مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Friday, May 28, 2010

”امن کی آشا“ اور ہمارے نادان دوست

امن “ کا لفظ لغوی معنوں میں جتنا دلکش ہے اور اس کے مفہوم میں جتنے خوش کن جذبات سموئے ہیں ، انسانیت سے عاری لوگوں نے حقیقت میں اس لفظ کو اتنا ہی خوفناک بنا دیا ہے۔ دنیا میں امن کے نام پر اس قدر خون بہایا گیا ہے کہ اب اس لفظ سے دہشت کی بو آنے لگی ہے۔ شیطانی قوتوں کے پجاری اور مفادات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے افراد ہمیشہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے خونریزی کو امن کی کوشش ہی قرار دیتے ہیں۔تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جب ایک قوم نے دوسری قوم کی قتل و غارت سے امن کے قیام کی کوشش کی ، امن تو نہ مل سکا البتہ مظلوم قوم کے ان گنت انسانوں کو بے گناہ زندگی سے محروم کر دیا گیا ۔ ظالم اور طاقتور قومیں اپنے مفادات کی تکمیل ، علاقوں پر قبضے ، وسائل کو سمیٹنے سمیت ہر مزموم کارروائی کا مقصد امن کا قیام ہی قرار دیتے ہیں ۔ ماضی قریب میں تو امن کا ڈھونڈورا خوب زور سے پیٹا گیا ہے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ اس کے ہاتھوں لاکھوں فپائنی ، لاطینی امریکہ کے باشندوں اور ویت نامیوں کا قتل محض امن کے قیام کے لیے تھا ، برطانیہ کا دعوی ہے کہ افریقہ اور ایشیاءمیں کالونیاں بنا کر کروڑوں لوگوں کو غلام بنانے اور قتل و غارت کا مقصد ان علاقوں میں امن اور ترقی کا بول بالا کرنا تھا، اسرائیل آئے روز ”شرپسند “ فلسطینیوں کے قتل عام اور ان کی زمینیوں پر قبضے کو بھی مشرق وسطی میں قیام امن کے لیے ضروری قرار دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر امریکہ کی تازہ ترین صلیبی جنگ جوکہ افغانستان اور عراق و پاکستان کے لاکھوں افراد کی جان لے چکی ہے اس کا بڑا ہی سادہ سا مقصد عالمی امن کے لیے خطرہ ”’دہشت گردوں“ کا خاتمہ ہی تو ہے ۔۔ امن کا تازہ ترین نعرہ پاکستان اور بھارت کے میڈیا کی جانب سے لگایا گیا ہے۔ ”امن کی آشا“‘ کے نام سے شروع ہونیوالی اس مہم کا بظاہر مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کو قریب لایا جائے۔ عوامی سطح پر مقبولیت کے بعد حکومتوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ امن و سلامتی کی ”راکھی “ باندھ لیں ۔۔ ایسے لگتا ہے کہ کوئی بہت ہی مہربان سب کا بھلا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو۔ امن ہی تو واحد لفظ ہے کہ جسے سب سے زیادہ دھوکے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بھارت میں تو اس مہم کو کچھ زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی کیونکہ وہاں کا میڈیا کچھ زیادہ ” آزاد“ نہیں ہے البتہ اپنے دیس میں خوب زور شور سے مضامین لکھے جا رہے ہیں اور اسے ایک مخصوص گروہ کی جانب سے ٹی وی ٹاک شوز کا موضوع بھی بنا دیا گیا ہے۔۔ بھارت کے ساتھ جنگوں، کشمیر کے مسئلے ، روکے گئے پانی ، سرکریک اور سیاچن کے جھگڑوں پر بات کرنے والوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بھارت کو ایک معصوم اور بھلا مانس ہمسایہ ثابت کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اس گروہ کے لیے چند ہی روز پہلے بھارتی آرمی چیف کے پاکستان کو اڑتالیس گھنٹے میں سبق سکھانے اور ایٹمی جنگ کی دھمکیاں محض تفریح طبع سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔۔ ممبئی حملوں کے بعد بھارت کا جارحانہ رویہ ، سرجیکل سٹرائیکس کی باتیں ، مذاکرات سے فرار اور پاکستان مخالف پروپیگنڈا تو جیسے پیار بھرے پیغامات ہی ہوں کہجن کا مقصد ”امن“ ہی تو تھا۔ امن کا نعرہ یقینا دلکش ہوتا اگر ہم پاکستانیوں کو سمجھوتہ ایکسپرس میں جلے ہم وطن نہ ملے ہوتے ، ہم ضرور امن کی آشا کے پاسبان بن جاتے کہ اگر آئے روز واہگہ پر کھڑے رینجرز قیدی پاکستانیوں کی لاشیں وصول نہ کر رہے ہوتے۔۔ جہاں تک عوامی سطح کا تعلق ہے تو سال نو پر ٹای ¿مز آف انڈیا اور پاکستانی میڈیا گروپ کے مشترکہ سروے میں دعوی کیا گیا ہے کہ چھیاسٹھ فیصد بھارتی پاکستان کے ساتھ دوستی کے لیے بیتاب نظر آتے ہیں ۔ اتنی بڑی تعداد تو خود بھارتیوں کے لیے بھی حیران کن ہوگی کیونکہ انہوں نے چند ماہ پہلے ہونیوالے انتخابات میں بڑی انتہاپسند ہندو جماعتوں کے ایک سو انسٹھ ارکان کو لوک سبھا میں پہنچایا ہے جبکہ دیگر چھوٹی جماعتیں اس کے علاوہ ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی اور دیگر انتہاپسند جماعتیں حکومت نہیں بنا سکیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خود کانگرنس اور اس کے اتحادیوں پر پاکستان پر سرجیکل سٹرائیکس کے حامی اور ممبئی حملوں کا جواب دینے کے حمایتی بہت سے پرناب مکھر جی ، چدم برم اور اے کے انتھونی موجود ہیں ۔ برصغیر کو یقینا صحیح معنوں میں امن کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ امن کی کوششوں کا آغاز بھی وہی کرے کہ جس نے اس خطے کو جہنم بنایا ہے۔ ظلم اور امن کی خواہش ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے جبکہ استحصال اور مفادات کے حصول کے لیے وقتی ڈراموں کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہوا کرتی ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بھارت نے سینٹرل ایشیا ، افغانستان اور یورپ تک تجارتی روٹ کے معاہدے میں شمولیت کے لیے چند دنوں کے لیے امن امن کی رٹ لگانے کا فیصلہ کیا ہو۔۔ منہ میں رام رام اور بغل میں چھری کی کہاوت پاکستان کے بچے بچے کو ازبر ہے اور اس تکنیک سے پاکستانیوں کو ڈسنا اب اتنا بھی آسان نہیں ہے۔ ہم سب امن کی آشا کے متوالے بن جائیں گے اگر بھارتی عوام حیدر آباد دکن ، مناوا اور جوناگڑھ پر ناجائز قبضے کے خلاف آواز بلند کریں ، ہم بھی جذباتی نعرے لگانے سے باز رہیں گے اگر بھارت میں موجود مسلمانوں کو روز کسی جلاو گھیراو کے سانحے سے نہ گزرنا پڑتا ہو، ہمیں بھی ” چھیاسٹھ “ فیصد امن کے داعیوں کے سچے جذبات کا یقین ہوجائے کہ جب شودروں سے بدتر زندگی بسر کرتے مسلمانوں کے لیے کوئی آواز اٹھے ، ہم بھی امن کا گیت گانے لگیں گے کہ جب کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد شہداءاور روز بپا ہوتے شوپیاں جیسے واقعات رک جائیں ، ہمیں بھارتیوں کے محبت بھرے جذبات کا اندازہ تو تب ہو کہ جب وہ لوگ بنجر ہوتی پاکستانی پنجاب اور سندھ کی زمینیوں کے لیے اپنے حق کے پانی کو چھوڑنے کے لیے آواز بلند کریں ، جب سمجھوتہ ایکسپرس اور دیگر واقعات میں ملوث بھارتی فوج کے افسران کے خلاف کارروائی کی بات کی جائے ۔ جی ہاں ! امن کی آشا تب ہی جگمگا سکے گی کہ جب اسے میڈیا پروپیگنڈے ، وقتی مفادات اور چھپے مقاصد کی بجائے کھلے ذہنوں ، ظلم اور استحصال کے خاتمے اور سامراجی خیالات کی تبدیلی کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔ جب تک اکھنڈ بھارت کی سوچ والا برہمن راج رہے گا ۔اس وقت تک امن کے نعرے کو محض ایک دھوکہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے اور پاکستان میں موجود اس کے حامی ٹولے کو بھی اس حیقت کا ادراک کر لینا چاہیے۔

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی