مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Tuesday, July 13, 2010

امریکی دوستی کی سزا

آنگ سان سوچی میانمر کی جمہوریت پسند رہنما ہے۔ اس بہادر خاتون نے فوجی حکومت سے نجات اور عوام کو حقوق دلانے کے لیے گزشتہ انیس سال کے دوران تیرہ سال جیل کاٹی ہے ۔ اپنی جوانی کے بہترین ایام جیلوں اور گھر پر نظر بندی کی نظر کر چکی ہے ۔ نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی مسلسل قید کے بعد ستائیس مئی کو رہا ہو رہی تھی کہ ایک واقعہ ہوا کہ جس نے اسے دوبارہ شدید مشکل سے دوچار کردیا ہے ۔ ایک امریکی شخص جون ڈبلیو یاتیو خفیہ طریقے سے اس کے گھر میں گھس گیا۔ میانمر کی فوجی حکومت کے مطابق یہ شخص دودن تک آنگ سان سوچی کے گھر ٹھرا رہا اور اس دوران اس نے آنگ سان سوچی کے ساتھ ملاقات کرکے ملک کے خلاف سازش کی ہے ۔ فوج نے اس امریکی شخص کو گرفتار کر لیا اور اس پر سنگین الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ اس ساری صورتحال میں آنگ سان سوچی شدید مشکل کا شکار نظر آتی ہے اور وکلاءکا خیال ہے کہ نظر بندی کے دوران امریکی شخص سے ملاقات کے الزام میں اس کو مزید پانچ سال تک قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آنگ سان سوچی نے ان الزامات کو تسلیم نہیں کیا اور اس ساری صورتحال کو ایک سازش قرار دیا ہے۔ امریکہ ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے اس واقعہ کی آڑ میں آنگ سان سوچی پر مقدمہ درج ہونے کی شدید مزمت کی گئی ہے تاہم حیرت انگیز طور پر امریکی شخص کی رہائی یا اس کی معصومیت کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کہا جا رہا ہے۔ میانمر میں کچھ ماہ بعد انتخابات ہونیوالے ہیں اور اگر آنگ سان سوچی کو مزید قید رکھنے کا فیصلہ ہوتا ہے تو اس طرح وہ اس انتخابی عمل سے دور رہیں گی اور ممکن ہے آنیوالے دنوں آنگ سان سوچی کا کردار ہی ختم کر دیا جائے۔

گرفتار ہونیوالے امریکی کی گرفتاری اور اس سے آنگ سان سوچی کے ساتھ ملاقات کے ثبوت ملنا بھی ایک پر اسرار کہانی ہے۔ امریکی نہر میں تیرتے ہوئے آنگ سان سوچی کے پاس پہنچا ، جہاں اس نے آنگ سان سوچی کے ساتھ تصاویر اتروائیں جوکہ بعد میں فوجی حکام کی جانب سے برآمد بھی کر لی گئی ہیں۔ یہ کافی عجیب سا قصہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص جو کہ خفیہ مشن پر جاتا ہے وہ کیونکر تصاویر اتروانے کا شوق پورا کرتا رہتا ہے اور حد تو یہ ہے کہ ان تصاویر کو اپنے سامان میں بھی رکھتا ہے ۔۔ ایک عام سی ذہانت کا انسان بھی ایسی کسی کارروائی میں ہر قسم کی احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ امریکی شخص ان خطرات سے آگاہ نہ ہو۔ وہ میانمر میں پکنک منانے نہیں بلکہ خفیہ مشن پر آیا تھا تو وہ تصاویر اتروانے کی عیاشی کیسے کر سکتا ہے۔

پتہ نہیں کیوں اس واقعہ کو دیکھتے ہوئے ان لیڈروں کی یاد آتی ہے کہ جنہیں امریکی دوستی نے کچھ ایسے ہی حالات تک پہنچایا تھا حتی کہ بعض کو تو جان کی قربانی بھی دینی پڑی تھی۔ پاکستان کے جنرل ضیاءالحق ہوں کہ جن کے ساتھ ایک امریکی سفیر بھی مارا گیا تھا ۔ جب کہ ایسے لیڈروں کی تعداد تو شاید درجنوں میں ہو کہ جن کو امریکیوں نے بھرپور استعمال کرنے کے بعد دھوکہ دیا ۔ ان میں عراق کے صدر صدام ، پاکستان کے صدر مشرف اور دوسرے کئی رہنما شامل ہیں ۔ امریکہ افغانستان اور پاکستان کے معاملات میں اس قدر مصروف ہے کہ وہ فی الحال میانمر پر توجہ نہیں دے سکتا تھا تو اس نے ایک ڈرامہ کر کے آنگ سان سوچی کےلیے مزید قید میں رہنے کا انتظام کر دیا ۔ اب وہ بیچاری جیلوں میں اسیری کا ٹے گی اور فوجی حکومت ملک پر خوب راج کرے گی یا پھر آئندہ انتخابات میں کسی ایسے شخص کوسامنے لایا جائے گا جو کہ آنگ سان سوچی کی طرح عوامی حمایت کا حامل نہیں ہو گا بلکہ وہ اقتدار میں آ کر امریکہ کا مشکور ہو گا اور اس طرح امریکہ عوامی طاقت کی بدولت حکمرا ن بننے والی آنگ سان سوچی کی بجائے ایک ایجنٹ بھرتی میں کامیاب ہو جائے گا۔ بعض لوگ تو محترمہ بے نظیر کی شہادت کو بھی امریکی کاررستانی قرار دیتے ہیں کہ جس کا مقصد امریکی سازشوں کو سمجھنے والی ایک مقبول عوامی لیڈر کو اقتدار سے دور کرنا تھا۔

آنگ سان سوچی کے ساتھ ہونیوالے واقعے سے دنیا بھر میں امریکی دوستی کا دم بھرنے والے حکمرانوں کو عبرت پکڑنی چاہیے اور غیر ملکی وسائل اور امداد پر فخر کی بجائے ملک کی عوام کے مسائل کو انہیں کے وسائل سے حل کرنا چاہیے کیونکہ امریکی دوستی نے ہمیشہ سے لیڈروں کو مشکلات سے ہی دوچار کیا ہے۔

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی