مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Tuesday, July 13, 2010

جی ٹونٹی کانفرنس

لندن میں ہونیوالی جی ٹونٹی کانفرنس میں دنیا کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے سینکڑوں ارب ڈالر فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ دنیا کی بیس بڑی معیشتیں عالمی معاشی نظام کو سہار ا دینے اور ایک دوسرے کی مشکلات کا ازالہ کرنے کے لیے فوری طور پر گیارہ ہزار ارب ڈالر دینے پر رضا مند ہو گئی ہیں۔ اجلاس کا سب سے زیادہ فائدہ آئی ایم ایف کو پہنچا ہے جسے فوری طور پر پانچ سو ارب ڈالر ملیں گے جبکہ دو سو پچاس ارب ڈالر کی اضافی رقم بھی اوو ڈرافٹ کی صورت میں ملے گی۔ عالمی معاشی بحران سے دنیا بھر میں تجارتی سرگرمیوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا تھا اور اسی لیے اڑھائی سو ارب ڈالر کی رقم تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے استعمال کی جائے گی۔ معاشی ماہرین جی ٹونٹی کانفرنس میں ہونیوالے فیصلوں کو کافی امید افزاءقرار دے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ان سے بحران کی شدت میں کمی آنے کی امید ہے۔ جی ٹونٹی کانفرنس میں ہونیوالے فیصلوں کے فوری نتائج نیویارک سٹاک مارکیٹ اور خام تیل کی منڈیوں میں دیکھے گی


¿ے ۔۔جہاں زبردست تیزی کا رجحان رہا اور سرمایہ کاروں نے جی بھر کر حصص کا کاروبار کیا۔جی ٹونٹی کانفرنس سے پہلے مختلف ممالک نے اپنے اپنے تحفظات کا اعلان کیا تھا تاہم جرمنی اور فرانس جیسے بڑے مخالفین نے بھی مشترکہ اعلامیے سے اتفاق کیا ہے۔ کانفرنس سے قبل چین کا موقف تھا کہ عالمی معاشی بحران پر امریکی بالادستی ختم کر کے ڈالر کے متبادل ایک نئی عالمی کرنسی کا اجراءکیا جائے۔ جی ٹونٹی کانفرنس میں نئی کرنسی کے اجراءکا اعلان تو نہیں کیا جا سکا تاہم آئی ایم ایف کے لیے ساڑھے سات سو سے زائد کے فنڈز سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ چین کے بعض مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں ۔جی ٹونٹی کانفرنس میں عالمی سطح پر بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اگلے سال کے آخر تک پانچ ہزار ارب ڈالر خرچ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ دنیا کے امیر ترین ممالک خود کو مالیاتی بحران سے بچانے کے لیے تو سینکروں ارب ڈالر خرچ کریں گے تاہم دوسری جانب غریب ممالک کو اس بدترین بحران سے نکالنے کے لیے کسی بڑے پیکج کا اعلان نہیں کیا گیا۔ جس سے دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جی ٹونٹی کے فیصلوں کو امید افزا ءقرار دیا جا رہا ہے تاہم معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ ہمیں کچھ زیادہ خوش فہمی میں بھی مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ امریکی صدر باراک اوبامہ نے موجود معاشی بحران کو دوسری جنگ عظیم کے بعد شدید ترین قرار دیا ہے ۔ معاشی بحران کے خاتمے کے لیے گیارہ سو ارب ڈالر کے فنڈز کسی قسم کی بڑی تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے کیونکہ صرف امریکہ کا اس سال کا تجاری خسارہ اٹھارہ سو ارب ڈالر ہے ۔ دوسری جانب عالمی سطح پر تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے دو سو پچاس ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں جو کہ ناکافی ہیں۔ بالٹک ڈرائی انڈکس کے مطابق عالمی بحران کے باعث دنیا بھر کی بحری تجارت پچاس فیصد کم ہو چکی ہے جس کی وجہ بڑے صنعتی ممالک کی برآمدات میں ہونیوالی واضح کمی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آگنائزیشن کے مطابق عالمی بحران کے باعث صرف امریکہ میں دو کروڑ نوکریاں ختم ہو جائیں گی جبکہ عالمی سطح پر بیس کروڑ افراد کے بے روز گار ہونے کا خدشہ ہے۔ اس قدر شدید بحران کے خاتمے کے لیے جی ٹونٹی کانفرنس کی کوششیں ناکافی نظر آتی ہیں ۔ اس کی بڑی وجہ بڑے ممالک کے درمیان پائے جانیوالے اختلافات بھی ہیں۔ چین امریکہ کو معاشی بحران سے نکلنے کے لیے ایک ہزار ارب ڈالر فراہم کر چکا ہے تاہم چین کو اب امریکی معاشی نظام پر اعتماد نہیں رہا ہے اور چند روز قبل چینی وزیر اعظم نے امریکہ سے سرمایہ کاری کے عوض گارنٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ چین کی جانب سے نئی کرنسی کے اجراءکے مطالبے کے باعث بھی دونوں بڑے ممالک میں کشدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ ادھر فرانس اور جرمنی بھی امریکہ کے ساتھ ناراض ہیں کیونکہ امریکہ نے اپنے ہاں آنیوالے تمام درآمدات پر بھاری ٹیکس لگانے کا اعلان کیا ہے ۔ جس سے فرانس اور جرمنی شدید متاثر ہوں گے ۔ امریکہ کا خیال ہے کہ مقامی صنعت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ درآمدات پر ٹیکس عائد کر دیا جائے جبکہ جرمنی اور فرانس اس کو آزاد تجارت کے عالمی اصولوں کے خلاف سمجھتے ہیں ۔معاشی ماہرین کے مطابق سرمایہ درانہ نظام یکسر ناکام ہو چکا ہے اور سے سہارا دینے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی ۔ لندن میں ہونیوالے جی ٹونٹی کانفرنس کا مقصد بھی سرمایہ درانہ نظام کی اجارہ داری برقرار رکھنا ہے جس کو دنیا بھر میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا معاشی بحران سے نکلنے کے لیے بنکوں اور دیگر پرائیوٹ اداروں کو قومی تحویل میں لینا یہ ثابت کرتا ہے کہ سرمایہ درانہ نظام کمزور ہو چکا ہے اور اشتراکی نظریہ معیشت کی افادیت پھر بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسری جانب دنیا بھر میں شرح سود میں کمی کے باعث بلاسود اسلامی نظریہ معیشت کے ماننے والے اسے ہی مالیاتی بحران کا علاج قرار دے رہے ہیں۔ جی ٹونٹی کانفرنس کے موقعہ پر لندن اور یورپ کے دیگر شہریوں میں اس موقعہ پر پرتشدد احتجاج بھی ہوئے ۔ پولیس نے نوے سے زائد افراد کو گرفتار کیا جبکہ ایک شخص مارا بھی گیا۔ جی ٹونٹی کانفرنس سرمایہ درانہ نظام کو سہارا دینے میں کس حد تک کامیاب ہوئی ہے اس کا فیصلہ تو آنیوالا وقت ہی کرے گا تاہم یہ بات واضح ہے کہ سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود عالمی معیشت کو اس وقت تک سہارا نہیں دیا جا سکتا ہے کہ جب تک عوام کا اعتماد بحال نہیں ہوتا۔

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی