مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Thursday, July 15, 2010

قصہ شیر جوانوں کا

ہمارے خاندان میں سب سے مظلوم طبقہ جوانوں کا ہے کہ جنہیں ہر قسم کی تقریبات میں ہمیشہ کام کاج کے لیے بلایا جاتا ہے اور ذرا بھی پروا نہیں کی جاتی ہے کہ ان بیچاروں کے بھی تو کوئی جذبات ہونگے ۔ کوئی بھی موقعہ ہو ا نکی قسمت میں بس قائد اعظم کے قول پر عمل کرتے ہوئے کام ، کام اور بس کام ہی کرتے رہنا ہوتا ہے ۔ شادی ہو تو انہیں برتن لانے لیجانے سے لیکر ان کو دھونے دھلوانے تک سارے ہی کام کرنے پڑتے ہیں۔.۔. خواتین تو ان مواقع پر سجنے سنورنے میں مصروف ہوتی ہیں اور حکم چلانے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہوتی ہیں۔ اک یہی شیر جوان ہوتے ہیں جو دنیا و ما فیھا سے بے خبر کام کاج میں مصروف پائے جاتے ہیں۔ آپ اندازہ لگائیے کہ شادی والے گھر کے اندرونی کام کرنے کے لیے تو ایک عدد خالہ یا باجی ضرور رکھی جاتی ہے البتہ ان بیچاروں کی مدد کے لیے کوئی بھی نہیں ہوتا۔ ایک نائی ہوتا ہے کہ جو تھوڑی تھوڑی دیر بعد کوئی نہ کوئی حکم سنا رہا ہوتا ہے۔ اب آپ خود ہی سوچیئے خوشی کی یہی تقریبات ہی تو لمحات کی رنگینیوں سے مستفید ہونے کا موقعہ ہوتی ہیں اور ان بیچاروں کو یہ سارا وقت نائی ، عیسائی اور برتن دھونے والی مائی کے ساتھ گزارنا ہوتا ہے اور تو اور کھانا کھلانے کا مرحلہ تو زخموں پر نمک چھیڑکنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اجلے اجلے اور صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس مہمان ہمیں تو گویا غلام ہی سمجھے بیٹھے ہوتے ہیں۔۔یوں رعب سے آڈر کیے جاتے ہیں کہ جیسے انہیں افریقہ کے کسی قبیلے سے خرید کر لایا گیا ہو۔ چلو اپنے رشہ داروں کو تو انکی اعلی خصوصیات اور جذبہ خدمت خلق کا علم ہوتا ہی ہے تاہم بندہ چند گھڑی کے بیگانے مہمانوں کو کیا سمجھائے کہ یہ بھی انہی کے رشتہ دار لگتے ہیں اور اب کچھ وقت کے لیے خدمت گزاری کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ہماری اطلاعات کے مطابق بہت سے مہان اپنے اپنے گھر جا کر کھانا کھلانے والوں کے سلیقے کی تعریف کرتے پائے جاتے ہیں اور انکو اپنے ہاں شادیوں پر بطور نوکر بلانے کا پکہ ارادہ بھی کر لیتے ہیں۔وہ تو خیر انہوں نے ابھی ایسے کسی کاروبار کے بارے سوچا نہیں ہے ورنہ سنا ہے اس طرح کے کاموں میں کافی آمدن ہو جاتی ہے۔ اور لاگ شاگ الگ سے ۔۔بس جی ظلم در ظلم کی انتہا ہے ۔۔خاندان کے ذہین ،فطین،، چست وچالاک،،ہنر مند،،سلیقہ شعار،،اور نہ جانے جانے کیا کیا خوبیوں کے مالک ان بیچاروں کو خدمت گزاری پہ لگا دیا جا تا ہے اور بعض لوگ زخموں پہ نمک چھڑکنے کی خاطر کچھ اس طرح کا سلوک کرتے ہیں کہ بس جی ہمارا تو صبر ہی ہے۔۔اوپر سے اپنی برادری کے بعض کام چور حضرات بھی ان مواقع پر مخالفین کے ساتھ جا ملتے ہیں ۔۔ذرا خود سوچیئے کہ آپ کا دوست کسی کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہو اور آپ کو کالی کلوٹی دیگ کے اردگرد چکر لگانے پڑیں تو وہ منظر کتنا دلخراش ہوگا۔۔بس جی یہ سب برداشت کرنا ہمت والوں کا ہی کام ہے۔۔ورنہ اس گئے گزرے دور میں کون قربانیوں کی داستان رقم کرتا ہے۔۔

غرض خوشی کے مواقع پر کام کاج میں مصروف ہونا ایک منفرد احساس ہوتا ہے جو ہمارے خاندان کے نوجوانوں کو قبول کرنا پڑتا ہے۔۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادہ تر لڑکے ان کاموں کو ذوق و شوق سے کرتے ہیں اور ہرگز سستی کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ بھاگم بھاگ سارا کام سنبھال لیتے ہیں۔۔مل جل کر کام کرنا اور دوسروں کا ہاتھ بٹانا ہی تو خاندانی نظام کی سب سے بڑی خوبی ہے ۔اگر یہ ہی نہ ہو تو رشتوں کے بندھن میں دراڑیں پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔۔اس لیے خاندان کے تمام نوجوانوں کے نام پیغام ہے کہ چاہے اوکھے ہوں یا پھر سوکھے یہ سارے کام آپ کو ہی کرنا ہیں کیونکہ حلقہ نسواں سے کسی قسم کے کام کاج کی امید فضول ہے کیونکہ اس طرح انکے قیمتی جوڑے اور منوں کے حساب سے کیا گیا میک اپ خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ نوجوانو یہ ذمہ داری آپ کو اس وقت تک نبھانی ہے کہ جب آپ کو بھی ماموں اور چاچا کہنے والے بڑے نہ ہو جائیں۔

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی