مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Wednesday, July 14, 2010

مجید نظامی

مجید نظامی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ مجید نظامی نے کھبی بھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور اسی لیے ان کا شمار ملک کے مشہور اور بااثر ترین صحافیوں میں ہوتا ہے۔ مجید نظامی چھالیس سال سے اخباری صحافت کے ساتھ منسلک ہیں جبکہ حال ہی میں ان کے ادارے کی جانب وقت ٹی وی چینل بھی شروع کیا گیا ہے۔۔ وہ نوائے وقت گروپ میں ایڈیٹر ان چیف کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مجید نظامی تین اپریل انیس سو اٹھائیس کو سانگلہ ہل کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول سانگلہ ہل سے حاصل کی۔ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے وہ لاہور تشریف لے آئے جہاں انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور بعد ازاں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے ایف اے کیا۔ انیس سو باون میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن مکمل کرنے کے بعد مجید نظامی نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کی ڈگری حاصل کی۔ ۔ مجید نظامی نے اسلامیہ کالج میں دوران تعلیم تحریک پاکستان میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے متحرک کارکن کے طور پر حصہ لیا۔ آپ کی ان خدمات کے اعتراف میں وزیراعظم لیاقت علی خان نے انہیں مجاہد تحریک پاکستان کے لقب سے نوازا اور ایک اعزازی تلوار بھی پیش کی۔ انیس سو چون میں جناب مجید نظامی اعلی تعلیم کے لیے انگلستان تشریف لے گئے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف لندن میں بین الاقوامی امور کے شعبے میں داخلہ لیا جبکہ وکالت کی تعلیم گریز ان سے حاصل کی۔ مجید نظامی نے لندن جانے سے دو سال پہلے ہی نوائے وقت کا مشہور کالم سر راہ لکھنا شروع کر دیا تھا جبکہ وہاں قیام کے دوران بھی وہ نوائے وقت کو باقاعدگی سے تحریریں ارسال کرتے رہے۔ اس دوران انہوں نے کاروباری معاملات کے سلسلے میں بڑے بھائی جناب حمید نظامی کا ہاتھ بٹانا بھی شروع کر دیا۔ لندن میں وہ پولیٹیکل رپورٹر کے طور پر کام کرتے رہے جہاں انہوں نے بہت سے قابل ذکر عالمی رہنماو


¿ں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ انیس سو باسٹھ میں جب جنرل ایوب خان نے ملک میں مارشل لائ
نافذ کیا تو نوائے وقت اور جناب حمید نظامی زیر عتاب آگئے۔ فوجی حکومت کے بے پناہ دباو نے حمید نظامی کی صحت کو بھی متاثر کیا اور وہ جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ حمید نظامی کی وفات کے بعد جناب مجید نظامی وطن واپس تشریف لے آئے اور بڑے بھائی کا مشن سنبھال لیا۔ انہوں نے صدارتی انتخابات میں انتہائی جرات کے ساتھ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ایوب خان کے بعد نوائے وقت نے مجید نظامی کی رہنمائی میں یحیٰی خان کی حکومت کی بھی شدید مخالفت کی۔مختلف ادوار میں فوجی حکومت کے ساتھ ساتھ جمہوری حکومتوں نے بھی دباو
¿ کے ذریعے نوائے وقت کی آزادانہ پالیسی کو متاثر کرنے کی کوششیں کیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اقتدار کے پہلے ہی روز نہ صرف نوائے وقت کو سرکاری اشتہارات دینا بند کردیئے بلکہ اس کا کاغذی کوٹہ بھی روک دیا۔ تاہم نوائے وقت نے اس کڑے وقت میں بھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ جنرل ضیائ
الحق کے مارشل لائ
کا دور بھی مختلف نہیں تھا اور اس میں بھی نوائے وقت کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ لیکن مجید نظامی نے ہر کڑے وقت میں سچ کا علم بلند رکھا اور نوائے وقت کے ایڈیٹوریل اور دیگر پلیٹ فارمز پر بنیادی انسانی حقوق اور آزادیئ
جمہوریت کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے دور اقتدار میں بھی نوائے وقت کو کوئی رعایت نہیں دی گئی اور انکو حق گوئی سے روکنے کی ہرممکن کوشش کی گئی تاہم مجید نظامی نے اسکی بھرپور مزاحمت کی۔حکومتوں کی مخالفت اور پابندیوں کے باجود نوائے وقت آج بھی اپنی روایتی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ سابقہ آمرانہ دور میں بھی اس اخبار کےسرکاری اشتہار بند کردیئے گئے تاہم نوائے وقت کی پالیسی پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے اس دور کے حکمرانوں کو بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔جناب مجید نظامی کی زیر قیادت نوائے وقت گروپ نے شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اس ادارے کو پہلے سے بھی زیادہ قابل احترام مقام حاصل ہو چکا ہے۔ نوائےوقت نظریہ پاکستان کا سب سے بڑا محافظ سمجھا جاتا ہے اور اس نے ہر دور میں قیام پاکستان کے خلاف اٹھنے والی اٹھنے والی آوازوں کی مزمت کی ہے۔ دوسری جانب سیاسی محاذ پر بھی نوائے وقت نے اپنی حیثیت کو منوایا ہے۔ مجید نظامی کی زیر قیادت نوائے وقت ملک کا سب سے معزز اور بااثر اخبار بن چکا ہے اور عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ کے بقول " نوائے وقت عوام کو سچ بتانے اور نئی سوچ دینے کی پالیسی پر گامزن ہے "۔مجید نظامی کے جرات مندانہ خیالات کا عکس روزانہ نوائے وقت کے صفحات پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جناب مجید نظامی کی نظریاتی پالیسی کے زیر اثر ہی نوائے وقت نہ صرف ملک بھر میں بلکہ عالمی سطح پربھی قارئین کے ایک بڑے حلقے کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ مجید نظامی ملک پاکستان کے خلاف کسی قسم کی بات برداشت کرنے کے حق میں نہیں۔ یہی نہیں بلکہ افغانستان ،چیچنیا، بوسینیا ،عراق ، فلسطین اور کشمیر کے مظلوم مسلمان ہوں یا بنگلہ دیشن میں محصور پاکستانی ، مجید نظامی ہر جگہ اسلام کے نام پر ہر مشکل وقت میں ان کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کو تیار نظر آتے ہیں۔ نوائے وقت کی جانب سے کشمیری مہاجرین، بنگلہ دیشن میں محصور پاکستانیوں اور اور دو ہزار پانچ میں آنیوالے زلزلے سے متاثر ہونیوالوں کے لیے مستقل بنیادوں پر فنڈز قائم کیے گئے ہیں۔ قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا جبکہ مجید نظامی کشمیر کے بغیر پاکستان کو نامکمل سمجھتے ہیں۔اسی لیے وہ آج بھی کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ نوائے وقت کے ریلیف فنڈ سے کشمیری مہاجرین کی بھرپور مالی امداد کے علاوہ بے سہارا کشمیری لڑکیوں کے شادی کے اخراجات بھی برداشت کیے جاتے ہیں۔ جناب مجید نظامی مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں منصفانہ حل تک بھارت کے ساتھ کسی قسم کے دوستانہ تعلقات کے شدید مخالف ہیں۔ مجید نظامی دنیا کے تقریبا ہر ملک میں جا چکے ہیں تاہم حکومت کی پیشکش کے باجود انہوں نے بھارت جانے سے ہمیشہ ہی انکار کیا ہے۔ مجید نظامی کا خیال ہے کہ بھارت نے پاکستان کو کھبی بھی تسلیم نہیں کیا اس نے ہی بنگہ دیش کے بننے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے جبکہ آج بھارت پاکستان کو توڑنے اور اسے کمزور کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔مجید نظامی پاک چین دوستی کے زبردست حامی ہیں اور وہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے کئی مرتبہ چین کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ مجید نظامی چین کے بانی چئیر مین ماوزے تنگ اور وزیر اعظم چوان لائی سے ملاقات کے علاوہ ان کے ساتھ ایک ہی ٹیبل پرکھانا کھانے کا بھی اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ مجید نظامی کی ملک کے لیے خدمات کو ہمیشہ سراہا جاتا رہا ہے۔ پاکستان ہیومن رائٹس سوسائٹی نے انہیں ہیومن رائٹس ایوارڈ سے نوازا ہے۔ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے لیے آواز بلند کرنے اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے جدوجہد پر انہیں مجاہد کشمیر کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ وہ کئی دفعہ اےپی این ایس اور سی پی این ای جیسی صحافتی تنظیموں کے صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ حکومت کی جانب سے صحافتی خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارہ پاکستان، ستارہ امتیاز اور ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان امتیاز دیا گیا ہے۔سابق صدر جنرل ضیائ
الحق انہیں پارلیمنٹ کا رکن بننے ، سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو گورنر پنجاب جبکہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کی پیشکش کر چکے ہیں۔ تاہم انہوں نے ان ساری پیشکشوں کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرایاہے کہ " وہ نوائے وقت کی ادارت کے زریعے ملک کی بہتر خدمت کر سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی