چوہدری ایک ایسا کردار ہے کہ جو ہر معاشرے میں کسی نہ کسی طرح ضرور پایا جاتا ہے۔ دنیا میں تہذیب و تمدن کے بڑے بڑے دعووں کے باوجود کوئی بھی علاقہ ایسا نہیں کہ جہاں سے اس کردار کو ختم کیا جا سکا ہو۔ چوہدری ایک گاوں کا ہو، کسی محلے کا ، قصبے یا شہر کا، ملک پر حکمرانی کرنیوالا یا پھر دنیا کو اپنے سامنے سربسجود رکھنے کا کوئی خواہش مند۔۔یہ موجود ضرور ہوتا ہے۔ جمہوریت اور دوسرے طرز حکمرانی نے ان کے نام بدلے ہیں تاہم حقیقت یہی ہے کہ چوہدری ہر جگہ پوری آب و تاب سے پائے جاتے ہیں۔ان الفاظ کو لکھنے کا مقصد چوہدریوں سے متعلق معلومات دینا نہیں بلکہ ایک ایسی صورتحال کا ذکر کرنا ہے کہ جب بدلتا ہوا وقت کسی چوہدری کو مشکلات سے دوچار کر دیتا ہے۔ اس کے آگے جھکے رہنا ایک اعزاز سمجھنے والے لوگ کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ہر طرف سے بدگمانیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ لوگ کسی نئے چوہدری کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جب چوہدری صاحبان اپنے ساتھ ایک ایسے کردار کو نتھی کرتے ہیں کہ جس کا مقصد ان کی ساکھ بہتر بنانا ہو۔ چوپدریوں کی ایک خاص صفت اکڑ مزاج اور متکبر ہونا ہے۔ لیکن ان کا یہ نیا ساتھی انتہائی صلح جو طعبیت کا مالک ہوتا ہے اور ہر وقت ترلے منتوں کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ آپ اس قسم کے کرداروں کو پاکستان میں الیکشن کے دنوں میں عام دیکھ سکتے ہیں۔ یہ صاحب چوہدری کے ساتھ چپقلش رکھنے والے ہر ایک کے پاس جاتا ہے اور منت سماجت سے اسے رام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ اس کے ساتھ سختی سے پیش آئیں تو بھی یہ انتہائی نرمی کا مظاہرہ کرے گا اور منہ سے ہمیشہ پھول ہی برسائے گا۔ یہ باتوں باتوں میں چوہدری کو بھی برا بھلا کہے گا اور تکیہ کلام یہ رکھے گا کہ جناب میں تو صرف صلح کرانا چاہتا ہوں۔یہ ہر جگہ چوہدری کی جگہ معافی مانگے گا اور یہ بھی آفر کرے گا کہ آپ چوہدری کی جگہ اس کو مار پیٹ بھی سکتے ہیں۔ لیکن ان ساری کوششوں کا مقصد صرف اور صرف چوہدری کی گدی کو سلامت رکھنا اور اس کے خلاف اٹھنے والی قوتوں کو خوش فہمیوں میں مصروف رکھنا ہوتا ہے۔اور سب سے دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ چوہدری صاحب اس دوران اپنی من پسند کارروای
¿یاں پوری شدت سے جاری بھی رکھتے ہیں۔۔
امریکی صدر باراک اوبامہ کی قاہرہ میں احادیث ، قرآنی آیات اور اسلامی تاریخ کے حوالوں سے مزین تقریر سن کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ صاحب بھی دنیا کے چوہدری امریکہ کی جانب سے پیش کیے گئے ایک ایسے ہی کردار ہیں ۔ میرا اس بات پر مکمل یقین ہے کہ باراک اوبامہ اپنی چار سالہ مدت میں ہر ایک دو ماہ بعد ایسا ہی کوئی نہ کوئی خوشگوار سرپرائز دیتے رہیں گے۔ انتخابی مہم کے دوران بش کی جارحانہ پالیسیوں کی مخالفت اور عراق سے فوجیں واپس بلانے کا اعلان کرکے مسلمانوں کی دعائیں لیتے رہے۔ الیکشن سے ایک دو روز قبل مسئلہ کشمیر حل کرانے کا اعلان کیا۔ حلف باراک حسین اوبامہ کے طور پر اٹھایا۔۔کرسی سنبھالتے ہی گوانتاناموبے جیل کی بندش کی خوشخبری سنائی( ایک سال بعد)۔ تجزئیہ نگار وں نے اوبامہ کی اس نیکی کو خوب اچھالا۔ یعنی کہ ایک تیر سے دو شکار ۔گوانتاناموبے جیل میں قید افراد کو مفلوج کرکے چھوڑا جائے گا اور اوپر سے مسلم دنیا پر احسان بھی جتایا جائے گا۔ اوبامہ ترکی گئے اور اسلام کے ساتھ دوستی کا اعلان کیا۔ اور اب حالیہ دورے میں مسلمانوں کے مقدس ترین مقام سعودی عرب اور تاریخی درسگاہ جامع الازہر میں ”تاریخی خطاب“ کر ڈالا۔ باراک اوبامہ نے صدارتکا عہدہ سنبھالتے ہی اتنے پرمغز اور صلح جوئی پر مشتمل خطاب کیے ہیں کہ اب تو ان کے منہ سے نکلے پھولوں کو سنبھالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ خوبصورت باتوں کے پیچھے عمل کا جائزہ لیں تو ایک نئی تصویر نظر آتی ہے۔ اوبامہ نے کسی ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دینے کی آیت سنائی ہے ۔لیکن یہ نہیں بتایا کہ عراق اور افغانستان میں بسنے والی لاکھوں لوگ بھی انسان تھے کہ نہیں یا پھر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں سے مرنے والے بھی انسان ہوتے ہیں کہ نہیں ۔اب تو اقوام متحدہ نے بھی معصوم شہری ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کر دیا حالانکہ یہ بیچاری پانی سر سے اونچا ہونے پر ہی بولاکرتی ہے۔ اوبامہ نے مسلمانوں کو خواتین کے حقوق کا درس دیا ہے شاید وہ خود اپنے ملک میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کسی اور مخلوق کی فرد سمجھتے ہیں کہ جن کی برہنہ تلاشی لینا اور اسے ٹی وی پر دیکھانا انسانی حقوق کے عین مطابق ہے۔ کشمیر میں روز کٹنے والی گاجر مولیوں کو تو اوبامہ صاحب بلکل بھول ہی گئے۔ فلسطینوں کو پرامن ہونے کی نصیحت کی ہے اور اسرائیل کی کارروائیوں کو ہولوکاسٹ کا غم بھلانے کی کوشش قرار دیا ہے۔کیا انصاف ہے کہ کسی ملک پر قبضہ کریں اور جب مزاحمت کی جائے تو زمین کو دو حصوں میں تقسیم کر کے پرامن ہونے کی بات کی جائے ۔ جی ہاں اسے ہی کہتے ہیں چوہدراہٹ۔۔
No comments:
Post a Comment