جیسے ہی رسالہ آپ کے ہاتھوں میں پہنچے گا تو میرا خیال ہے ضرور آپ خوشی سے اچھل پڑیں گے ۔ جی کیوں نہیں۔ ہم نے آپ کے خیالات سے ہی تو اس سانجھے رسالے کو چار چاند لگائے ہیں۔ لیکن مجھے ایک اور ڈر بھی ہے کہ رسالہ پڑھ لینے کے بعد آپ تھوڑے سے غصے کا اظہار بھی کریں گے ۔ ہر کوئی سوچ رہا ہوگا کہ یہ ننھا سا رسالہ ہر بار اتنی دیر سے کیوں آتا ہے۔ تین ماہ کا عرصہ کافی ہوتا ہے۔ آپ کا غصہ بجا ہے لیکن ذرا میری بھی تو سنئیے جناب۔ کیا آپ خود اپنے طرز عمل کے بارے میں غور کرنا پسند فرمائیں گے۔ جی مجھے کہنے دیجئیے کہ رسالے کو دیر سے آنے کا طعنہ دینے والوں میں بہت سے ایسے شامل ہیں کہ جنہوں نے تحریریں بھیجنے میں کافی زیادہ وقت لگایا ہے۔ ان میں سے ہی بہت سے ایسے ہیں کہ جنہوں نے اس رسالے کے لیے کسی قسم کی تحریر ارسال کرنے سے گریز کیا ہے۔ شاید انہیں یہ سب کچھ پسند نہیں آیا یا پھر وہ ابھی تک اس کی افادیت سے آگاہ نہیں ہو پائے۔ اور ہاں ایک بڑی تعداد ان کی بھی ہے کہ جنہوں نے اس رسالے کی تیاری کے لیے مقرر کی گئی معمولی سی رقم دینے سے ہی گریز کیا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایسا کیوں ہوا۔ کیا یہ بہت زیادہ رقم تھی ۔ میرا تو خیال ہے کہ تین ماہ کے دوران صرف ایک سو روپیہ یعنی ہر گھرانہ روزانہ کا صرف ایک روپیہ دینے سے قاصر ہے؟؟۔ کچھ ایسی ہی وجوہات ہیں کہ رسالہ دیر سے آپ کے پاس پہنچ رہا ہے۔ یقین کریں کہ یہ ایک محنت طلب کام ہے اور اس کی تیاری میں گھنٹوں لگتے ہیں ۔ اس کا مقصد صرف خاندان کے بچوں میں ادبی ذوق پیدا کرنا اور کچھ اچھی روایات کو فروغ دینا ہے۔ اور صرف اسی مقصد کے لیے ہم مشکلات سے کھیل رہے ہیں۔ لیکن بعض لوگوں کے ردعمل سے واقعی مایوسی ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس مرتبہ فیصلہ ہو ہی جانا چاہیے کہ رسالے کو جاری رکھنا ہے یا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر کم از کم پچیس گھرانے بھی اس منصوبے میں حصہ دار بن جائیں تو یہ کامیابی سے چل سکتا ہے ۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر ہمیں بھی اپنے اس مہنگے شوق سے باز آ جانا چاہیے۔ کیونکہ ہم کوئی خیراتی رسالہ نہیں چلا رہے اور نہ ہی اس کا مقصد ثواب دارین حاصل کرنا ہے۔ سانجھ کا تقاضا ہے کہ سب مل کر اس کی تیاری میں حصہ لیں اور اگر ایسا نہیں ہو پاتا تو پھر ہماری اس آخری کوشش کو ضرور یاد رکھیئے گا اور ہو سکے تو دعا بھی کرد یجئیے گا۔
No comments:
Post a Comment