مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Tuesday, July 13, 2010

بیرونی الزامات اور ہمارے لوگ

ارض پاک کو ان دنوں کچھ ایسے خطرناک مسائل نے گھیر رکھا ہے کہ ہر شخص پریشان نظر آتا ہے ۔ مہنگائی ، بدامنی ، غربت اور بے روزگاری ایسے مسائل ہیں کہ جن کے باعث عام آدمی کا جینا دوبھر ہوتا جا رہا ہے ۔ لیکن ان سب معاشی اور سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ ہمیں کچھ ایسے نظریاتی چیلنجز کا بھی سامنا ہے کہ جن کے باعث ملکی خودمختاری ایک مذاق دیکھائی دیتی ہے اور ان کے باعث ریاست کی بنیادیں کمزور ہوتی محسوس ہوتی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم پاکستانی بطور ریاست بدترین کارکردگی کو معمول بنا چکے ہیں اور شاید یہی وجوہات ہیں کہ جن کے باعث بعض دیوانے ملک ٹوٹنے اور اس ارض پاک کو کئی ٹکڑوں میں بانٹنے کی آوازیں لگاتے بھی سنائی دیتے ہیں ۔ قومی وقار اور خودمختاری کا اس بے باکی سے قتل کیا جا رہا ہے کہ شاید ہی کوئی پاکستانی بچا ہو کہ جو اپنی شناخت پر فخر کرنا محسوس کرتا ہو۔ ایسا اس لیے نہیں کہ اس وطن نے اپنے باسیوں کو آسائشیں فراہم کرنے میں کوتاہی کی ہے بلکہ یہ سب اس لیے ہے کہ حکمران طبقے اور بعض مفاد پرست گروہوں نے اس ملک کو اتنا گھائل کر دیا ہے کہ اب ہر محب وطن شہری ملک کی سلامتی کے لیے فکر مند نظر آتا ہے ۔ بہت سے نظریاتی مسائل میں ایک ملک کے اندرونی معاملات میں بیرونی عناصر کی مداخلت بھی شامل ہے۔ پاکستان کا کوئی بھی معاملہ ہو سرحد پار بیٹھے بہت سے مہربان بے چین ہو جاتے ہیں ۔ سوات معاہدہ ہوتا ہے تو تشویش کی لہر یورپ و امریکہ میں محسوس کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس کا معاملہ ہو یا صدر مشرف کا استعفی ہر جگہ بیرونی ہاتھ کاررفرما دیکھائی دیتے ہیں ۔ غیر ملکی عہدیدار پاکستان کے اندر رونما ہونیوالے واقعا ت پر اظہار خیال کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ کبھی بھارت کو بلوچستا ن کے حالات پر تشویش ہوتی ہے تو کبھی امریکہ جنوبی پنجاب پر طالبان کے قبضے پر پریشان دیکھائی دیتا ہے ۔ امریکہ کے وہ عام سے رکن پارلیمان جن کو اپنے ملک میں کوئی پوچھتا بھی نہیں بغیر کسی تحقیق کے پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے لیکر اسامہ بن لادن کی یہاں موجودگی تک کی اطلاع دیتے پائے جاتے ہیں ۔ لاہور ہائیکورٹ ایک صاف شفاف عدالتی کارروائی کہ جس میں فریق مخالف پنجاب حکومت ہے کے نتیجے میں حافظ سعید کو رہا کرنے کا حکم دیتی ہے لیکن امریکی نمائندہ ہالبروک غمگین ہوجاتا ہے جبکہ بھارتیوں کے منہ سے تو درد کے مارے چیخیں بھی سنائی دیتی ہیں ۔ اس سارے شور میں کوئی بھی خیال نہیں رکھتا ہے کہ فیصلہ ایک آزاد ملک پاکستان کے ایک منظم محکمہ انصاف کی عدالت عالیہ نے سنایا ہے ۔ یہ صورتحال اس وقت زیادہ تشویشناک ہو جاتی ہے کہ جب ہر ملک پاکستان کے اندر سے اپنے اپنے مجرم ڈھونڈ کر لے جانا چاہتا ہے ۔ سابق صدر مشرف تسلیم کر چکے ہیں کہ نائن الیون کے بعد بہت سے پاکستانیوں کو پانچ پانچ ہزار لے کر گوانتاناموبے جیل کی اذیتوں کا مزا چکھایا گیا۔ اب بھی سینکڑوں پاکستانی لاپتہ ہیں اور بغیر کسی الزام کے گمنام مقامات پر قید ہیں ۔ بھارت کو بھی پاکستانی عدلیہ پر ہرگز اعتبار نہیں اور وہاں سے ہر دوسرے دن حافظ سعید، ذکی الرحمن لکھوی اور دیگر کے وارنٹ گرفتاری معمول کی بات ہے۔ پاکستان میں کئی سال سے رفاعی کاموں میں ملوث رفاعی تنظیم کہ جسے خود اقوام متحدہ تعریفی سرٹیفیکیٹ دے چکی ہے اور کشمیر کے زلزلہ زدگان آج بھی ان کی قربانیوں کے گواہ ہیں ۔ اسے صفائی کا موقعہ فراہم کیے بغیر دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے ۔ اور اب حال ہی میں مزید چار افراد جن میں عالم دین امین پشاوری، ایک مدرس نصر جاوید اور ایک میڈیا ترجمان یحیی مجاہد شامل ہیں ۔ ان افراد کو بھی دہشت گردوں کی لسٹ میں شامل کر لیا گیا ہے اور اثاثے منجمند کر دئیے گئے ہیں ۔ کتنا عجیب لگتا ہے کہ میڈیا سے ہر وقت تعلق رکھنے والے شخص کو بھی پراسرار قرار دیتے ہوئے دہشت گردوں کی لسٹ میں شامل کر لیا جائے ۔ لیکن یہ تو جنگل کے بادشاہ کا فیصلہ ہے جہاں سب ممکن ہے چاہے مریدکے شہر میں ایک گنجان آبادی میں واقعہ مرکز طیبہ کو ممبئی حملوں میں استعمال ہونیوالا تربیتی مرکز قرار دے دیا جائے۔ جنرل حمید گل کا نام بھی سامنے آ رہا ہے ۔ انہیں شاید روس کو شکست دینے کی سزا دی جائے گی ۔ ہم اقوام متحدہ کے کارناموں اور اس کے یکطرفہ فیصلوں پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس کے لیے تو کشمیر ، فلسطین کی کہانیاں ہی کافی ہیں تاہم ایک اہم سوال یہ ہے کہ جب ایسا ہوتا ہے تو ریاست کہاں چھپ جاتی ہے ۔ کیا اپنے باشندوں پر لگنے والے الزامات کی تحقیق اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ریاست کا کام نہیں ۔ مرزا طاہر ایک پاکستانی ڈرائیور کا قاتل جبکہ کشمیر سنگھ بم دھماکوں کا ملز م تھا لیکن بھارت اور برطانیہ انہیں باعزت بری کرانے میں کامیاب رہے ۔ لیکن پاکستانیوں کے بارے میں ایسا کیوں نہیں ہوتا۔ ہماری حکومت کیوں ایسا ماحول بننے دیتی ہے کہ امریکہ و بھارت براہ راست حمید گل، حافظ سعید ، یحیی مجاہد پر الزامات لگاتے ہیں اور پل بھر میں ان کو مجرم بنا ڈالتے ہیں۔ اگر یہ لوگ مجرم ہیں تو پھرہائیکورٹ کے ججوں کو سزا ملنی چاہیے کہ جو ان کو رہا کرتے ہیں اور اگر ان کا قصور صرف یہ ہے کہ یہ لوگ غیر ملکی ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ ہیں تو پھر پاکستانی حکام ان پر لگنے والے الزامات کا دفاع کیوں نہیں کرتے ۔کیوں ہمارا دفتر خارجہ دنیا کو یہ نہیں بتاتا کہ یہ لوگ تو سالوں سے یہاں رہ رہے ہیں اور پاکستانی عوام کو ان سے شکایت نہیں ۔ حکمرانوں کو ان حالات کا ادراک کرنا چاہیے کیونکہ اگر یہ روایت عام ہوئی تو کہیں عراق سے صدام اور سوڈان کے عمرالبشر کی طرح ہمارے حکمرانوں کے بھی وارنٹ گرفتاری جاری نہ ہونے لگیں ۔ کوئی مجرم ہے تو ملکی قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جائے نہ کہ امریکہ سے حکم ملے اور ہم اپنے ہی بھائیوں کو بغیر کسی تحقیق کے مجرم بنا کر سزا دینے پر تیار ہوجائیں ۔ مغرب کے تو قانون نرالے ہیں اسے کشمیر و فلسطین میں قتل ہونیوالی گاجرمولیاں نظر نہیں آتی البتہ محض محض ہتھیار بنانے کے شک پر لاکھوں عراقیوں کی زندگیاںچھین لینا ایک مذاق لگتا ہے۔ خیر جی حکمرانوں سے درخواست ہے کہ اگر انہیں اقوام متحدہ سے حافظ سعید ، امین پشاوری، نصر جاوید اور یحیی مجاہد کے خطرناک جرای
¿م کا پتہ لگ چکا ہے تو انہیں عوام کو بھی بتا دیا جائے تاکہ ان کے ماننے والے اور ان کی رفاعی سرگرمیوں کے گواہ لاکھوں لوگوں کو بھی حقیقت معلوم ہو سکے۔ حاصل کلام یہ کہ ریاست کا پردہ درمیان سے نہیں ہٹنا چاہیے کیونکہ ایسے ہی حالات میں عسکریت پسندی فروغ پاتی ہے، غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں اور غیر ملکی ایجنٹ ہونے کے طعنے سامنے آتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی