مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Tuesday, July 13, 2010

امریکہ کی نئی افغان پالیسی: تضادات کا مجموعہ

صدر اوبامہ نے کافی انتظار کے بعد تھیلے سے بلی نکال ہی دی ہے اور دنیا میں امن کے خواب دیکھتے معصوم لوگ ایک بار پھر مایوس دیکھائی دیتے ہیں۔ صدر اوبامہ کی نئی پالیسی سے پاکستان اور افغانستان میں امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ بھارت کو افغان مسئلے میں اہم کردار دینے کے باعث پاکستان کے لیے خطرات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں بھارت کے اثر و رسوخ میں اضافہ یقینا پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرات بڑھا دے گا اور اس طرح پاکستان دو اطراف سے بھارت کے گھیرے میں ہوگا۔۔ یہ بات کافی اہم ہے اور پاکستانی حلقوں کو اس پر توجہ دینی ہو گی۔ صدر اوبامہ نے گویا دوستی کے نام پر پاکستانی عوام کے سینے میں خنجر گھونپنے کی کوشش کی ہے۔

دوسری جانب یہ بات بھی اہم ہے کہ افغانستان کے بارے میں نئی امریکی پالیسی کی تیاری میں صدر اوبامہ کے بھارت نواز مشیر بروس رئیڈل نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسی کے سابق اہلکار بروس رئیڈل نئی افغان پالیسی کو بنانے والی کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر کام کر رہے تھے۔ صدر اوبامہ نے بروس رئیڈل کو جنوبی ایشیا کے لیے معاون خصوصی مقرر کر رکھا ہے۔ بروس رئیڈل نے دو ہزار سات میں لکھی گئی اپنی کتاب Al- Qaida strikes Back میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں القاعدہ پہلے سے بھی مضبوط ہو چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ صدر اوبامہ ان علاقوں پر حملوں کا متعدد بار اعلان بھی کر چکے ہیں۔ بلوچستان میں القاعدہ اور طالبان قیادت کے موجود ہونے کے بارے میں امریکی حکام کے بیانات اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ یاد رہے پاکستان اور بھارت کے درمیان کارگل جنگ کے دوران انہوں نے صدر کلنٹن کی معاونت کی تھی جس کے باعث امریکی حلقے انہیں بھارت نواز قرار دیتے ہیں۔ بلوچستان کی شورش میں بھارت کے ملوث ہونے کے الزامات پاکستانی قیادت کی جانب سے لگائے جاتے رہے ہیں۔۔اس سے یہ شک تقویت پکڑ رہا ہے کہ بلوچستان میں امریکی دلچسپی کی بڑی وجہ بھارت ہی ہے کیونکہ بھارت پاکستان کے معدنیات سے مالا مال اس صوبے کو توڑنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔۔ اور گوادر کی بندرگاہ کے حوالے سے چین کو ہونیوالے فوائد کو کم کرنا بھی اس کا مقصد ہو سکتا ہے۔ امریکہ جنگ کو پھیلانا چاہتا ہے تاکہ چین کا راستہ روکا جا سکے۔ بلوچستان میں ڈرون حملوں کا اعلان اس علاقے کو شورش زدہ کر دے گا جس سے چین کو معاشی نقصان پہنچے گا اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک اس کی رسائی مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔ نئی افغان پالیسی کے تحت امریکہ ہر سال پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر امداد فراہم کرے گا جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو گزشتہ سالوں میں پینتیس ارب ڈالر سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے اور اگر امریکہ افغانستان میں کارروائیاں جاری رکھتا ہے تو اس سے پاکستان کے فوجی اور معاشی نقصان میں مزید کئی گنا اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ اس لیے امریکی امداد سے کچھ زیادہ امید نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف بلکہ اس سے بھی کم ہے۔ ڈرون حملے جاری رہنے سے بھی پاکستان کی اندرونی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں اور بےگناہ شہریوں کی ہلاکتوں پر شدید ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ امریکہ نے ایک طرف پاکستان میں جمہوری حکومت کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان کے اندر کارروائیوں کا اعلان کرکے جمہوری حکومت کی مشکلات مزید بڑھا دی ہیں۔ یعنی پاکستانی عوام کو مزید امریکی حملوں کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ اور ویسے بھی امریکی صدر نے یہ تو کہہ ہی دیا ہے کہ اگر پاکستان کارروائی میں ناکام رہا تو ہم خود حملہ کریں گے۔۔ اور یہ تو اپ کو پتہ ہی ہے کہ امریکہ پاکستان سے کھبی بھی مطمعن نہ ہو گا۔ ویسے اس سلسلے میں ہمیں قرآن مجید بھی رہنمائی دیتا ہے۔۔ " جب تک آپ ان کا مذہب قبول نہ کرو گے وہ تم سے مطمئن نہ ہوں گے "" ادھر امریکہ نے افغان مسئلے کے لیے حل کے لیے چین اور ایران کے ساتھ مل کر کام کرنے کا بھی اعلان کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چین امریکہ کو ہر قسم کے تعاون سے انکار کرتا رہا ہے اور ایران کے ساتھ امریکی تعلقات ابھی تک اس نوعیت کے نہیں کہ وہ اس کی مدد کو تیار ہو جائے۔ صدر اوبامہ نئی پالیسی کے تحت افغان فوج کو تربیت یافتہ بنا کرطالبان کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب امریکی حکام خود تسلیم کرتے ہیں کہ طالبان افغانستان کے ستر فیصد علاقے پر قابض ہو چکے ہیں جبکہ جدید ہتھیاروں سے لیس امریکی اور نیٹو افواج کو ابھی تک کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ ان حالات میں افغان فوج کا طالبان اور القاعدہ کےمقابلے پر ا? جانا ناممکن دیکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کے حکومتی حلقوں نے نئی امریکی پالیسی کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ دوسری جانب اہم سیاسی اور دینی رہنماوں نے اسے پاکستان کے لیے تباہ کن اور صدر بش کی پالیسیوں کا تسلسل قرار دیا ہے جس کے باعث نئی امریکی پالیسی کا پاکستان میں عوامی مقبولیت حاصل مشکل نظر ا?تا ہے۔ امریکی صدر باراک اوبامہ کی نئی ا فغان پالیسی ناکام ہوتی ہے یا کامیاب اس کا فیصلہ تو ا?نیوالا وقت ہی کرے گا تاہم یہ بات واضح ہے کہ تبدیلی کا نعرہ لگانیوالے باراک اوبامہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پرتشدد کارروائیاں روکنے کی کسی پرامن راہ کا انتخاب نہیں کر سکے اور دنیا بھر میں اس خیال کو تقویت مل رہی ہے کہ باراک اوبامہ سابق امریکی صدر بش ادھورے رہ جانے والے کام کی ہی تکمیل میں مصررف ہیں۔ ااس نئی صورتحال میں پاکستان کے لیے مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ پوری قوم کو اس سے نمٹنے کے لیے تیاری کرنا ہوگی اور حکومت کو بھی ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا۔

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی