مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Tuesday, July 13, 2010

کیا مصر میں انسان نہیں بستے ؟

ارض فلسطین کے باسیوں کی آزمائش دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہی جاری ہے ۔ برطانیہ اور دیگر مغربی طاقتوں کے بل بوتے پر بننے والی نام نہاد ریاست اسرائیل نے گزشتہ ساٹھ سال سے اس دھرتی کے باسیوںکا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ ان نہتے لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے ، ہنستے بستے گھر اجاڑ دئیے جاتے ہیں ، زرعی زمینیں چھین لی گئی ہیں ۔ شاید ہی تاریخ انسانی کا کوئی ایسا ظلم نہ ہو جو ان مسلمانوں پر نہ ڈھایا گیا ہو اور شاید اسی لیے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دیا جاتا ہے۔ اسرائیلی ٹینک آئے روز بمباری کرکے یہاں کے باسیوں کو خون میں نہا دیتے ہیں ۔ امریکی آشیرباد سے اسرائیل یہاں خون کی ہولی کھیل رہا ہے ۔ عربوں کے ساتھ اس کی جنگیں بھی ہوئیں تاہم اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ نے اقوام متحدہ کی آڑ میں ، معاشی تعاون کے لالچ میں اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر عربوں کو اس مسئلے سے لا تعلق کر کے رکھ دیا ہے۔ اب فلسطین کے لیے دنیا میں شائد ہی کوئی آواز بلند ہوتی ہو۔ گزشتہ سال غزہ پر بدترین حملوں میں اسرائیل نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ، اقوام متحدہ کی عمارتوں پر بمباری کی ، بچوں کے سکول تباہ کر دئیے جبکہ سینکڑوں گھروں کو مٹی کے ڈھیر بنا دیا۔۔اس سب کے باوجود عالمی سطح پر کوئی بھی مضبوط آواز بلند نہ ہوئی ۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی ظلم و ستم بند کرانے کی بات ہوئی تو امریکہ نے قرارداد کو ویٹو کر دیا ۔ دو ہزار سے زائد فلسطینی زندگی کی بازی ہار گئے ۔ جنگی جرائم کی تحقیقات ہوئیں اور اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ میں اسرائیل کو ملزم قرار دیا گیا تاہم اس پر کارروائی نہیں ہو سکی ۔۔۔کیونکہ امریکہ نے اس کی مخالفت کی ہے ۔ امریکی صدر باراک اوبامہ نے مصر میں عالم اسلام سے خطاب اور متعدد موقعوں پر مسی


¿لہ فلسطین حل کرانے کے عزم کا اظہار کیا لیکن ساٹھ سال سے جاری حیلے بہانوں کی طرح یہ وعدہ بھی جھوٹا ہی نکلا اور فلسطینی آج بھی ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں ۔ نہتے فلسطینی عوام پر امریکہ اور مغربی ممالک کہ شہہ پر اسرائیلی مظالم کی داستان انتہائی طویل ہے ۔لیکن فلسطینی عوام کے لیے ہمسایہ مسلم ممالک اور بعض اندرونی غداروں کا طرز عمل اسرائیلی بربریت سے بھی کہیں زیادہ اذیت ناک ثابت ہوا ہے۔ محمود عباس کی نام نہاد حکومت ہو یا امریکہ و اسرائیل سے فلسطینی اتھارٹی کے قیام کی بھیک مانگتے مانگتے عبرتناک موت کا شکار ہو جانیوالا یاسر عرفات ۔۔فلسطینی تاریخ اپنوں کے دئیے گئے زخموں سے بھری نظر آتی ہے ۔ غداروں اور موقعہ پرستوں کی کہانی انتہائی افسوسناک ہے ۔ فلسطینی عوام کے لیے دکھوں اور مصیبتوں کا تازہ ترین تحفہ عالم اسلام کے ایک ” معزز ترین “ رکن مصر کی جانب سے دیا گیا ہے ۔ اسرائیلی رکاوٹوں اور سخت چیکنگ کے باعث غزہ میں کسی بھی قسم کی غذائی اشیاءکا داخلہ نا ممکن ہے ۔ فلسطینی لوگ اپنی اشیائے ضروریہ کے لیے مصر کی سرحد پر زیر زمین بنائی گئی سرنگوں پر انحصار کیا کرتے تھے ۔ ان سرنگوں کے ذریعے ماچس کی ڈبیوں سے لیکر دودھ کے پیکٹوں اور ادویات وغیرہ کو غزہ پہنچایا جاتا تھا۔ اسرائیل اکثر ان سرنگوں کو بمباری کرکے تباہ کرتا رہا ہے ۔ اب مصر نے امریکی دباو پر سرحد کے ساتھ ساتھ ایک ایسی آہنی دیوار تعمیر کرنا شروع کر دی ہے کہ جو زیر زمین ایسی سرنگوں کے قیام کو ناممکن بنا دے گی۔ اس طرح اسرائیل کی ناکہ بندی سے پریشان فلسطینی مزید مشکلات سے دوچار ہوں گے ۔ اس دیوار کی تعمیر کے بعد وہ اشیائے ضروریہ کے لیے اسرائیلی بھیک کے محتاج ہوں گے اور اس طرح ان سے ہر قسم کے مطالبات منوائے جا سکیں گے ۔ مسجد اقصی کا انہدام ہو یا اسرائیلی شہریوں کے لیے نئی بستیاں بسانے کے لیے جگہ کے حصول کا معاملہ ، حماس نے ہمیشہ ہی کچھ حد تک مزاحمت کی ہے ۔ اگر مصر کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی مکمل ہوتی ہے تو یہ مزاحمت خود بخود دم توڑ جائے گی اور اس طرح اسرائیل مصر کے سہارے اپنے وہ تمام مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا کہ جس کا اس نے بھی تک صرف خواب ہی دیکھا ہے ۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب عراق تباہ ہو چکا ہے ، پاکستان اندرونی بیرونی دہشت گردی اور امریکی ڈرون حملوں کا شکار ہے ، ایران کے خلاف عالمی پابندیوں کی راہ ہموار کی جا رہی ہے ، عالم عرب ہمیشہ کی طرح خواب غفلت کا شکار ہے ، یورپ اور روس کو مسئلہ فلسطین سے کوئی خاص لگاو نہیں رہا ۔۔۔ اسرائیل کے لیے راہ ہموار ہو چکی ہے ۔۔اور دنیا بھر میں بسنے والے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو کسی بھی لمحے قبلہ اول سے محرومی کی خبر کا منتظر رہنا چاہیے ۔۔اسی دوران اگر ہزاروں فلسطینیوں کا خون ہو گیا یا پھر بھوک اور ادویات کی کمی سے بڑی تعداد میں فلسطینی مسلمان ” کیٹرے مکوڑے “ روندھ دئیے گئے تو زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ ایسی کارروائی کی صورت میں پاکستانی دفتر خارجہ احتجاجی بیان جاری کرے ، چین کو افسوس ہو جائے ، عرب وزرائے خارجہ کسی پرفضاءمقام پر ہنگامی اجلاس منعقد کریں ، امریکہ اور یورپ گزرے وقت کو بھول کر پھر سے قیام امن کے لیے سرگرم ہو جائیں ، ایران میں کچھ بڑی ریلیاں نکلیں ، بہت سے ملکوں میں مرنیوالوں کی یاد میں موم بتیاں روشن کی جائیں ، اقوام متحدہ میں ایک قرارداد منظور ہو کہ جس پر عمل نہ کرایا جا سکے ، ۔۔۔یہ سب کچھ ضرور ہوگا۔۔ لیکن اس کے لئے فلسطینی عوام کی قربانی ضروری ہے ۔ مسلمان ضرور مرثیے پڑھیں گے اور عالمی امن کے ٹھیکیدار ضرور سرگرم ہوں گے لیکن صرف اس وقت جب اسرائیلی افواج اپنا کام مکمل کرکے بڑے ہی آرام سے واپسی کا ارادہ کریں گی ۔۔۔اور ہو سکتا ہے کہ انہیں کہیں واپس ہی نہ جانا پڑے کیونکہ اگر اس علاقے میں فلسطینی ہی نہ رہے تو فلسطین کیسا؟؟ یہ بھی پھر اسرائیل ہی ہوگا ایک گریٹر اسرائیل ۔۔ سارے حقائق چیخ چیخ کر ہمیں بیداری کا درس دے رہے ہیں ۔ مصر والے یہ سارے ظلم اپنے ہاتھوں کرا رہے ہیں ۔ اس صورتحال میں ہمارا سوال بہت سادہ سا ہے کہ ” کیا مسلم اکثریت کے حامل مصر میں انسان بھی نہیں بستے ؟

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی