مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Tuesday, July 13, 2010

امریکہ ۔بھارت اتحاد اور پاکستان

امریکی عہدیدار جب بھی پاکستان تشریف لاتے ہیں تو ہر دفعہ کسی نئی آفت کا پتہ لاتے ہیں ۔۔ واشنگٹن سے آنیوالی ہر پرواز ہمارے لیے کوئی نہ کوئی نیا حکم نامہ ضرور لاتی ہے ۔۔ مزید خون بہانے کے طریقے بتائے جاتے ہیں جبکہ فوج کو افغان جنگ میں مزید مصروف کر دینے کے مشوروں کے بغیر تو کوئی بھی امریکی ” پریم پتر “ مکمل ہی نہیں سمجھا جاتا۔۔ آج کل ہر چھوٹے بڑے امریکی عہدیدار کو پاکستان کی فکر ستا رہی ہے ۔۔باراک اوبامہ سے لیکر رچرڈ ہالبروک تک ہر کوئی پاکستان کو ” مستحکم “ دیکھنا چاہتا ہے۔ شاید امریکیوں کے خیال میں پاکستانی علاقوں میں بڑھتے ہوئے ڈرون حملوں کا مقصد بھی پاکستان کو مضبوط اور مستحکم بنانا ہی ہے۔ امریکی حکام تواتر کے ساتھ پاکستان کے دوروں میں مصروف ہیں اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر اتنی تیزیاں معاشی بحران کو حل کرنے کے لیے دیکھائی جائیں تو شاید بے روزگار ہوتے امریکیوں کو کچھ ریلیف مل سکے۔

دوسری جانب رچرڈ ہالبروک پاکستان کے طوفانی دورے کے بعد نئی دہلی پہنچ گئے ہیں۔۔ بھارت کے سیکرٹری خارجہ شیو شنکر مینن اور قومی سلامتی کے مشیر این کے نرائنن سے بات چیت کے بعد انہوں نے جو بیان جاری کیا ہے اس کے بعد امریکہ کے بارے میں خوش فہمی میں مبتلا حلقوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیےں۔ ہالبروک نے بھارت کو خطے کا لیڈر قرار دیتے ہوی
¿ے کہا ہے کہ افغانستان کا مسئلہ بھارتی تعاون کے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا ۔ خیر یہ تو پہلے سے ہی واضح ہے کہ امریکہ بھارت کو ایشیا میں اپنا نمائندہ بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہے اور ایٹمی معاہدہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور افغانستان میں بھارتی فوجوں کی آمد کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم ہالبروک کا مسئلہ کشمیر کے بارے میں بیان زیادہ پریشان کن ہے ۔ صدر اوبامہ کے آنے کے بعد یہ امید بندھی تھی کہ یہ دیرینہ مسئلہ حل ہو جائے گا ۔ اوبامہ نے حلف اٹھانے سے دو تین دن پہلے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ اگر وہ حلف اٹھاتے ہی مسئلہ کشمیر کے لیے خصوصی نمائندہ مقرر کریں گے۔ بھارت کو اس بیان سے خوب تشویش ہوئی اور شاید یہی وجہ تھی کہ صدر اوبامہ نے حلف اٹھانے کے بعد کئی دن بھارتی وزیر اعظم کو فون ہی نہ کیا جس پر امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی خبریں عالمی میڈیا کا موضوع بنیں۔ لیکن پھر ممبئی کا ڈرامہ پیش آ گیا جس کے بعد بھارت ”مظلوم “ بن کر ابھرا اور امریکی میڈیا نے بھارت کو درپیش خطرات کا کچھ ایسا پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیا کہ اوبامہ کو بھی اپنا ذہن بدلنا پڑا۔ موجود ہ صورتحال یہ ہے کہ اوبامہ کشمیر سے متعلق اپنے وعدوں کو بھول بھال کر بھارت کو افغانستان میںاہم ترین کردار دینے کی تیاریوں میں مصروف ہیں ۔ بھارتی میڈیا نے بھی فرضی رپورٹوں کے ذریعے ی پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے کہ ان کے ملک کو بھی طالبان سے خطرہ ہے اور کشمیر کے راستے بیت اللہ محسود کے جنگجو بھارت میں داخل ہو چکے ہیں او ر ان کا مقصد انتخابات کے دوران تباہی پھیلانا ہے۔۔ عین ممکن ہے کہ بھارت میں عام انتخابات کے دوران یا اس سے پہلے کوئی ایسا واقعہ ہو کہ جس کی ذمہ داری طالبان قبول کریں اور افغانستان کے بارے میں امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آ جائے ۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ امریکہ اور بھارت نے بیت اللہ محسود کی تحریک طالبان پاکستان کو انہی کاموں کے لیے تیار کیا ہے کہ وہ ایک طرف میڈیا میں آ کر نئی دہلی اور واشنگٹن کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دیں جبکہ دوسری جانب ڈالروں کی چمک سے ایسے خود کش بمبار تیار کریں کہ جو آئے دن پاکستانیوں کو خون میں نہلاتے رہیں ۔ بیت اللہ محسود تو ذمہ داریاں قبول کرنے میں ویسے ہی کافی مشہور ہیں ۔ انہوں نے چند روز قبل امریکہ میں انیس افراد کے ایک ویت نامی بے روزگار کے ہاتھوں قتل کو بھی تحریک طالبان کا کارنامہ قرار دیا تھا ۔ اسے آپ پریکٹس ہی سمجھیں کیونکہ بیت اللہ محسود وائٹ ہاوس پر حملوں کا اعلان بھی کر چکے ہیں ۔ اس طرح امریکہ کو کافی حد تک ریلیف ملا ہے کیونکہ امریکیوں کو جس قسم کے بیان دینا ہوتے ہیں بیت اللہ محسود پہلے سے ہی اس کا انتظام کر دیتا ہے۔ مثلا ادھر امریکی صدر کہتے ہیں کہ طالبان امریکہ کے لیے خطرہ ہیں تو فوری بعد بیت اللہ محسود نائن الیون جیسا واقعہ پھر دہرانے کا اعلان کر دیتا ہے۔ بلکل ہی طریقہ بھارت بھی استعمال کر رہا ہے کہ جیسے ہی اس نے کشمیر میں طالبان کی موجودگی کا رونا رویا ہے تو عنقریب بیت اللہ محسود کے بیجھے ہوئے چند دہشت گردی کشمیر سے گرفتار ہوں گے جس کی آڑ میں ایک طرف تو بھارت پاکستان کے خلاف کارروائی کے لیے امریکہ کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا جبکہ دوسری جانب کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو طاقت کے ذریعے دبانے کا ایک اور موقعہ مل جائے گا۔ بھارت کی طرف امریکہ کے جھکاو کا بڑا مقصد تو چین کو قابو کرنا ہی ہے تاہم امریکی موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو بھی سبق سکھانے کی کوشش کریں۔۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے خود کش حملے بھی کچھ ایسی ہی کہانی سنا رہے ہیں ۔اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ بیت اللہ محسود گروہ بھارتی اور امریکی سرمائے سے پاکستان کے اندر خون کی ہولی کھیل رہا ہے ۔ اب جب کہ امریکہ بھارت کو بھی اس کھیل کا سرگرم کھلاڑی بنا رہا ہے تو پاکستان کے لیے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں ۔ بھارتی خفیہ ایجنسی راء امریکی سی آئی اے کے تعاون سے پہلے ہی قبائلی علاقوں میں نیٹ ورک قائم کر چکی ہے اور اسی کو استعمال کرکے ارض پاک کو نقصان پہنچانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ۔خیر ہالبروک کے بھارت کو علاقائی طاقت قرار دینے اور مسئلہ کشمیر سے لاتعلقی کے بیان سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان کو اب اپنی بقا کی جنگ کافی سمجھ بوجھ سے لڑنا ہو گی۔ امریکہ ہمارے ازلی دشمن کو اپنا دوست بنا کر پاکستان کی سرحدوں پر لانا چاہتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مشرقی سرحدوں پر ہم ہندو بنئیے سے لڑنے کی تیاریاں کریں جبکہ مغربی سرحد پر اس کے ساتھ دوستی نبھا رہے ہوں۔ اس ساری صورتحال یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ اور بھارت پاکستان کو سینڈوچ بنانا چاہتے ہیں اور گریٹر ہندوستان کی سوچ رکھنے والوں سے مقابلے کے لیے پاکستان کو بھی اپنی تیاریاں شروع کرنا ہوں گی ۔ اس ساری صورتحال کے باوجود ہماری سیاسی قیادت میں اتحاد کا فقدان ہے ۔ کسی بڑے حادثے سے بچنے کے لیے قوم کو متحد ہونا ہوگا کیونکہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے والے عناصر ایک بار پھر سرگرم ہو چکے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی