مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Tuesday, July 13, 2010

کیری لوگر بل سے پھوٹنے والے زہریلے چشمے

امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز سے ہی پاکستان کو قریبی اتحادی قرار دیتا رہا ہے۔ ایک دھمکی سے شروع ہونیوالے دونوں ممالک کے اس اتحاد میں ہمیشہ سے ہی شکوک و شبہات کی آمیزش پائی جاتی رہی ہے۔ امریکی پاک فوج کو طالبان کے خلاف لڑانا چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد پہنچنے والا ہر امریکی عہدیدار پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کرتا ہی پایا جاتا ہے۔ نائن الیون کے ڈرامے سے شروع ہونیوالی یہ جنگ اب تک لاکھوں افراد کا خون کر چکی ہے لیکن ”خون کے سوداگر“ کو ابھی اطمنان نہیں ملا اور وہ اس جنگ میں مزید تیزی چاہتا ہے۔ افغانستان اور عراق ظاہری طورپر امریکی حملے کا نشانہ بنے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس بے نام جنگ نے پاکستان کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ ملک میں ڈرون حملوں اور خودکش دھماکوں کا سلسلہ جاری ہے۔ کیری لوگر بل پر پاک فوج کی مخالفت کے بعد سکیورٹی فورسز پر کیے جانیوالے خودکش حملوںمیں اضافہ ہوا ہے حتی کہ جی ایچ کیو کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ لاہور میں تین مختلف جگہوں جبکہ پشاور میں بھی خودکش دھماکوں کا زیادہ تر نشانہ سکیورٹی اہلکار ہی بنے ہیں ۔

بعض حلقے اس صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہیں کیونکہ کافی عرصے سے ملک میں اس قسم کی کارروای


¿یوں کا سلسلہ رکا ہوا تھا جبکہ کیری لوگر بل کی مخالفت اور جنوبی وزیر ستان میں شرپسندوں کے خلاف آپریشن کا اعلان ہوتے ہی ملک ایک بار دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ حالیہ دنوں میں کئے جانیوالے امریکی اقدامات سے اس کی منصوبہ بندی کے خدوخال سامنے آ رہے ہیں ۔ امریکہ پاکستان کو اپنی جنگ میں زیادہ سے زیادہ دھکیلنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ کوئٹہ میں طالبان شوری کی موجودگی کا شوشہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جبکہ بلیک واٹر کی آمد کو بھی آپ امریکی منصوبہ بندی کا اہم ترین مہرہ قرار دے سکتے ہیں ۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق افغانستان میں تعینات امریکی فوج نے جنوبی وزیر ستان کے ساتھ افغان سرحد پر موجود فوجی چوکیاں ختم کر دی ہیں ۔ امریکی چوکیاں ختم کرنے کی اطلاعات کے ساتھ یہ خبریں بھی میڈیا پر آئی ہیں کہ افغان گروپوں نے جنوبی وزیر ستا ن میں پاک فوج کے خلاف لڑنے کے لیے دستے روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ افغانستان میں موجود پاکستان مخالف عناصر کو جنوبی وزیرستان پہنچنے کی شہ دے رہا ہے تاکہ پاک فوج کو یہاں پریشان کیا جا سکے ۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس بارے میں گزشتہ روز جنرل ڈیوڈ پیٹریاس سے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔ باخبر لوگ جانتے ہیں بھارتی خفیہ ادارے امریکی فوج کی مدد سے پاکستانی سرحد کے قریب ایسے مراکز بنا چکے ہیں کہ جن کو پاکستان کے اندر دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر اس پوری صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان کا اتحادی امریکہ اب ہمیں ایک بڑی مشکل میں پھنسانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ امریکہ وزیرستان آپریشن کی کامیابی نہیں چاہتا ؟ کیونکہ اگر پاک فوج عسکریت پسندوں کو مارنے یا افغانستان میںدھکیلنے میں کامیاب رہتی ہے تو اس صورت میں یہ علاقہ امریکہ مخالف گروہوں کا گڑھ بن جائے گا۔ اور ہو سکتا ہے کہ ملک دشمن شرپسندوں کے خاتمے کے بعد افغان جنگ میں پاکستان کی دلچسپی کم ہو جائے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکی درپردہ اس آپریشن میں پاک فوج کو الجھانے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔صورتحال یہ ہے کہ پاک فوج کو جنوبی وزیر ستان میں چھپے شرپسند عناصر کے ساتھ ساتھ افغانستان سے آنیوالے عسکریت پسندوں کے خلاف بھی لڑنا پڑ رہاہے جس سے یہ لڑائی مزید طویل ہونے کا خدشہ ہے۔ دوسری جانب مغربی میڈیا کی جانب سے ایک اور پروپیگنڈا عام کیا جا رہا ہے کہ پاک فوج جنوبی وزیر ستان میں امریکہ مخالف گروپوں سے معاہدہ کر چکی ہے ۔ اس مہم کا مقصد بھی پاک فوج کو جنوبی وزیرستان آپریشن کے دوران انڈر پریشر رکھنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اب افغانستان میں اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے پاکستان کے لیے مشکلات بڑھانا چاہتا ہے۔ آنیوالے دنوں میں امریکی اہلکاروں کی جانب سے ایسے عناصر کے خلاف کارروای


¿ی کے لیے بھی دباو
¿ بڑھے گا کہ جو پاکستان کے حامی سمجھے جاتے ہیں اور جن میں ملا نذیر اور حافظ گل بہادر کے گروپ شامل ہیں۔

ملک کے اندر صورتحال یہ ہے کہ حکومت میں شامل افراد کیری لوگر بل کے جس قدر حمایتی ہیں اسی شدت سے دیگر جماعتوں میں اس کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے۔ خود کیری صاحب اپنے ”کارنامے “ کی وکالت کے لیے آئے تھے اور انتہائی پراسرار طریقے سے واپس جا چکے ہیں ۔ جاتے جاتے فرما گئے ہیں کہ اس بل میں کسی قسم کی تبدیلی ناممکن ہے اور پاکستان کو ساتھ نتھی وظاحتی دستاویز نما لالی پاپ سے ہی گزارا کرنا ہوگا۔ امریکی ایجنڈے کی تشہیر کے لیے بنائی گئے سی ایف آر جیسے ادارے دونوں ممالک کے درمیان کم ہوتے اعتماد کا ڈھنڈورا پیٹ چکے ہیں ۔

اس ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا دوست امریکہ اس بار اپنے حلیف کو ایک بڑا شاک دینے کی تیاری کر رہا ہے ۔ اس بات کا اندازہ وائٹ ہاو
¿س کے اندر دن رات افغان پالیسی بنانے کے لیے جاری اجلاسوں کی سامنے آنیوالے تفصیلات سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ شاید ان حالات میں وزیر ستان آپریشن شروع کرنا ایک خوشگوار اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تاہم اگر اسے شروع کر ہی دیا گیا ہے تو اب بھرپور کارروائی کرکے اسے دنوں میں سمیٹنا چاہیے کیونکہ سردیاں شروع ہوتے ہی نہ صرف فورسز کے لیے مشکلات بڑھیں گی بلکہ بے گھر افراد کی بے چینی میں بھی اضافہ ہوگا۔ حکومت کو شاید احساس ہو یا نہ ہو تاہم عوام کو ان حالات سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ کیری لوگر بل سے پھوٹنے والے زہریلے چشمے ہماری ملک کی بہت کی خوشیاں جلانا چاہتے ہیں

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی