مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Tuesday, July 13, 2010

بم دھماکے کے بعد کا منظر

بم دھماکے تو اب ہم پاکستانیوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں ۔ میڈیا میں کام کرنیوالے لوگ تو اس کلچر سے اس قدر مانوس ہوتے جا رہے ہیں کہ جس دن ملک کے کسی حصے سے بمباری یا بم حملے سے ہونیوالی ہلاکتوں کی خبر نہ آئے تو یہ حیرانی کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں ۔ سنا کرتے تھے کہ پرانے زمانے میں جب دور کسی جگہ قتل ہو جاتا تو خونی ہوائیں چلتی تھیں اور گاوں کے ہر چھوٹے بڑے کے پاس کئی دن تک بتانے کے لیے یہی کہانی ہوتی تھی لیکن اب بھلا ہو ہمارے ظاہری اور اصلی حکمرانوں کا کہ جو ہمیں ہر لمحہ ایک نئی کہانی دیتے ہیں ۔ اب تو ایک ہی دن میں کئی کئی واقعات ایسے ہو جاتے ہیں کہ پوری طرح سے یاد بھی نہیں رہتے ۔ کوئی لاہور میں خود کش حملے کی بات کرے تو دوسرا پوچھتا ہے کہ کونسا خود کش حملہ آج والا کہ جو گزشتہ روز ہوا تھا۔۔ بلکہ کئی دفعہ تو ایسے بھی ہوتا ہے کہ آپ کسی اور کام میں مصروف ہو کر اس گھنٹے میں ہونیوالے واقعے سے لا علم رہتے ہیں اور پرانا واقعہ سنا کر آپ کو شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہمارے ملک کی نئی حققتیں ہیں کہ جن کا آج کل ہر پاکستانی کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اوپر سے سابق صدر مشرف کی بہربانی سے ٹی وی چینلز کا اس قدر سیلاب ہے کہ آپ بغیر کہانی سنے اور دردناک مناظر دیکھے کہیں جا ہی نہیں سکتے۔ لائیو کوریج اور بریکنگ نیوز کے چکر میں معصوم قارئین کو اس قدر پھنسایا جاتا ہے کہ ہر کوئی معلومات کا خزانہ لیے پھرتا ہے ۔ بم دھماکے کیوں ہوتے ہیں ۔ ان کی وجوہات کیا ہیں ۔۔ کون لوگ ہیں کہ جن کا روز گار ان کے ہونے سے وابسطہ ہے۔۔ میرا ایک دوست تو بلکل ہی بے وقوف ہے ۔۔کہتا ہے کہ اگر بم دھماکے نہ ہوں تو ملک میں ڈالر نہیں آتے ۔۔اب اس کو کون سمجھائے کہ بھلا ڈالروں کا بم دھماکوں سے کیا تعلق ؟ کہتا ہے کہ یہ راز کی باتیں ہیں تم کو سمجھ نہیں آئیں گی۔۔ خیر یہ تو سمجھ دار لوگوں کی بحث ہے میں تو آپ کو ایک بم دھماکے کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں ہونیوالے بم دھماکے یا دہشت گردی کے بڑے واقعے کا منظر ایک جیسا ہی ہوتا۔ سب سے پہلے ٹی وی چینل فلاں شہر میں دھماکے کی آواز سنے جانے کا ٹیکر چلاتے ہیں۔ جس کے بعد دعووں کی بھیڑ چال شروع ہوتی ہے اور بغیر تحقیق کے اندازے لگائے جاتے ہیں ۔ خیر یہ صورتحال زیادہ دیر برقرار نہیں رہتی اور جلد ہی جگہ کا تعین کر لیا جاتا ہے اور متعدد ہلاکتوں کی خبر چلا دی جاتی ہے۔ اسی دوران لائیو کوریج کے لیے ٹی وی چینلز کی ڈی سی این جیز وہاں پہنچ جاتی ہیں اور تباہی کے مناظر کیمرے میں محفوظ ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اسی دوران ریسکو کے ادارے بھی پہنچتے ہیں اور بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیوں کی خبر چلا دی جاتی ہے۔ ملبے کو ہٹانے کا کام شروع ہوتا ہے اور جلد ہی اس دھماکے کے خود کش ہونے کی تصدیق کر دی جاتی ہے۔ قانون نافذ کرنیوالے ادارے موقعہ واردات پر پہنچتے ہیں ادھر ادھر جھانک کر داڑھیوں والے یا پٹھان نظر آنے والے افراد تلاش کرتے ہیں اور اس طرح ایک اور بریکنگ نیوز ملتی ہے کہ ” دھماکے میں ملوث مشتبہ شخص گرفتار، اہم انکشافات کا امکان“ ۔ ویسے تو اکثر خود کش بمبار کا سر بھی برآمد کیا جاتا ہے جو کہ خطرناک ترین دھماکے اور عمارت کے اڑ جانے کے باوجود بھی محفوظ رہتا ہے۔ اس کو فوری طور پر ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے روانہ کر دیا جاتا ہے۔ اسی لمحے پولیس کے اعلی افسران پہنچتے ہیں اور فورا ٹی وی کیمروں کے سامنے اہم انکشافات کرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ دھماکے کی ذمہ داری تو فورا ہی تحریک طالبان یا کوئی اور گروپ قبول کر لیتا ہے یا پھر پولیس والے اپنی تیز ترین کارکردگی کے باعث اسے طالبان کا کارنامہ قرار دے دیتے ہیں۔ جب

جائے واردات کے مکمل محفوظ ہونے کا یقین ہو جاتا ہے تو سیاسی رہنماوں کی باری آتی ہے اور وہ میڈیا کو اپنے خیالات سے مستفید فرماتے ہیں ۔ اس دوران ہلاکتوں کی تعداد بڑھانے کا مقابلہ بھی جاری رہتا ہے جبکہ ٹی وی چینلز ہسپتالوں وغیرہ پر ہلہ بول کر ڈاکٹروں کے کام میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر آپ ٹی وی کے سامنے ہیں تو آپ کو ایک اور ٹیکر ضرور چلتا نظر آئے گا کہ ” دھماکے کے بعد ملک بھر میں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی “ ۔ میرا وہی پاگل دوست کہتا ہے ” شکر ہے سکیورٹی پہلے ہائی الرٹ نہیں کی گئی ورنہ یہ سب ہوتا ہی نہ “۔

سکیورٹی ہائی الرٹ ہونے کی خبر چلانے کی دوڑ شروع ہوتی ہے اور ہر صوبے کا محکمہ تعلقات عامہ اور ہر ضلع کا پولیس آفیسر اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا نام بھی ٹی وی پر لے آتا ہے۔ جبکہ ساتھ ساتھ وزیر اعظم ، صدر م وزرائے اعلی ، گورنرز سمیت ہر ساجھے ماجھے کی طرف سے مذمت اور اظہار افسوس شروع ہو جاتا ہے۔ اور اب لمحہ آتا ہے جناب رحمٰن ملک صاحب کے تشریف لانے کا ۔ وہ خوب غصے میں ہوتے ہیں اور کیمرہ آن ہوتے ہی دھواں دار تقریر فرماتے ہیں ۔ میرے ایک دوست نیوز ایڈیٹرز نے تمام اعلی حکومتی عہدیداروں کی تقاریر کی مستقل خبریںبنا رکھی ہیں اور اس کا دعوی ہے کہ حکمرانوں نے بھی اس موقعہ پر کرنے کے لیے ایک ہی تقریر لکھ رکھی ہے جس کو ہرگز بدلا نہیں جاتا ۔ تفتیشی ٹیم قائم ہوتی ہے، دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا اعلان ہوتا ہے ، ملزم کے خاکے اور انعامات کے اشتہار شائع ہوتے ہیں اور ٹھیک چوبیس گھنٹے تک سب تھک ہار کر ایک نئے بم دھماکے کی تیاری شروع کر دیتے ہیں ۔ اور یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ ہمارے ظاہری اور اصلی ( امریکی ) حکمران ہمیں زیادہ آرام کا موقعہ بھی نہیں دیتے ۔ میرا پاگل دوست کہتا ہے کہ یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک ہم نہیں بدل جاتے یا ہمارے حکمران ۔۔ لیکن آپ پریشان نہ ہو ۔۔ یہ بندہ واقعی پاگل ہے۔

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی