انیس سو ننانونے سے مالی سال دو ہزار سات آٹھ تک بنکوں نے مجموعی طور پر تین کھرب چون ارب سے زائد منافع کمایا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بنکوں کی شرح سود سب سے زیادہ ہے۔ سٹیٹ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں اکتالیس شیڈولڈ بنک، چھ ڈویلپمنٹ فنانس انسٹیٹوشن اور دو مائیکرو فنانس بنک ہیں۔ پاکستان میں بینکنگ شعبے میں بڑھتے ہوئے منافع کے پیش نظر غیر ملکی اور پرائیوٹ سیکٹر کے بنک بھی قائم ہو رہےہیں پرائیوٹ بنکوں کی تعداد پندرہ ہے جبکہ چودہ غیر ملکی بنک کام کر رہے ہیں۔ بینکنگ سیکٹر کی تیز رفتار ترقی کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ سن دو ہزار میں سات ارب سالانہ نفع کمانے والا یہ سیکٹر مالی سال دو ہزار سات آٹھ میں ایک سو تیئس ارب سے زائد منافع کما چکا۔ گزشتہ سات سال کےدوران پاکستانی بنکوں نے تین کھرب چون ارب سے زائد منافع بتیس لاکھ، گیارہ ہزار اور ایک سو سترہ صارفین کو قرض کی سہولت فراہم کر کے حاصل کیا۔ اس وقت بنکوں نے چالیس فیصد رقم انفرادی قرضوں کی مد میں، تیس فیصد اٹو فنانسنگ ، سولہ فیصد جائیداد کے لیے اور تیرہ فیصد رقم کریڈٹ کارڈز کی صورت میں صارفین کو فراہم کر رکھی ہے۔ پچھلےسال بنکوں نے قرضوں کے عوض شرح سود کی مد میں ایک سو انسٹھ ارب، مارک اپ کی صورت میں دو سو نو ارب جبکہ سرمایہ کاری کےعوض انسٹھ ارب روپے کمائے۔ کنزیومر رائٹس کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی بنک سالانہ چھہتر فیصد سے زائد منافع کما تے ہیں اور اس شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ادھر بینکوں کی جانب سے ا?ٹو فنانسنگ اور کنزیومر فنانسنگ کے باعث ملک میں افراط زر کی شرح بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دوسری جانب بنک سالانہ چھیاسی ارب روپے سےزائد رقم اپنے ایڈمنسٹریٹو اخراجات پر خرچ کرتے ہیں جس کا زیادہ تر حصہ اعلٰی افسران کی مراعات پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔ گزشتہ سات برسوں کے دوران کئی بینکار اربوں کی جائیداد کے مالک بن چکے ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ ملک کے پانچ بڑے بنک پورے سیکٹر کے اسی فیصد کاروبار پر قابض ہیں اور اپنے ڈپازٹس سے ستر فیصد کے قریب منافع کماتےہیں جبکہ صارفین کو صرف دس فیصد ادائیگی کی جاتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لیے بنکوں نے کارٹل بنا رکھے ہیں اورتیرہ سے زائد اقسام کے چارجز صارفین سے چھپائے جاتےہیں۔ دوسری جانب اس قدر بھاری نفع کے باوجود بنکوں کی سہولیات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جا رہا اور اسی فیصد بنک صارفین اے ٹی ایم مشینوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ سٹیٹ بنک کو چاہیے کہ اس صورتحال کا جائزہ لے اور بنکوں کے نفع کو محدود کرنے کے علاوہ انہیں بہتر سہولیات فراہم کرنے کا پابند بنائے۔
No comments:
Post a Comment