہ اس کو زیر بحث علماء کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔اور خاص کر پاکستان میں اس کا پروپیگنڈا کرنا انتہائی آسان ہے۔کیونکہ یہاں کے زیادہ تر لوگ ایسے معاملات پر تحقیق وغیرہ کا شوق نہیں رکھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ علماء بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔۔ وہ بھی دوسروں کی طرح انسان ہی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض لوگ خاندانی تعلق اور بعض دوسری وجوہات کی بنا پر اپنے مزموم مقاصد کے لیے عالم دین بننے کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور مذہبی رنگ کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔۔لیکن ایسے لوگ نہ صرف بہت جلد بے نقاب ہو جاتے ہیں بلکہ دینی طبقہ انہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا ۔آپ کو انسانوں کے اس طبقے سے لاکھ اختلافات ہو سکتے ہیں۔ اور یہ ہرگز کوئی عجیب بات نہیں۔ کسی بھی معاشرے میں ایسا ہونا ممکن ہے۔
کیا عیسائی پادریوں کے سکینڈل سامنے نہیں آتے؟
کیا بنیاد پرست عیسائی اور یہودی نہیں ہوتے؟
کیا یہودی علماءفلسطین کے معصوم بچوں کے قتل و غارت کی تبلیغ نہیں کرتے ؟؟
کیا مغربی ممالک میں مختلف گروہوں کے افراد ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز زبان استعمال نہیں کرتے۔۔
کیا بھارت کی دس سے زائد ریاستوں میں سرگرم نکسل باغیوں کی تربیت علما اسلام نے کی ہے جو کہ تشدد کی ایک بدترین مثال ہیں۔۔
کیا چرچوں میں پادریوں کی جانب سے زنا اور زیادتیوں کے ہزاروں واقعات سامنے نہیں آ چکے۔
کیا پاکستان میں کرپشن کے ذریعے کھربوں روپے کمانے والوں کا تعلق علما کے طبقے سے ہے۔ جو کہ ملک کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔۔
کیا کسی نے سری لنکا میں تامل باغیوں کے خودکش بمبار نہیں دیکھے ۔
قادیانیوں کی جانب سے پاکستان میں کئی افراد کے قتل اور ایک حالیہ واقعے میں تیسرے خلیفہ مرزا ناصر کے بیٹے احمد بلا ل کو محض اسلام لانے پر تشدد کا نشانہ بنانے سے ان کے مربی دہشت گرد قرار دئیے گئے ہیں
دنیا کے کئی ممالک میں کیمونسٹوں اور عیسائیوں کی جانب سے بغاوت جاری ہے۔۔۔لیکن کیا کبھی کسی نے اس کو عیسائی مذہب کی غلطی قرار دیا ہے۔۔
کیا امریکہ میں کبھی کسی قتل کی واردات کے بعد عیسائیت اور پادریوں کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔ یا میڈیا نے عیسائی نے یہودی کو قتل کر دیا کا پروپیگنڈا کیا ہے۔کیا صدر بش کی جانب سے کروسیڈ شروع کرنے کے اعلان پر اس کے رہنما پادری ملزم ٹھہرے۔ہر گز نہیں۔ کبھی بھی نہیں میرے نادان دوستو یہ سب جانتے ہیں کہ دنیا میں تہذیبوں کی جنگ جاری ہے اور اس میں وہی جیتے گا کہ جو دوسرے کے مذہب ، معاشرے اور اس کے مذہبی طبقے کو ہرانے میں کامیاب رہے گا۔علمائے کرام سمیت کسی بھی طبقے کو غلطیوں سے پاک نہیں قرار دےا جا سکتا ہے ۔ کروڑوں افراد پر مشتمل کسی طبقے کے کچھ افراد غلط بھی ہو سکتے ہیں۔۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان میں قبائلی علاقوں کی شورش کو اسلام اور علماء سے منسلک کیا جاتا ہے ۔ایسے افراد سے سوال ہے کہ بلوچستان میں جو آئے روز قتل و غارت ہوتی ہے اس کے پیچھے کون سے عالم دین ہے۔کیا وہ بھی اسلام کی جنگ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ معاشرتی ناانصافی، غیر ملکی مداخلت، مشرف جیسے حکمرانوں کی جانب سے طاقت کا غیر ضروری استعمال ، کرپشن اور لا قانونیت کے باعث ملکی معیشت کی تباہی۔ اور سب سے بڑھ کر افغانستان میں امریکی موجودگی اور ڈرون حملے وہ بنیادی وجوہات ہیں کہ جن کے باعث ملک ایسے حالات سے دوچار ہے۔۔
۔اگر کوئی طبقہ اس کے لیے اپنی عسکری کارروائیوں کے لیے اسلام کا لفظ استمال کرتا ہے تو اسے ان کی غلط فہمی اور باغی پن قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اسلام فتنے سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔ لیکن اس کے تحت پورے طبقے کو الزام دینا ٹھیک نہیں ہے۔ پاکستان کی بڑی دینی اور سیاسی جماعتیں عسکری جدوجہد سے اسلام کے نفاذ کے نظریہ سے اختلاف کرتی ہیں۔اور متعدد بار علماءکی جانب سے اس شورش کے خاتمے کے لیے امن کی کوششیں بھی کی گئی ہیں۔فرقہ واریت کا الزام سب سے بڑھ کر لگایا جاتا ہے۔تو اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اختلاف رائے ہونا کوئی بری بات نہیں۔۔۔ آپ دلائل کی بنیاد پر کسی سے بھی اختلاف کر سکتے ہو۔۔ماسوائے اللہ تعالی اور نبی اکرم ﷺ کے احکامات کے۔۔بعض اوقات بات کے مفہوم اور لاعلمی کی بنیاد پر اختلافات سامنے آتے ہیں۔اور یہ ہرگز ہرگز بری بات نہیں ہے۔ایسا صحابہ کے دور سے چلا آ رہا ہے۔ بڑے بڑے علماءاور محدث ایک دوسرے سے علمی اختلافات کرتے چلے آئے ہیں ۔لیکن کبھی کسی نے دوسرے کو کمتر نہیں سمجھا اور نہ ہی اس کو مار دینے کی دھمکی دی۔ پاکستان میں فرقہ واریت کی بنیاد پر تشدد ایک بڑا مسئلہ ہے۔جس کیکوئی بھی حمایت نہیں کرتا۔یہ سب ایک مخصوص دور میں ہوتا رہا ہے اور ان جھگڑوں میں بعض ملک دشمن اور غیر ملکی عناصر کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں۔چند برس پہلے تک ہی تمام فرقوں کی نمائندہ جماعتوں پر مشتمل مجلس عمل بنائی گئی اور سب نے باہمی اتفاق سے ملک میں پرامن ماحول بنا دیا۔ اس میں شعیہ بھی تھے اور سنی بھی ، اہلحدیث بھی اور بریلوی مسلک کی جماعتیں بھی۔ اور ایک اہم ترین بات یہی ہے کہ اگر دنیا بھر میں علماءکا پورا طبقہ ہی فرقہ واریت کی بنیاد پر تشدد کا حامی ہے تو پھر پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں یہ سب کچھ کیوں نہیں ہوتا۔۔کیا وہاں شعیہ اور سنی کا اختلاف نہیں ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ایک عالمی سازش کے تحت پاکستان میں اس طرح کی کارروائیاں بعض ملک دشمن عناصر کراتے ہیں جس کا مقصد ملک اور اسلام کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ کراچی میں عاشورہ کے جلوس میں بم دھماکے کا الزام دوسرے پر فرقے پر عائد کریں حالانہ ابھی تک اس کے بھی کوئی ثبوت سامنے نہیں آئے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اس بم دھماکے کے بعد کراچی میں قتل و غارت اور مختلف مارکیٹوں کو جلانے کی کارروائی آپ کس کے کھاتے میں ڈالیں گے۔کیا مولانا حسن جان، مفتی شامزئی ، مولانا سرفراز نعیمی ، علامہ احسان الہی ظہیر اور دیگر علما کو بھی علماء نے خود ہی قتل کیا تھا ۔جبکہ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں اسلام کی اشاعت اور مسلمانوں کو مذہب سے قریب تر رکھنے کا فریضہ صرف انہی علمائے کرام نے سرانجام دیا ہے۔اگر آج یورپ اور امریکہ کی عیسائیت اپنے ہاں اسلام کے تیز ترین پھیلاو سے پریشان ہے تو یہ سب اسلام کے خادم ان علما کی ہی وجہ سے ہے۔آپ مسلمانوں کو تو کم علم اور دیگر طعنوں کے ساتھ یہ الزام دے سکتے ہیں کہ وہ علماء کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔ لیکن یورپ اور امریکہ اور دیگر ممالک کے بڑے بڑے سکالرز اور صاحب علم افراد کے قبول اسلام کو بھی کیا کوئی حادثہ ہی قرار دیا جائے گا۔ انہوں نے علماءکی ہی دعوت پر اسلام قبول کیا ہے نہ کہ دن رات علماءپر تنقید کرتے مغرب پرستوں کے کہنے پر۔علما کا کام دینی معاملات میں رہنمائی فراہم کرنا ہے اور یہ بات پورے دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے اپنا یہ فریضہ بخوبی نبھایا ہے۔اگر آپ کو کسی بھی معاملے پر دینی رہنمائی کی ضرورت ہے تو آپ کے لیے مواد کا انبار موجود ملے گا۔اگر تعصب کی آنکھ اتار کر دیکھا جائے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ ایک ایسے دور میں کہ جب مغرب سمیت پوری دنیا لادینیت کی لپیٹ میں ہے۔۔۔ عیسائیت کے ماننے والے اس کی تعلیمات پر کی بجائے ملحد بن رہے ہیں یا کم از کم ان کے طرز معاشرت میں مذہب کا کوئی کردار نہیں اور یہی حال ہندوازم کا ہے۔ تو اس دور میں اگر آج بھی مسلمانوں میں کسی حد تک دینی جذبہ برقرار ہے تو یہ صرف ان علما ہی کی وجہ سے ہے۔۔
لاکھوں لوگ کسی بھی غرض کے بغیر رضا کارانہ طور پر تبلیغ اسلام کے لیے کوشاں ہیں۔۔۔ اسلام پر ہونیوالے اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ اگر ڈھونڈنا چاہیں تو ان میں بہت سے خامیاں بھی مل جائیں گی لیکن ان کی ساری زندگی کی خدمات کو کیا نام دیا جائے گا

”امن کی آشا“ اور ہمارے نادان دوست

امن “ کا لفظ لغوی معنوں میں جتنا دلکش ہے اور اس کے مفہوم میں جتنے خوش کن جذبات سموئے ہیں ، انسانیت سے عاری لوگوں نے حقیقت میں اس لفظ کو اتنا ہی خوفناک بنا دیا ہے۔ دنیا میں امن کے نام پر اس قدر خون بہایا گیا ہے کہ اب اس لفظ سے دہشت کی بو آنے لگی ہے۔ شیطانی قوتوں کے پجاری اور مفادات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے افراد ہمیشہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے خونریزی کو امن کی کوشش ہی قرار دیتے ہیں۔تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جب ایک قوم نے دوسری قوم کی قتل و غارت سے امن کے قیام کی کوشش کی ، امن تو نہ مل سکا البتہ مظلوم قوم کے ان گنت انسانوں کو بے گناہ زندگی سے محروم کر دیا گیا ۔ ظالم اور طاقتور قومیں اپنے مفادات کی تکمیل ، علاقوں پر قبضے ، وسائل کو سمیٹنے سمیت ہر مزموم کارروائی کا مقصد امن کا قیام ہی قرار دیتے ہیں ۔ ماضی قریب میں تو امن کا ڈھونڈورا خوب زور سے پیٹا گیا ہے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ اس کے ہاتھوں لاکھوں فپائنی ، لاطینی امریکہ کے باشندوں اور ویت نامیوں کا قتل محض امن کے قیام کے لیے تھا ، برطانیہ کا دعوی ہے کہ افریقہ اور ایشیاءمیں کالونیاں بنا کر کروڑوں لوگوں کو غلام بنانے اور قتل و غارت کا مقصد ان علاقوں میں امن اور ترقی کا بول بالا کرنا تھا، اسرائیل آئے روز ”شرپسند “ فلسطینیوں کے قتل عام اور ان کی زمینیوں پر قبضے کو بھی مشرق وسطی میں قیام امن کے لیے ضروری قرار دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر امریکہ کی تازہ ترین صلیبی جنگ جوکہ افغانستان اور عراق و پاکستان کے لاکھوں افراد کی جان لے چکی ہے اس کا بڑا ہی سادہ سا مقصد عالمی امن کے لیے خطرہ ”’دہشت گردوں“ کا خاتمہ ہی تو ہے ۔۔ امن کا تازہ ترین نعرہ پاکستان اور بھارت کے میڈیا کی جانب سے لگایا گیا ہے۔ ”امن کی آشا“‘ کے نام سے شروع ہونیوالی اس مہم کا بظاہر مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کو قریب لایا جائے۔ عوامی سطح پر مقبولیت کے بعد حکومتوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ امن و سلامتی کی ”راکھی “ باندھ لیں ۔۔ ایسے لگتا ہے کہ کوئی بہت ہی مہربان سب کا بھلا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو۔ امن ہی تو واحد لفظ ہے کہ جسے سب سے زیادہ دھوکے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بھارت میں تو اس مہم کو کچھ زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی کیونکہ وہاں کا میڈیا کچھ زیادہ ” آزاد“ نہیں ہے البتہ اپنے دیس میں خوب زور شور سے مضامین لکھے جا رہے ہیں اور اسے ایک مخصوص گروہ کی جانب سے ٹی وی ٹاک شوز کا موضوع بھی بنا دیا گیا ہے۔۔ بھارت کے ساتھ جنگوں، کشمیر کے مسئلے ، روکے گئے پانی ، سرکریک اور سیاچن کے جھگڑوں پر بات کرنے والوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بھارت کو ایک معصوم اور بھلا مانس ہمسایہ ثابت کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اس گروہ کے لیے چند ہی روز پہلے بھارتی آرمی چیف کے پاکستان کو اڑتالیس گھنٹے میں سبق سکھانے اور ایٹمی جنگ کی دھمکیاں محض تفریح طبع سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔۔ ممبئی حملوں کے بعد بھارت کا جارحانہ رویہ ، سرجیکل سٹرائیکس کی باتیں ، مذاکرات سے فرار اور پاکستان مخالف پروپیگنڈا تو جیسے پیار بھرے پیغامات ہی ہوں کہجن کا مقصد ”امن“ ہی تو تھا۔ امن کا نعرہ یقینا دلکش ہوتا اگر ہم پاکستانیوں کو سمجھوتہ ایکسپرس میں جلے ہم وطن نہ ملے ہوتے ، ہم ضرور امن کی آشا کے پاسبان بن جاتے کہ اگر آئے روز واہگہ پر کھڑے رینجرز قیدی پاکستانیوں کی لاشیں وصول نہ کر رہے ہوتے۔۔ جہاں تک عوامی سطح کا تعلق ہے تو سال نو پر ٹای ¿مز آف انڈیا اور پاکستانی میڈیا گروپ کے مشترکہ سروے میں دعوی کیا گیا ہے کہ چھیاسٹھ فیصد بھارتی پاکستان کے ساتھ دوستی کے لیے بیتاب نظر آتے ہیں ۔ اتنی بڑی تعداد تو خود بھارتیوں کے لیے بھی حیران کن ہوگی کیونکہ انہوں نے چند ماہ پہلے ہونیوالے انتخابات میں بڑی انتہاپسند ہندو جماعتوں کے ایک سو انسٹھ ارکان کو لوک سبھا میں پہنچایا ہے جبکہ دیگر چھوٹی جماعتیں اس کے علاوہ ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی اور دیگر انتہاپسند جماعتیں حکومت نہیں بنا سکیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خود کانگرنس اور اس کے اتحادیوں پر پاکستان پر سرجیکل سٹرائیکس کے حامی اور ممبئی حملوں کا جواب دینے کے حمایتی بہت سے پرناب مکھر جی ، چدم برم اور اے کے انتھونی موجود ہیں ۔ برصغیر کو یقینا صحیح معنوں میں امن کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ امن کی کوششوں کا آغاز بھی وہی کرے کہ جس نے اس خطے کو جہنم بنایا ہے۔ ظلم اور امن کی خواہش ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے جبکہ استحصال اور مفادات کے حصول کے لیے وقتی ڈراموں کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہوا کرتی ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بھارت نے سینٹرل ایشیا ، افغانستان اور یورپ تک تجارتی روٹ کے معاہدے میں شمولیت کے لیے چند دنوں کے لیے امن امن کی رٹ لگانے کا فیصلہ کیا ہو۔۔ منہ میں رام رام اور بغل میں چھری کی کہاوت پاکستان کے بچے بچے کو ازبر ہے اور اس تکنیک سے پاکستانیوں کو ڈسنا اب اتنا بھی آسان نہیں ہے۔ ہم سب امن کی آشا کے متوالے بن جائیں گے اگر بھارتی عوام حیدر آباد دکن ، مناوا اور جوناگڑھ پر ناجائز قبضے کے خلاف آواز بلند کریں ، ہم بھی جذباتی نعرے لگانے سے باز رہیں گے اگر بھارت میں موجود مسلمانوں کو روز کسی جلاو گھیراو کے سانحے سے نہ گزرنا پڑتا ہو، ہمیں بھی ” چھیاسٹھ “ فیصد امن کے داعیوں کے سچے جذبات کا یقین ہوجائے کہ جب شودروں سے بدتر زندگی بسر کرتے مسلمانوں کے لیے کوئی آواز اٹھے ، ہم بھی امن کا گیت گانے لگیں گے کہ جب کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد شہداءاور روز بپا ہوتے شوپیاں جیسے واقعات رک جائیں ، ہمیں بھارتیوں کے محبت بھرے جذبات کا اندازہ تو تب ہو کہ جب وہ لوگ بنجر ہوتی پاکستانی پنجاب اور سندھ کی زمینیوں کے لیے اپنے حق کے پانی کو چھوڑنے کے لیے آواز بلند کریں ، جب سمجھوتہ ایکسپرس اور دیگر واقعات میں ملوث بھارتی فوج کے افسران کے خلاف کارروائی کی بات کی جائے ۔ جی ہاں ! امن کی آشا تب ہی جگمگا سکے گی کہ جب اسے میڈیا پروپیگنڈے ، وقتی مفادات اور چھپے مقاصد کی بجائے کھلے ذہنوں ، ظلم اور استحصال کے خاتمے اور سامراجی خیالات کی تبدیلی کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔ جب تک اکھنڈ بھارت کی سوچ والا برہمن راج رہے گا ۔اس وقت تک امن کے نعرے کو محض ایک دھوکہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے اور پاکستان میں موجود اس کے حامی ٹولے کو بھی اس حیقت کا ادراک کر لینا چاہیے۔

بھارت کی ثقافتی یلغار اور فریب زدہ ” امن کی آشا

ٹیکنالوجی کی ترقی نے میڈیا کو عالمی سیاست میں اہم ترین مقام پر فائز کر دیا ہے۔ بڑی طاقتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے فوجی ، سیاسی یا اقتصادی طاقت کی بجائے میڈیا کو استعمال کرتی ہیں۔ مغربی ممالک کا خیال ہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے میں سیٹلائیٹ میڈیا نے اہم ترین کردار ادا کیا ۔ اب فوجی طاقت کے زریعے کسی کو غلام دینے کا رواج نہیں رہا بلکہ میڈیا کے زور پر ذہنوں کو غلام بنایا جاتا ہے۔ مغربی طاقتوں کو اس میدان میں کافی کامیابی ملتی رہی ہے اور سوویت یونین کے بعد اسلام کے ساتھ تہذیبوں کی جنگ کے لیے میڈیا ہی اہم ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ٹی وی ، انٹرنیٹ، اخبارات اور دیگر ذرای


¿ع ابلاغ کے ذریعے ”نیوکالونینل ازم “ کا ایک نیا تصور فروغ پا رہا ہے۔ جس کی مثال گلوبل ویلج بنتی دنیا میں ڈھونڈنا مشکل نہیں۔ مغربی طاقتیں چین ، جاپان اور عرب ممالک جیسے مضبوط معاشروں پر میڈیا کی طاقت سے ہی بھرپور انداز میں اثرانداز ہوئی ہیں ۔ لیکن ہمارا موضوع مغربی میڈیا کی کاررستانیوں کا تذکرہ کرنا نہیں بلکہ ایشیاءپر تسلط کے دعویدار بھارت کی ثقافتی اور پروپیگنڈا یلغار کا تذکرہ کرنا ہے کہ جس نے ہمارے ملک کے ایک بڑے طبقے کے قلوب و اذہان کو بدل کر رکھ دیا ہے۔بھارتی میڈیا ہمیشہ سے ریاست کا وفادار رہا ہے اور اس نے ملکی ثقافت کے فروغ میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ بالی وڈ اور سینکڑوں کی تعداد میں موجود بھارتی ٹی وی چینلز جہاں ایک طرف ہندوستانی تہذیب کے رکھوالے ثابت ہوئے ہیں وہیں انہوں نے پاکستان سمیت دیگر ممالک میں مخالفانہ جذبات کو محبت میں بدلنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ پاکستانی عوام کا ایک قابل ذکر طبقہ بھارت کی ثقافتی یلغار کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کے ہر پاکستانی کے دل میں ایک چھوٹا بھارت بستا ہے کہ بیان سے بھی یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ بھارتی میڈیا کے وار کچھ خالی نہیں گئے۔ اس سے پہلے سابق صدر پاکستان پرویز مشرف اپنے دورہ بھارت میں بھارتی اداکارہ رانی مکرجی کے ساتھ خصوصی ملاقات کا شرف بھی حاصل کر چکے ہیں۔ شیخ رشید نے مادھوری ڈکشت کو پاکستان میں سفیر لگانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ بالی وڈ اداکاروں کے ساتھ پاکستانیوں کو اس قدر لگاو ہے کہ ہمارے نیکی کے کام بھی ان کی شرکت کے بغیر پورے نہیں ہوتے اور عمران خان شوکت خانم ہسپتال کی چندہ مہم کے ہر فنکشن پر کسی نہ کسی بھارتی اداکار کو بلانا فرض سمجھتے ہیں۔ملک بھر میں بھارتی فلموں کی بلاروک ٹوک نمائش، سی ڈیز کی دستیابی اور کیبل پر بھارتی چینلز کی موجودگی نے ملکی معاشرت کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب عام روز مرہ زبان میں ہندی کے الفاظ استعمال کرنا معمول کی بات ہے حتی کہ ہمارے اینکرز بھی اپنے مہمانوں کا ”سواگت “ کرتے پائے جاتے ہیں۔ روش خیال گھرانوں کی کوئی شادی بھارتی گانوں کی دھنوں اور ان کے مطابق ناچ کے بغیر پوری نہیں ہوتی اور یہ بھارتی ثقافتی یلغار کا ہی فیض ہے کہ ہماری شادیوں میں مہندی کا فنکشن زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا جا رہا ہے حالانکہ ہم خوشی کے اس موقعے کو ”نکاح“ کے لیے ہی منعقد کرتے ہیں۔ آپ شہروں اور دیہات میں دکانوں ، بازاروں اور حتی کے گھروں کی دیواروں پر بھارتی اداکاروں کے پوسٹرز لگے دیکھ سکتے ہیں۔ کمپیوٹرز کے سکرین سیورز، وال پیپرز ، موبائیل کے کلپس ، طلبہ کے فائل کورز سمیت کہیں بھی آپ کو بالی وڈ سٹارز ہی چکمتے دمکتے ملیں گے۔ پاکستان کے مختلف کالجز میں ہولی اور راکھی باندھنے جیسے ہندوانہ رسمیں منانے کی خبریں اکثر میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ پاکستانی نوجوان تقریبات میں بھارتی گانوں کی ”انتاکشری“ کھیلتے پائے جاتے ہیں جبکہ ماہر ڈانسرز کی خدمات فراہم کرنیوالی ڈانس اکیڈمیوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسا صرف اس لیے ہے کہ معاشرے میں اس چیز کو قبول کرنے کی روایت پروان چڑھ رہی ہے۔ پاکستانی فنکار تو امریکہ میں منعقد ہونیوالی ایک تقریب میں دل دل پاکستان اور جان جان ہندوستان کا خوشنما گیت بھی سنا چکے ہیں۔ بالی وڈ کی کشش ہی ہے کہ بہت سے پاکستانی فنکار وہاں کی فلموں میں گھٹیا سے گھٹیا رول بھی کرنے کو اعزاز سمجھتے ہیں اور یہاں فخر سے بتاتے پائے جاتے ہیں۔کسی بھی اچھے بازار سے آپ سٹار پلس اور دیگر انڈین چینلز پر چلنے والے ڈراموں میں ایکٹرسز کی جانب سے پہنی گئی ساڑھیاں نام لے لے کر خرید سکتے ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ماتھے پر تلک ، پاو
¿ں میں گھنگرو ، گلے اور ہاتھوں میں قسمت کے پتھروں کی موجودگی بھارتی ثقافتی یلغار کی دین ہے اور اکثر سجاوٹ کی یہ چیزیں عید جیسے اسلامی تہوار پر بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ چینلز اتنے مقبول ہیں کہ جب کبھی پاکستانی حکومت ان پر پابندی لگاتی ہے تو بیچارے کیبل آپریٹر عوام کی بھرپور خواہش پر انہیں جعلی ناموں سے چلانے پر مجبور ہوتے ہیں ورنہ ان کا کاروبار ٹھپ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ خواتین تو گھر کے معمولات کو اس طرح ترتیب دیتی ہیں کہیں کوئی ڈرامہ مس نہ ہونے پائے اور اگر اس دوران بجلی چلی جائے تو ساری بددعائیں بیچارے واپڈا کے کھاتے میں چلی جاتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں طلاق کی شرح میں گزشتہ چند سالوں کے دوران ایک سو پچیس فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے جس کی بڑی وجہ گھریلو جھگڑوں اور ساس بہو کی ایک دوسرے کے خلاف سازشوں کی کہانیوں پر مشتمل یہ ڈرامے بھی بتائے جاتے ہیں۔ہر معاشرے میں کسی فلم یا ڈرامے وغیرہ کی کہانی چرانا جرم اور ناپسندیدہ فعل سمجھا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں حالات مختلف ہیں یہاں انڈین فلموں کے پارٹ ٹو انتہائی ذوق و شوق سے بنائے اور دیکھے جاتے ہیں۔یہ بھارتی ثقافتی یلغار اور روز مرہ استعمال میں ہندووانہ جملوں کے استعمال کا ہی اثر ہے کہ انیس سو چھیانوے میں ورلڈ ریکارڈ بنانے کے بعد سعید انور نے کہا تھا کہ ”آج قسمت کی دیوی میرے اوپر مہربان تھی“۔ پاکستانی تاریخ کے کامیاب ترین سٹیج ڈرامے کا نام ”جنم جنم کی میلی چادر“ تھا اور سب جانتے ہیں کہ مختلف جنم ہونے کا نظریہ ہندووانہ عقیدہ ہے۔ بھارت میں سابق مس ورلڈ ایشوریہ رائے کے ساتھ ایک کپ چائے پینے کی بولی ایک پاکستانی نوجوان نے جیتی تھی جس نے ”اعزاز“ صرف چالیس لاکھ کے عوض حاصل کیا۔ بھارتی فلموں نے ہمیں ایک نئی تاریخ بھی سیکھائی ہے اور آج انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کا کوئی مسلمان ہیرو تو کسی کو شائد یاد نہ ہو لیکن منگل پانڈے کا بہت سوں کو پتہ ہے جبکہ بھگت سنگھ اور دیگر کے بارے میں بتا کر ہماری اصلاح کی جا رہی ہے۔کراچی یونیورسٹی کے طلبہ پر کی جانیوالی ایک تحقیق سے کے دوران طلبہ کو مختلف مذہبی مقامات کی تصاویر دیکھائی گئیں۔ حیران کن طور پر یہ طلبہ زیادہ تر ہندو دیوی دیوتاوں اور مندروں کو پہنچاننے میں کامیاب رہے جبکہ انہیں گنبد خضراء، مسجد اقصی سمیت کئی اسلامی مقامات مقدسہ کی پہچان تک نہ تھی۔ ہم اگر آج لکھتے اور بولتے ہوئے کسی نیک انسان کو دیوتا قرار دے دیتے ہیں تو غور کرنا چاہیے کہ کہیں اس کے پیچھے بھی ہمارے اوپر مسلط ہوتے ہندووانہ الفاظات اور ثقافتی اظہار تو نہیں۔ آپ پاکستان کے تقریبا ہر اخبار میں ستاروں کا حال پڑھ سکتے ہیں جبکہ دوست بنانے سے پہلے ستاروں کی پوچھ گچھ بھی انڈین فلموں اور ڈراموں میں کنڈیلیاں ملاتے ہندو پنڈتوں کے باعث ہی ممکن ہوا ہے۔ بھارت کے ثقافتی حملہ آوروں نے صرف معاشرت کے میدان میں ہی کاررنامے سرانجام نہیں دئیے بلکہ حالات حاضرہ اور دونوں ممالک کی سیاست میں بھی اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ بعض لوگوں کو شاید یقین نہ آئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے نام نہاد دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ پاک بھارت تعلقات میں مختلف خیالات کا حامی بن چکا ہے۔ چھاسٹھ فیصد افراد کا خیال ہے کہ کشمیر سمیت دونوں ممالک کے دیگر معاملات میں وہ پہلے جیسے جذباتی نہیں رہے اور اب وہ اپنی رائے کے میں بھارتی موقف کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ شاید ہندوستانی پالیسی سازوں کو بھی اس کا ادراک ہے اور اسی لیے انہوں نے پاکستان کے ساتھ معاملات کو ٹھیک کرنے کی کبھی بھی سنجیدہ کوشش ہی نہی کی۔ پاکستانی سینماوں میں انڈین فلموں کی نمائش کے ساتھ ہی فلم بینوں کی بڑی تعداد ان کا رخ کرنے لگی ہے حالانکہ انہی کی بے رخی کی بنا پر پاکستانی شوبز انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے۔ اخبارات کے سپیشل ایڈیشن اور مختلف رسائل ہندوستانی فنکاروں کی رنگ برنگی تصاویر سے سجے نظر آتے ہیں۔ فنکاروں کے اچھے برے سکینڈلز اور نئی آنیوالی فلموں کی تشہیر پاکستانی میڈیا پر اتنے بھرپور انداز میں ہوتی ہے کہ شاید ایسا خود بھارت میں بھی نہ ہوتا ہو ۔ اندھرا گاندھی نے تو کئی سال پہلے ہی کہا تھا کہ ہم نے پاکستان کے خلاف ثقافتی جنگ جیت لی ہے جبکہ ان کی بہو سونیا گاندھی نے انیس سو چھیانوے میں بیان دیا تھا کہ ” پاکستان کا بچہ بچہ ہندوستانی تہذیب کا دلدادہ ہے ، پاکستانی ٹی وی بھی ہمارے رقص بڑے فخر سے دیکھاتا ہے “۔ اور چلتے چلتے شیو سینا کے سربراہ اور گجرات و احمد آباد میں سینکڑوں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے بال ٹھاکرے کا تبصرہ بھی پڑھتے جائیں جو کہ انہوں نے دو ہزار ایک میں دئیے گئے ایک انٹرویو کے دوران کیا۔ بال ٹھاکرے کا کہنا تھا کہ ” پاکستان میں بسنت کا انتہائی جوش و خروش سے منایا جانا ہندو تہذیب کی بڑی کامیابی ہے۔ پاکستانی بسنت کے حادثات میں مرنیوالوں کو شہید قرار دیتے ہیں۔ اگر مسلمان قیام پاکستان سے پہلے ہی بھارتی ثقافت کو اپنا لیتے تو لاکھوں افراد کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔ بھارتی ثقافتی یلغار اور پروپیگنڈا مہم میں دن بدن تیزی ہی آئی ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات چاہے ٹھیک ہوں یا دشمنی کا سماں ، ہندوستانی ثقافتی حملہ آوروں نے اپنے ہتھیار کبھی نہیں روکے۔ چند دنوں سے ٹائمز آف انڈیا نے بعض پاکستانی دوستوں کو ساتھ ملا کر”امن کی آشا“ کا خوشنما تصور عام کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا نے اس مہم کے لیے جو ویڈیوز بنائی ہیں ان سے اس کے مقاصد صاف واضح ہوتے ہیں۔ صحرائی علاقے میں لمبی داڑھی والے ایک پاکستانی بوڑھے کو رقص کے ذریعے ایک ہندوستانی فلمی گانے کی بھیک مانگتے دیکھا یا گیا ہے۔ وہ اس کے لیے عجیب و غریب رقص بھی کرتا ہے۔ جیسے ہی آل انڈیا ریڈیو پر وہ گانا چلتا ہے تو پاکستانی شہریوں کا یہ گروہ خوشی سے جھوم اٹھتا ہے ۔۔یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستانی تو بھارتی فلموں اور گانوں کے لیے جیسے تڑپ رہے ہیں۔ بھارتی پالیسی ساز اس مہم کے پیغام ریکارڈ کرانے کے لیے امیتابھ بچن کو لائے ہیں جبکہ وہاں ہونیوالے ایک میوزیکل پروگرام میں عابدہ پروین کو بلا کر محفل سجائی گئی ۔ گویا سارا قصہ ہی بھارتی ثقافتی روایات کے فروغ کا ہے جو کہ ہر حال میں بھارت کے لیے منافع کا سودا ہے۔ ایک طرف تو بھارتی حکام نے انتہائی ذلت آمیز طریقے سے پاکستانی کھلاڑیوں کو انڈین پریمئیر لیگ کھلانے سے انکار کر دیا ہے۔ مختلف فرنچائزز کی جانب سے ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ کی ورلڈ چیمپئن اس ٹیم کے کسی کھلاڑی کو نیلامی کے قابل نہیں سمجھا گیا جبکہ دوسرے جانب بالی وڈ والے پاکستان میں فلموں کی نمائش سے دولت کمانے کے لیے بیتاب نظر آتے ہیں۔ ” امن کی آشا“ بھی بھارت کی ثقافتی یلغار سے محفوظ پاکستانیوں کو رام کرنے کی ایک کوشش ہی معلوم ہوتی ہے۔ میڈیا کے ذریعے ذہنوں پر تسلط ہی موجودہ دور میں غلامی کا سب سے بڑا اظہار ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم سب کو ضرور بال ٹھاکرے کی باتوں پر غور کرنے کرنا چاہیے ۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مذہب ، تہذیب اور ثقافت کی جنگ ہار کر بھی ہم اس دنیا میں منفرد اور آزاد رہیں گے ۔ ہم ایسے فریب زدہ اپنوں کے لیے ہدایت کی ہی دعا کر سکتے ہیں۔ ملک کو بچانے کی خواہش رکھنے والوں پر بھی فرض ہے کہ جہاں ہمیں ہندو ذہنیت کو راہ راست پر رکھنے کے لیے بھرپور دفاعی صلاحیت کی ضرورت ہے وہیں ثقافتی میدان میں نظریہ پاکستان اور اپنی تہذیب و ثقافت کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ کہیں ”امن کی آشا “ کے نعروں میں کوئی ہمیں اپنی روایات سے ہی محروم نہ کر جائے۔

امریکی برانڈ ”دہشت گرد“

نیویارک میں مبینہ بم دھماکے کی ناکام کوشش کرنیوالے فیصل شہزاد کی پراسرار کہانی نے عالمی میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ امریکی ذرای ¿ع ابلاغ اس دوڑ میں سب سے آگے نظر آتے ہیں اور اس کی پاکستانی شناخت کو خوب خوب پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ہیلری کلنٹن سمیت کئی اعلی ترین امریکی عہدیداروں نے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی ہیں تو دوسری جانب جنرل میکرسٹل اور امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن صدر پاکستان اور آرمی چیف سے وزیر ستان میں بڑے آپریشن کے لیے دباو ¿ بڑھاتے نظر آتے ہیں ۔جنوبی ایشیاءکے لیے امریکی نائب وزیر خارجہ رابرٹ بلیک کا تو کہنا ہے کہ فوجی آپریشن کو پنجاب تک وسعت دی جائے اور اس کی زد میں لشکر طیبہ جیسے کشمیری گروپ بھی لائے جائیں جوکہ امریکہ اور بھارت کے لیے مشترکہ خطرہ ہیں جبکہ فیڈرل اٹارنی جنرل ارک ہولڈر کا کہنا ہے کہ یہ کاررستانی تحریک طالبان پاکستان کی ہے ۔۔ پاکستان کے میڈیا ٹرائل ، سخت ترین دھمکیوں اور من گھڑت رپورٹس کے ذریعے نت نئی کہانیاں گھڑنے کا سلسلہ جاری ہے یکطرفہ بہتے ہوئے اس سیلاب میں حقائق کی بات کرنا انتہائی مشکل نظر آتا ہے ۔۔ مغربی میڈیا کی جانب سے ایک خاص ایجنڈے کے تحت مخصوص سوچ کا اظہار تو سمجھ میں آتا ہے لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا کی اکثریت بھی پروپیگنڈے کے اس طوفان کے سامنے بے بس ہو کر انہی خیالات اور افکار کی ترویج کر رہی ہے کہ جن کا سچ ہونا ابھی ثابت نہیں ہو سکا ۔
امریکہ میں گزشتہ ایک سال کے دوران دہشت گردی کی مبینہ کوششوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو بہت سے دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں ۔ فیصل شہزاد ، کولیمین ہیڈلی ، جہاد جینز اور عمر فاروق عبدالمطلب کے ناموں کے ساتھ بڑے بڑے منصوبے نتھی کیے گئے اور میڈیا پر کچھ اس طرح سے تشہیر کی گئی کہ ہر واقعہ ہی گویا دوسرا نائن الیون ہو ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ انتہائی خفیہ اور منصوبہ بندی سے بنائے گئے یہ سارے منصوبے ہی ناکام ہوئے ہیں ۔ کہیں بم چند ثانیے پہلے ناکارہ بنا دیا گیا تو کہیں ای میل رابطوں سے سارا منصوبہ ہی پکڑ لیا گیا۔ ناکام ہو جانا ہی صرف ایک مماثلت نہیں ہے بلکہ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ امریکہ کے ان نام نہاد ” جہادیوں “ میں سے ہر کوئی شوبز ، فیشن ، شراب و شباب اور ایسی ہی دیگر سرگرمیوں میں ملوث رہا اور پھر اچانک اسے اسلام کی سربلندی کے لیے زندگی قربان کرنے کا خیال آیا۔ ان سب کی زندگیاں تو واقعات کے ناکام ہونے کی وجہ سے بچ گئیں لیکن ان کی پراسرار کوششیں اسلام ، امریکہ میں موجود مسلم کمیونٹی اور پاکستان سمیت کئی دیگر اسلامی ممالک کے لیے ان گنت مشکلات میں اضافہ کر گئیں ۔
سب سے پہلے ہم فیصل شہزاد کی کہانی کا جائزہ لیتے ہیں ۔ پاکستان کے انتہائی امیر ترین گھرانے کا ایک لڑکا تعلیم کے لیے امریکہ جاتا ہے ۔ کئی سال کے قیام اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہاں کی شہریت حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے ۔ اس کی بیوی کا بیان ہے کہ فیصل نت نئے فیشنز کا دلدادہ تھا ۔ نائٹ کلبوں میں عیش و مستی کے لمحات کی تصاویر تو اخبارات کی زینت بن چکی ہیں ۔ کتنی حیرانی کی بات ہے کہ ایک ایسا شخص کہ جو اسلام کی سربلندی کے لیے جان قربان کرنے کا عزم کر چکا ہے وہ تفریح کے لیے ہالی وڈ کی فلموں کا سہارا لیتا ہے ۔ اس کے گھر میں ڈی وی ڈیز کی موجودگی کی باقاعدہ ویڈیو موجود ہے جوکہ نیو یارک واقعے کے بعد خود امریکی میڈیا نے جاری کیں ہیں ۔ مصوری کو آج تک اسلامی حلقوں میں پزیرائی نہیں مل سکی لیکن نیویارک کا یہ ” جہادی “ اپنے کاررنامے سے پہلے آخری وقت تک اس مشغلے میں مصروف رہتا ہے ۔ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ مختلف سٹورز اور دکانوں میں سی سی ٹی وی کیمرے سکیورٹی مقاصد اور چوری کے واقعات روکنے کے لیے لگائے جاتے ہیں اور انتہائی حساس مقامات کے علاوہ ان کی فیڈ زیادہ دیر کے لیے محفوظ نہیں رکھی جاتی لیکن فیصل شہزاد آٹھ مارچ کو جس سٹور سے خریداری کرتا ہے اس کی فوٹیج دو ماہ تک محفوظ رہتی ہے اور فوری طور پر جاری بھی کر دی جاتی ہے ۔ اسی طرح اس شخص کی جانب سے بھاگتے ہوئے شرٹ اتار کر مشکوک بننے اور اپنی گاڑی کی چابی گھر بھولنے کی سنگین غلطی بھی بہت سے سوالوں کو جنم دیتی ہے ۔
فیصل شہزاد کی کہانی بہت سے اور پہلوں سے بھی کافی مشکوک لگتی ہے ۔ نیویارک میں بم رکھنے کی ناکام کوشش کرنیوالے فیصل شہزاد کی فوری گرفتاری ، اعتراف جرم اور اس کیس میں پاکستان مخالف متعصب بھارتی عناصر کی مداخلت نے واقعے کو مشکوک بنا دیا ہے جبکہ دوسری جانب ا نتہائی ڈرامائی انداز میں گاڑی سے دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی ، سی سی ٹی وی فوٹیج میں شرٹ اتارتے ایک شخص کو مشکوک قرار دینے ، فوری طور پر گاڑی کے مالک کا سامنے آنا اور ایک جنوبی ایشیائی شخص کی نشاندھی جیسے واقعات بھی قابل توجہ ہیں ۔ وہ بھی ایسے وقت میں کہ جس وقت ممبئی حملوں کا فیصلہ آنے کے باعث پاکستان زیر عتاب تھا۔ امریکی قوانین کے مطابق کسی بھی مجرم کو بہت سے رعائتیں حاصل ہوتی ہیں جبکہ مکمل تفتیش اور دلائل کے بغیر مقدمے کی سماعت شروع نہیں کی جاتی۔ قانونی ماہرین فیصل شہزاد کے کیس کی تیز ترین کارروائی سے حیران ہیں کیونکہ صرف ایک ہی دن میں گرفتاری ، اعتراف اور فرد جرم عائد کرنے کے مراحل طے کر لیے گئے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس شروع ہونے میں کئی ماہ لگے تھے جبکہ پاکستانی نڑاد فہد ہاشمی کو تین سال بعد عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ فیصل شہزاد پر فرد جرم عائد کرنیوالے نیویارک کے فیڈرل اٹارنی پریت بھرارا ایک متعصب ہندو ہیں اور پاکستان مخالف رویے کی وجہ سے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ اوبامہ نے صدر بننے کے بعد انہیں دو ہزار نو میں فیڈرل اٹارنی مقرر کیا تھا۔ پریت بھرارا نے اپنے ہم خیال ایک اور متعصب بھارتی شہری انجن ساہنی کو انٹرنیشنل ٹیررازم اینڈ نارکوٹیکس یونٹ کا سربراہ مقرر کر رکھا ہے۔ یہ بات کافی دلچسپ ہے کہ اوبامہ انتظامیہ عوامی حلقوں کی شدید تنقید کے باوجود نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ کا مقدمہ نیویارک میں شفٹ کرا چکی ہے اور خیال ہے کہ اس میں بھی پریت بھرارا نے اہم کردار ادا کیا۔ پاکستانی کمیونٹی متعدد بار پریت بھرارا اور انجن ساہنی کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کر چکی ہے جبکہ پریت بھرارا کے پاکستان مخالف رویے میں اس کی یہودی بیوی کا بھی ہاتھ ہے ۔
د وسری جانب یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستانی حکام کئی بار تحریک طالبان پاکستان کے بھارتی اور مغربی خفیہ اداروں کے ساتھ تعلقات کے دعوے کر چکے ہیں۔ تحریک طالبان کے قبضے سے نیٹو کا اسلحہ برآمد ہو چکا ہے جبکہ سوات اور وزیرستان آپریشن کے دوران بعض تحریک طالبان کے لیڈرز کا پراسرار طور پر غائب ہو جانے سے متعلق ہر کوئی آگاہ ہے ۔ اتحادی افواج نے وزیر ستان آپریشن کے دوران پاک افغان سرحد سے فوجی چیک پوسٹیں ختم کر دی تھیں جس پر پاکستان نے زبردست احتجاج کیا تھا ۔ نیویارک واقعے کی تحریک طالبان کی جانب سے فوری طور پر ذمہ داری قبول کرنا ، حکیم اللہ محسود کی ویڈیو میں امریکہ پر حملوں کی دھمکی جبکہ فیصل شہزاد کی پشاور میں رہائش اور وزیرستان کا سفر بھی اس معاملے کو مزید مشکوک بنا دیتے ہیں۔
امریکہ میں دہشت گردی کے ایک اور بڑے منصوبہ ساز اور لشکر طیبہ کے ساتھ ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کے ملزم ڈیوڈ کولیمین ہیڈلی کی کہانی فیصل شہزاد سے بھی کہیں زیادہ رنگین ہے ۔ یہ شخص وائس آف امریکہ میں کام کرنیوالے ایک پاکستانی سید سلیم گیلانی کی امریکی بیوی سے پیدا ہوا۔ ماں باپ میں طلاق ہو گئی ۔ یہ حسن ابدال کیڈٹ کالج میں پڑھتا رہا لیکن آخر کار امریکہ چلا گیا ۔۔ اس کی ماں امریکی معاشرے کی حد سے بڑھی ہوئی عیاشیوں اور بے راہ روی کی عادی تھی ۔ ہیڈلی بھی اسی راہ کا مسافر ہوا ۔ ماں نے کسی بوائے فرینڈ سے رقم بٹور کر فلاڈیفیا ریاست میں خیبر پاس بار کھولی تو ہیڈلی نے بھی ساتھ بٹانا شروع کر دیا ۔ ہیڈلی اپنی جوانی میں اس قدر بگڑ گیا کہ تعلیم بھی جاری نہ رکھ سکا اور منشیات کا عادی بن گیا ۔ بار کو اجاڑ کر ماں سے الگ ہوگیا اور کسی نامعلوم ذریعے سے پیسے حاصل کر کے نیویارک میں فلمیں کرائے پر دینے کے دو سٹور بنا لیے ۔ اسی دوران منشیات کا سمگلر بنا اور انیس سو اٹھانوے میں پکڑا گیا ۔ ڈیرھ سال تک جیل کی ہوا کھانے کے بعد اب کولیمین ہیڈلی ایک نئے روپ میں سامنے آیا اور امریکی خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے لگا ۔ اس نے ایک پاکستانی خاتون سے شادی کی لیکن بیوی بچوں کے ساتھ شکاگو میں رہنے کی بجائے نیویارک میں گرل فرینڈ کے ساتھ رہنا پسند کیا ۔ اسی عرصے میں ہیڈلی کے ہندوستان اور پاکستان میں دورے شروع ہوئے ۔ بھارت کا الزام ہے کہ اس نے ممبئی حملوں کے لیے مدد فراہم کی لیکن اس کی بھارت میں سرگرمیاں تو کچھ اور ہی کہانی سناتی ہیں ۔ کولیمین ہیڈلی معروف بھارت ہدایت کار مہیش بھٹ کے بیٹے راہول بھٹ کے زریعے بالی وڈ سے متعارف ہوا اور پھر اس کے تاج محل اور اوبرائے ہوٹل میں گزارے گئے دن رات بھارت کی دو خوبرو اداکاراو ¿ں آرتی چھابریہ اور کنگنا راناوت کے نام رہے ۔ لشکرطیبہ ، الیاس کشمیری اور تحریک طالبان سے تعلقات اور ڈنمارک میں توہین آمیز خاکے بنانے والوں کے قتل کا منصوبہ بنانے کے دعویدار اس شخص کے ذاتی کردار سے متعلق یہ حقائق اس کے کردار کو مشکوک بنانے کے لیے کافی ہیں اور سب سے اہم ترین بات یہ بھی کہ جب یہ شخص ماضی میں امریکی خفیہ اداروں کے لیے کام بھی کرچکا ہو ۔۔ ڈیوڈ کولیمین ہیڈلی کی وجہ سے پاکستان ، کشمیری تنظیموں پر بڑھنے والا دباو ¿ اور امریکہ میں متعدد مسلمانوں کی گرفتاریاں بھی بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہیں ۔۔ کیا واقعی وہ ایک نظریاتی جہادی بن چکا تھا یا پھر کسی خفیہ ایجنسی کا ایک کارندہ ہے کہ جس کے زریعے کشمیر کی جدوجہد آزادی اور پاکستان کو بدنام کرنے کا کام لیا گیا ۔
امریکہ میں دہشت گردی کے ایک اور ناکام منصوبے کی اہم ترین کردار جہاد جینز کے نام سے شہرت حاصل کر چکی ہے ۔ امریکی ریاست فلاڈلفیا کے شہر پینز برگ کی رہائشی کولین لاروز کو اکتوبر دو ہزار نو میں گرفتار کیا گیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے جنوبی ایشیا کے ایک شخص کے ساتھ ملکر توہین آمیز خاکے بنانے والے کارٹونسٹ پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا جبکہ یہ خاتون اس قدر جوشیلی اور پرعزم تھی کہ اس نے انٹرنیٹ پر جہاد کے لیے بھرتی کی مہم بھی چلائی اور کئی لوگوں کو تیار کر لیا ۔ اس کہانی سے ایسے لگتا ہے کہ کولین لاروز عرف جہاد جین کسی بہت ہی دینی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے ۔۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ۔ یہ خاتون گرفتاری سے صرف ایک ماہ پہلے تک اپنے بوائے فرینڈ کریٹ گورمان کے ساتھ رہائش پذیر تھیں اور اچانک غائب ہونے سے پہلے گورمان کا پاسپورٹ بھی ساتھ لے گئیں ۔ گورمان کا کہنا ہے کہ اس نے لاروز کو کبھی بھی اسلامی لباس اوڑھے یا کسی مذہبی اجتماع میں شرکت کرتے نہیں دیکھا بلکہ وہ تو ایک حد درجہ آزاد خیال خاتون تھی ۔ جبکہ میڈیا پر جاری کی گئی تصاویر میں اس کو اسلامی لباس پہنے اور سکارف اوڑھے دیکھایا گیا ۔ گورمان سے الگ ہونے کے ایک ماہ کے دوران ہی اس نے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ پر لکھا کہ وہ اپنے ہونیوالے خاوند کے لیے جان قربان کرنا اعزاس سمجھتی ہے یعنی اب بھی وہ بغیر شادی کے ایک شخص کے ساتھ مقیم تھی ۔ جہاد جینز اس قدر دلیر تھی کہ اپنے ہر ہر منصوبے کا تذکرہ انٹرنیٹ پر ضرور کرتی ۔۔اس حوالے سے دوسروں کو ای میل کرتی جبکہ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر بھی اظہار خیال کرنا نہ بھولتی ۔ حتی کہ اس نے یہ بھی لکھ ڈالا کہ وہ اپنے حدف کے انتہائی قریب پہنچ چکی ہے اور اسے اب موت ہی مجھ سے بچا سکتی ہے۔ اور آخر کار اسے پندرہ ماہ تک جاری رہنے والی انٹرنیٹ سرگرمیوں کی نگرانی کی بنیاد پر گرفتار کر لیا گیا ۔ کتنی حیران کن بات ہے کہ اسلام کا درد رکھنی والی یہ خاتون جو کہ دو ہزار آٹھ میں یو ٹیوب پر بھیجی گئی ایک ویڈیو میں اس بات کا اظہار کر چکی تھی کہ وہ اسلام کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ہی مقیم رہی ۔ انٹرنیٹ کا غیر محفوظ ہونا کوئی راز کی بات نہیں لیکن جہاد جینز اس کے باوجود اپنے منصوبوں کا اظہار کرتی رہی ۔۔ اب یہ بات واقعی قابل توجہ ہے کہ ایک نظریاتی جنگجو بن جانے کے باوجود آخر کس طرح وہ اسلامی شریعیت کے
چند سادہ اور بنیادی اصولوں سے بھی ناواقف رہی ۔۔ مذہب کے لیے جان دینے کا جذبہ رکھنے والی کسی شخصیت کی ذاتی زندگی کے یہ پہلو کیا قابل توجہ نہیں ۔۔
امریکہ کی نیشنل انٹیلی جنس کے سربراہ ڈینس بلئیر پاکستانی سفیر حسین حقانی سے ملاقات میں یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ انہیں خفیہ آپریشنز کے لیے بہت سے پاکستانیوں کی مدد حاصل ہے جبکہ سی آئی اے کے لیون پینٹا کا کہنا ہے کہ پاکستانی نژاد امریکی قبائلی علاقوں میں کافی مو ¿ثر ثابت ہوئے ہیں ۔ ان تینوں کے ناکام منصوبوں کے اثرات کا اگر جائزہ لیا جائے تو الجھی ہوئی کڑیوں کو سلجھانے میں مدد ملتی ہے ۔ فیصل شہزاد کی وجہ سے ہی آج پاکستان کٹہرے میں ہے ۔ وزیرستان آپریشن کے لیے دباو ¿ بڑھ رہا ہے ۔ اس کے اعلی ترین فوجی خاندان سے تعلق کو غلط رنگ دے کر افواج پاکستان کو بدنام کیا جا رہا ہے ۔ کوئی القاعدہ سے تعلق کی بات کرکے امریکی مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاو ¿ن کی بات کرت ہے جبکہ دہشت گردوں سے وابستگی کے الزامات کے تحت امریکی شہرت کی منسوخی کی قرارداد تو کانگرس میں آ بھی چکی ہے ۔

کیونکر اس بارے میں غور نہیں کیا جاسکتا کہ عیاشی اور آزاد خیالی کا رہن سہن والے لوگ کس طرح اچانک نظریاتی جنگجو ¿ بن جاتے ہیں ۔ ایسا تو پاکستانی سوسائٹی میں ہونا مشکل نظر آتا ہے جبکہ کہاں امریکہ کا سخت ترین نگرانی اور نائن الیون کے بعد ڈر اور خوف کی بنیاد پر بننے والا معاشرہ ۔ فیصل شہزاد کی وجہ سے آج پاکستان کٹہرے میں ہے ۔ کولیمین ہیڈلی کی وجہ سے بھارت اور امریکہ نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے لیے سرگرم لشکرطیبہ کو عالمی خطرہ قرار دلانے کا مقصد حاصل کیا ہے ۔ جب کہ بھارت بھی ممبئی حملوں کے حوالے سے عالمی توجہ کا مرکز بن جانے پر خوش ہے ۔ مسئلہ تو پاکستان کے لیے ہوا کہ جسے الزامات کا سامنا ہے ۔ انفرادی کرداروں کی وجہ سے ملک کی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس طرح جہاد جینز کی پراسرار سرگرمیوںکے باعث امریکہ و یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کو ڈرانے کا خوب موقعہ ہاتھ آیا ہے ۔ ہمارے میڈیا کو ان خطوط پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے مقامی ایجنٹ بھرتی کر کے مقاصد کرنا انتہائی آسان ہو جاتا ہے

نیویارک واقعہ: پاکستان کو بدنام کرنے کی من گھڑت کوشش

نیویارک میں دہشت گردی کے مبینہ واقعے نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی ہے ۔ عالمی میڈیا ایک بار پھر پاکستان ، دہشت گردی ، طالبان ، القاعدہ کی بحث میں الجھا نظر آتا ہے ۔۔ امریکہ میں موجود پاکستانی کمیونٹی جو کہ پہلے ہی متعصب رویے کا شکار ہے ۔ اس واقعے کو دوسرا نائن الیون قرار دیتی ہے ۔ انتہائی ڈرامائی انداز میں گاڑی سے دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی ، سی سی ٹی وی فوٹیج میں شرٹ اتارتے ایک شخص کو مشکوک قرار دینے ، جان ایف کینڈی ائیر پورٹ سے اس کی دبئی فرار کی کوشش پر گرفتاری ، اعتراف جرم اور فرد جرم عائد کرنے کے مراحل طے کیے گئے ہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک ایسے واقعے سے شروع ہوئی کہ جس کی حقیقت کو ابھی تک مشکوک قرار دیا جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس جنگ کے دوران بہت سے ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ جب میڈیا کے زور پر دنیا کو اس جنگ سے چمٹے رہنے کے لیے نت نئے واقعات کو خوب مشہور کیا گیا ۔ یہ واقعہ بھی انتہائی مشکوک ہے ۔ یہ صرف ایک دعوی ہی نہیں بلکہ اس کو ثابت کرنے کے لیے متعدد ثبوت بھی موجود ہیں ۔ نیویارک میں بم رکھنے کی ناکام کوشش کرنیوالے فیصل شہزاد کی فوری گرفتاری ، اعتراف جرم اور اس کیس میں پاکستان مخالف متعصب بھارتی عناصر کی مداخلت نے واقعے کو مشکوک بنا دیا ہے ۔۔ امریکی قوانین کے مطابق کسی بھی مجرم کو بہت سے رعائتیں حاصل ہوتی ہیں جبکہ مکمل تفتیش اور دلائل کے بغیر مقدمے کی سماعت شروع نہیں کی جاتی۔ قانونی ماہرین فیصل شہزاد کے کیس کی تیز ترین کارروائی سے حیران ہیں کیونکہ صرف ایک ہی دن میں گرفتاری ، اعتراف اور فرد جرم عائد کرنے کے مراحل طے کر لیے گئے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس شروع ہونے میں کئی ماہ لگے تھے جبکہ پاکستانی نڑاد فہد ہاشمی کو تین سال بعد عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ فیصل شہزاد پر فرد جرم عائد کرنیوالے نیویارک کے فیڈرل اٹارنی پریت بھرارا ایک متعصب ہندو ہیں اور پاکستان مخالف رویے کی وجہ سے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ کولمبیا لاءسکول میں صدر اوبامہ کے ساتھ پڑھتے رہے ہیں جبکہ اوبامہ نے صدر بننے کے بعد انہیں دو ہزار نو میں فیڈرل اٹارنی مقرر کیا تھا۔ پریت بھرارا نے اپنے ہم خیال ایک اور متعصب بھارتی شہری انجن ساہنی کو انٹرنیشنل ٹیررازم اینڈ نارکوٹیکس یونٹ کا سربراہ مقرر کر رکھا ہے۔ یہ بات کافی دلچسپ ہے کہ اوبامہ انتظامیہ عوامی حلقوں کی شدید تنقید کے باوجود نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ کا مقدمہ نیویارک میں شفٹ کرا چکی ہے اور خیال ہے کہ اس میں بھی پریت بھرارا نے اہم کردار ادا کیا۔ پاکستانی کمیونٹی متعدد بار پریت بھرارا اور انجن ساہنی کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کر چکی ہے جبکہ پریت بھرارا کے پاکستان مخالف رویے میں اس کی یہودی بیوی کا بھی ہاتھ ہے۔ ادھر بعض حلقے فیصل شہزاد کی کارروائی کو اوبامہ مخالف انتہاپسند تنظیموں سے بھی جوڑ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض انتہا پسند کنزرویٹو قوتیں امریکہ کے اندر مسلسل خوف کی فضا قائم کرکے اوبامہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ تیز کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہیں۔ یہی حلقے صدر اوبامہ کے انتخاب کے بھی مخالف تھے کیونکہ ان کے خیال میں نائن الیون کے بعد شروع کی جانیوالی جنگ ایک مذہبی حیثیت رکھتی ہے اور سابق امریکی صدر جارج بش تو اسے کروسیڈ بھی قرار دے چکے ہیں ۔ نیویارک میں بھی ایک ناکام کوشش کی گئی جبکہ اس سے پہلے ایک اور ناکام کوشش نائیجیریا کے عمر فاروق عبدالمطلب بھی کر چکے ہیں جس کےے بعد یمن میں آپریشن تیز کر دیا گیا کیونکہ اس کے یمن میں ٹریننگ لینے کا انکشاف ہوا تھا ۔۔ ایک انتہائی اہم بات یہ بھی ہے کہ امریکی نیشنل انٹیلیجنس کے سربراہ ڈینس بلیئر نے گزشتہ دنوں پاکستانی سفیر حسین حقانی اور کمیونٹی کے اہم افراد سے ملاقات میں انکشاف کیا تھا کہ بہت سے پاکستانی نژاد شہری امریکی خفیہ اداروں کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس ملاقات میں انہوں نے واضح الفاظ میں پاکستانیوں کو امریکی خفیہ ایجنسیوں میں شمولیت کی دعوت دی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی شہری قبائلی علاقوں میں خفیہ آپریشنز میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں ۔ اور شاید اسی لیے بعض حلقے فیصل شہزاد کی سرگرمیوں کو بھی کسی خفیہ ایجنسی کا ہی کاررنامہ قرار دے رہے ہیں۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھنے والا اور خواتین کے ساتھ عیاشی کرتا ( اس کی تصاویر میڈیا میں آ چکی ہیں ) فیصل شہزاد آخر کس طرح اچانک نظریات جنگجو بن گیا۔ دوسری جانب یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستانی حکام کئی بار تحریک طالبان پاکستان کے بھارتی اور مغربی خفیہ اداروں کے ساتھ تعلقات کے دعوے کر چکے ہیں۔ تحریک طالبان کے قبضے سے نیٹو کا اسلحہ برآمد ہو چکا ہے جبکہ سوات اور وزیرستان آپریشن کے دوران بعض تحریک طالبان کے لیڈرز کا پراسرار طور پر غائب ہو جانے سے متعلق ہر کوئی آگاہ ہے ۔ اتحادی افواج نے وزیر ستان آپریشن کے دوران پاک افغان سرحد سے فوجی چیک پوسٹیں ختم کر دی تھیں جس پر پاکستان نے زبردست احتجاج کیا تھا ۔ نیویارک واقعے کی تحریک طالبان کی جانب سے فوری طور پر ذمہ داری قبول کرنا ، حکیم اللہ محسود کی ویڈیو میں امریکہ پر حملوں کی دھمکی جبکہ فیصل شہزاد کی پشاور میں رہائش اور وزیرستان کا سفر بھی اس معاملے کو مزید مشکوک بنا دیتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ نیویارک کا یہ واقعہ بھی عمر فاروق عبدالمطلب کی وجہ سے یمن میں آپریشن کی طرح فیصل شہزاد کے بہانے پاکستان کو بدنام کرنے اور قبائلی علاقوں میں فوجی آ پریشن تیز کرانے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی