مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Thursday, July 15, 2010

ایک یادگار شادی کا احوال

آصف کی شادی واقعی دلچسپ واقعہ ہے۔۔ اس نے شادی کارڈ پکڑاتے ہی ہمیں دھمکی دی تھی کہ اگر کوئی صبح آٹھ بجے سے ایک منٹ بھی لیٹ ہوا تو اس کو بارات کے ساتھ نہیں لے جایا جائے گا۔ اور ہم بیچارے سارے ہی اس کی دھمکی میں آ گئے۔ جوجی اور حنان کا کہنا تھا کہ ہم تو جیسے زندگی میں پہلی مرتبہ اتنی جلدی اٹھے ہیں۔ خیر میں بھی آٹھ بجے پہنچ چکا تھا۔ وہاں موجود لوگوں سے آصف کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ وہ تیار ہونے گیا ہے۔۔ جب کہ اندر کی خبر یہ ہے کہ بہت سے پارلر والوں نے اسے تیار کرنے سے انکار کر دیا تھا اور پھر کافی بڑی رقم دیکر ایک بندے کو راضی کر لیا گیا۔۔ اس کی وجہ کی تلاش ابھی جاری ہے۔۔ خیر مجھے تو اس کے ایک کزن نے ایک ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔۔ دو گھنٹے موبائل پر ریڈیو سنتے اور لوگوں کو ایس ایم ایس کرکے تنگ کرتے گزرے۔۔ اس دوران آصف کو صلواتیں سنانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔۔ اچانک ایک بھونچال آ گیا۔۔ پتہ چلا کہ صاحب سلامیاں وصول کرنے کےلیے باہر گلی میں سجائے گئے ہال میں تشریف لا رہے ہیں۔۔ اور مجھے تو سب سے زیادہ حیرانی اس بات پر ہوئی جب تین چار لوگوں نے مجھے نام لیکر پکارا اور فوری طور پر آصف کے ساتھ بٹھا دیا گیا۔۔ اتنی عزت افزائی کا پتہ تو بعد میں اس وقت چلا کہ جب مجھے ایک ڈائری اور پن پکڑا کر سلامیاں لکھنے پر لگا دیا گیا۔۔ خیر ایک مصروفیت تو مل گئی نہ۔۔ کوئی پنتالیس منٹ تک آصف صاحب امیر ہوتے رہے جبکہ میں پاس بیٹھا ایک اچھے اور ایماندار اکاو ¿نٹنٹ کی طرح بڑی بڑی رقمیں لکھتا رہا۔۔ اور ہاں آصف کے قد کاٹھ میں اس سے بھی بڑے شہ بالے کے بارے میں تو میں بتانا ہی بھول گیا۔۔ بیچارے کو بار بار بتانا پڑتا تھا کہ میں دولہا ہوں ورنہ کوئی اس پر اعتبار کرنے کو تیار ہی نہ تھا۔۔ خیر سلامیاں وصول کرنے کے بعد آصف صاحب تو پتہ نہیں کہاں روانہ ہو گئے لیکن میں جوجی اور حنان کے ساتھ بارات کی روانگی کا انتظار کرنے لگا۔۔ اس دوران آصف نے گلی میں دو چار چکر لگانے کا مظاہرہ کیا۔۔ اس کے ساتھ فیملی کے کچھ لوگ تھے جبکہ ان کے پیچھے پیسے لوٹنے والے دو چار سو بچے تھے۔ جن کی وجہ سے وہاں ایک ہنگامہ مچا ہوا تھا۔ بارات لیٹ ہو رہی تھی اور گرمی کے باعث براحال ہوتا جا رہا تھا جس پر ہم نے آصف کو کافی مہذب الفاظ میں یاد کیا۔۔ تھوڑی دیر بعد آصف بھی گاڑی میں بیٹھا تو کچھ امید پیدا ہوئی۔۔ لیکن جی اس ساری باراک کا ریمورٹ کنٹرول جن کے پاس تھا ان کو کسی بھی قسم کی جلدی نہ تھی وہ ہر منٹ بعد گاڑیاں روک دیتے۔۔ بعد میں ایک اور انکشاف ہوا کہ محلے والوں نے اس بارات کو روکنے کے لیے راستہ ہی بند کر رکھا ہے اور اب کسی دوسرے راستے سے جانا ہے۔۔ اگر اس نے محلے والوں سے تعلقات ٹھیک رکھے ہوتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔۔
خواتین کا معاشرتی کردار

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی