مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Tuesday, July 13, 2010

مذاکرات ڈرامہ : عالمی تنہائی سے بچنے کی بھارتی کوشش

پاک بھارت مذاکرات شروع دن سے ایک ایسا دلفریب کھیل سمجھے جاتے ہیں کہ جن کی آڑ میں ہندو بنئیے نے ہمیشہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے پچیس فروری کو ہونیوالی پاک بھارت سیکرٹری خارجہ ملاقات کو اہم ترین کامیابی قرار دیا جا رہا ہے اور کچھ دیوانے تو اس بے ثمر درخت کے سائے تلے امن کی آشا کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ممبئی حملوں کے بعد پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم کے لیے دنیا بھر میں در در بھٹکتے بھارت کو اب قدرے ہوش آنا شروع ہوا ہے۔ ڈیڑھ ارب آبادی کے حامل بھارت کو ممبئی حملوں کے بعد عالمی برادری میں اپنی بے قدری اور تنہائی کا احساس ہونا شروع ہو چکا ہے۔ امریکی گاڑی میں بیٹھ کر افغانستان میں ہنی مون منانے کا نشہ بھی اترتا جا رہا ہے اور عالمی حالات پر نظر رکھنے والے افراد بخوبی جانتے ہیں کہ آنیوالے دنوں میں بھارت کو اپنی بقا کے لیے مزید پاپڑ بیلنا پڑیں گے ۔ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ دورہ سعودی عرب میں پاکستان کے ساتھ تمام مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کو ہی واحد راستہ سمجھنے کا اعلان کرتے ہیں جبکہ وزیر مملکت برائے خارجہ امور ششی تھرور تو اس سلسلے میں سعودی عرب کو ثالث بنانے پر بھی تیار ہیں ۔ یہ سب ہرگز معمولی باتیں نہیں ہیں ۔ ممبئی حملوں کے بعد سرجیکل سٹرائیکس ، چھیانوے گھنٹے میں فتح کے دعوے کرنیوالوں کا یہ نیا اور دلچسپ روپ ہے۔ معاملات کو بگاڑنے کا آغاز بھارت نے کیا تھا تو یقینا اب سنوارنے کی مشق بھی اسے ہی کرنا ہے۔ پاکستان کو یوم یکجہتی سے صرف ایک روز پہلے مذاکرات کی دعوت اور پچیس فروری کو نئی دہلی میں سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر کا یہ اعلان کہ ”ہمیں بھارتی لیکچر یا ڈکٹیشن کی کوئی ضرورت نہیں “ کافی اہمیت کے حامل ہیں ۔ پاکستان نے پوری شدت سے پانی ، کشمیر اور بلوچستان میں مداخلت کے مسائل اٹھائے ہیں ۔۔ گو کہ بھارت نے بھی حافظ سعید کی حوالگی ، عسکری تنظیموں پر کنٹرول جبکہ بلوچستان اور افغانستان میں مداخلت سے انکار جیسے پرانے موقف دھرائے ہیں ۔۔لیکن حقیقت یہی ہے کہ ممبئی حملوں کے بعد آگ اگلتی بھارتی عہدیداروں کی زبانیں کچھ کچھ مہذب ہونے لگی ہیں ۔ مذاکرات کی میز پر آنے سے پہلے بھارت نے خواہشوں کے کئی محل خود اپنے ہاتھوں ڈھیر ہوتے دیکھے ہیں ۔ اسے امید تھی کہ ممبئی حملوں کے بعد ہمدردی کی فضاءمیں ہر طرف تعریف کے پھول ہوں گے اور وہ نائن الیون ڈرامے کی طرح پاکستان کو روند ڈالے گا۔۔ لیکن پاکستان کی ایٹمی قوت ، افغانستان و کشمیر کے جہادیوں کے خوف اور سب سے بڑھ کر خود بھارت کے اندر ہندو ظلم و ستم کے ستائے لوگوں کی صف بندی نے اسے اوقات میں رہنے پر مجبور کیا ہے۔ افغانستان میں طالبان مزاحمت نے عالمی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ ہالینڈ کی حکومت افغانستان میں فوج رکھنے کے تنازعے پر ختم ہوئی جبکہ یورپ اور خود امریکہ روز روز لاشیں وصول کرتے تھکنے لگے ہیں ۔ مغرب نے عالمی معاشی بحران اور بے فائدہ فوجی کارروائی سے تنگ آ کر ہی طالبان سے مذاکرات کی راہ اپنانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان افغانستان کو پاکستان کے خلاف بیس کیمپ بنانے میں بھارت کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں ۔ من موہن سنگھ انہی خوفناک خدشات کے اظہار کے لیے امریکہ گئے تھے ۔ وہاں انہوں نے پاکستان ، کشمیر اور ایسے ہی دیگر روایتی معاملات کی بجائے طالبان کو زیر بحث لانا زیادہ پسند کیا ۔ من موہن سنگھ کا مطالبہ تھا کہ امریکہ ہرگز افغانستان سے نہ جائے کیونکہ ایسی صورت میں طالبان سپر پاور بن جائیں گے ۔ اگر ایسا ہوا تو وہ ضرور امریکیوں کی آمدورفت اور شمالی اتحاد کی مدد کے لیے سڑکیں بناتے اور اسلحہ بانٹے بھارتیوں کی خبر لیں گے ۔ اور یہی وہ خوف ہے کہ جس نے سردار جی کی رات کی نیندیں اڑا دی ہیں ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ افغانستان میں مذاکرات کا شور بلند ہوتے ہی امریکہ ، برطانیہ اور افغان حکومت کو پاکستان کی اہمیت کا احساس ہوا ہے۔ سعودی عرب اس معاملے میں اہم ہو سکتا ہے لیکن وہ القاعدہ کی وجہ سے ذرا فاصلے پر موجود ہے۔ گویا پاکستان ہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے پل کا کردار ادا کرنے والا ہے۔ اس موقعے پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنیوالا اور افغانستان پر اپنا نام نہاد حق جتانے والا بھارت تنہا دیکھائی دیتا ہے ۔ لندن میں افغان مسئلے پر عالمی کانفرنس میں بھارت کی کسی تجویز کو زیر غور لانا گوارا نہیں کیا گیا۔ حتی کہ امریکی اعلی فوجی حکام کے یہ بیان بھی سامنے آئے کہ بھارت کا افغانستان میں کردار خطے میں کشیدگی کا باعث ہے۔ لندن کانفرنس میں امریکہ ، برطانیہ اور افغان وفد کے بعد اہم ترین مقام پاکستان اور سعودی عرب کو ملا جبکہ بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کو اس تین قطاروں والے ہال میں آخر کی سیٹ نصیب ہوئی۔ انہیں یقینا غصہ آیا ہوگا کہ جب گروپ فوٹو میں وہ بہت پیچھے کھڑے کیئے گئے جبکہ شاہ محمود قریشی فرنٹ لائن میں تھے۔ بھارت کا واویلا تھا کہ لشکر طیبہ اور دیگر کشمیری تنظیموں کو بھی القاعدہ سے منسلک قرار دیکر کارروائی کی جائے لیکن کسی نے توجہ نہ دی ۔ بھارت طالبان سے مذاکرات کا سخت ترین مخالف تھا لیکن امریکہ اور اتحادی ممالک اس کی خاطر یقینا اپنے بندے نہیں مروا سکتے اور نہ ہی اربوں ڈالر مزید ضائع کر سکتے ہیں ۔ چاروناچار ایس ایم کرشنا بھی اس کڑوی گولی کو نگلنے پر آمادہ نظر آئے انہیں بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرنا ہی پڑی۔ یہیں سے بھارت کو ایک بڑ ا سبق ملا اور عالمی برادری نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مفید مشورہ عنائیت کیا ۔ اور پھر ٹھیک دس دن بعد ہی بات چیت کی دعوت دے دی گئی۔ اس لیے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بھارت نے کوئی بڑا احسان کیا ہے وہ اسے چاہیے کہ اس خام خیالی کو چھوڑ دے

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی