مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Tuesday, July 13, 2010

غیر ملکی ہاتھ بے نقاب کیے جائیں۔

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے سوات میں عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کو پاکستان کا طالبان کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ قرار دیا جا رہا ہے۔ قبائلی علاقوں میں ملکی افواج توکافی عرصہ پہلے سے ہی موجود ہیں تاہم اس قدر شدت سے کارروائی کرنے کے عزم کا اظہار اور عملی اقدام شاید پہلی دفعہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سوات میں آپریشن کا فیصلہ صوفی محمد کے ساتھ ہونیوالے معاہدے کی ناکامی کے بعد کیا گیا اور اس دفعہ عسکریت پسندوں کے مکمل خاتمے تک کارروائی جاری رہے گی۔ صدر زرداری کے دورہ امریکہ کے دوران ہی پاکستانی فوج کے ایک بڑے آپریشن کا آغاز کافی اہمیت کا حامل ہے اور اس کی تعریف رچرڈ ہالبروک سمیت تمام اہم امریکی عہدیداروں کی جانب سے کی گئی ہے۔ سوات آپریشن شروع کر کے پاکستان نظام عدل کے بعد عالمی میڈیا اور امریکی حکام کی جانب سے کی جانیوالی تنقید سے محفوظ ہو چکا ہے اور اب باراک اوبامہ ہو یا ہلیری کلنٹن سمیت ہر غیر ملکی عہدیدار کی طرف سے پاکستان کی مدد کرنے کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں ۔ حتی کہ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کوبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوج کی قربانیاں یاد آنے لگی ہیں۔ حکومت کو نااہل اور ناکام کہنے والے باراک اوبامہ نے بھی موقف بدلنے میں دیر نہیں کی ۔ دراصل امریکی خوشنودی کا راز یہی ہے کہ ہر وہ کام کرتے رہو کہ جس کا حکم وائٹ ہاوس میں بیٹھا کوئی بھی کالی یا گوری رنگت کا شخص دے رہا ہو۔ جیسے ہی حکم عدولی ہوئی ۔امریکی آگ بگولا ہو جاتے ہیں اور میڈیا کے زور پر کسی بھی ملک کا وہ حشر کرتے ہیں کہ جس کو دیکھنے کے لیے آپ کو عراق یا افغانستان جانا ہوگا یا پھر کچھ ہی دنوں بعد سوات۔۔۔ بہادر اور محب وطن پاکستانیو کو مبارک ہو کہ وہ دن آ ہی پہنچا ہے کہ جس کا خدشہ نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کے بعد کیا گیا تھا۔ افغانستان کو ڈرٹی بموں سے راکھ بنانے اور عراق میں لاکھوں لوگوں بنانے کے بعد عالمی طاقتیں مسلم دنیا کی واحد سپر پاور پاکستان کے درپے ہیں ۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے مغربی میڈیا ان دنوں سب سے زیادہ ذکر خیر پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا ہی کر رہا ہے اور ان پر شدت پسندوں کے قبضے کے پروپیگنڈے کو ایک منظم سازش کے تحت بڑھایا جا رہا ہے۔ سوات آپریشن کی طوالت ان غیر ملکی طاقتوں کے لیے ثبوت فراہم کرے گی کہ جو پاکستان کو ایٹمی اسلحہ سے پاک کرنا چاہتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شرپسندوں کے خلاف آپریشن کو باقاعدہ جنگ کے روپ میں پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے کوئی بہت بڑی برابر کے وسائل رکھنے والیطاقت پاک فوج کے مقابل ہو جو کہ نہ صرف مقابلے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ ہرا بھی سکتی ہے۔ یہی وہ خطرنات ترین پروپیگنڈا ہے کہ جو عالمی سطح پر یہ باور کرانے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر کنڑول نہایت ضروری ہے چاہے اس کے لیے حملہ ہی کیوں نہ کر دیا جائے۔ پاک فوج کے ترجمان کے مطابق بونیر میں تین سو طالبان آئے تھے ۔۔لیکن مغربی میڈیا نے اس کو ایسے پیش کیا تھا کہ جیسے لاکھوں کا کوئی لشکر آ گیا ہو جس کے لیے اسلام آباد پر قبضہ بس چند گھنٹوں کی بات ہے۔۔یہ بات اب ثابت ہو چکی ہے کہ فضل اللہ اور بیت اللہ محسود امریکی اور انڈین ایجنٹ ہیں کہ جو پاکستان کے اندر شورش پیدا کرکے غیر ملکی ایجنڈے کو پایا تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ غیر ملکی طاقتیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے تحریک طالبان پاکستان کو استعمال کرتی ہیں اور بعد میں ان کی کارروائیوں کو جواز بنا کر ہی ” طالبان آ گئے“ کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان ہمیشہ اس ایجنڈے پر عمل کرتی ہے کہ جو اسے غیر ملکی آقاوں کی جانب سے فراہم کیا جاتا ہے۔ پاک فوج انہی کے خلاف کارروائی میں مصروف ہے اور ان کا صفایا ہی سوات کو پرامن بنا سکتا ہے۔۔ تاہم مشکل یہ ہے کہ حکومت بہتر طریقے سے تحریک طالبان پاکستان کے غیر ملکی تعلق کو واضح نہیں کر سکی جس کے باعث ملک کے اندر شدید مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملک کے دو بڑے مسالک کے درمیان اس مسئلے پر اختلافات اسی غلط فہمی کا شاخسانہ ہیں ۔ بریلوی مکتب فکر کو اعتراض ہے کہ دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے طالبان ان کی مساجد اور بزرگوں کے مزارات کی بے حرمتی کر رہے ہیں ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امام بارگاہوں اور بریلوی مکتب فکر کے دینی مراکز پر حملوں کے پیچھے غیر ملکی طاقتیں ہیں جن کی کوشش ہے کہ سوات میں لگی آگ کو کراچی اور لاہور کی گلیوں میں بھی پہچایا جائے۔ اے این پی نے امن کی خاطر ہی صوفی محمد سے معاہدہ کیا جسے صوفی محمد کے غیر محتاط بیانات اور تحریک طالبان کی سرگرمیوں نے بے اثر کر دیا جبکہ ایم کیو ایم ایک وہم کی بنا پر اس سے ناراض نظر آتی ہے ۔ فضل اللہ اور صوفی محمد کے بیانات کو کسی بڑے دینی طبقے سے منسلک کرکے ملک کے اندر انتشار کی صورتحال پیدا کرنا ہرگز ٹھیک نہیں ۔ کیونکہ اس کا ڈائریکٹ فائدہ ملک دشمن طاقتوں کو پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب پندرہ لاکھ کے قریبی سواتی عوام بے گھر ہو چکے ہیں حکومت کو چاہیے کہ تحریک طالبان کے کردار کو سامنے لائے ۔ اس کے غیر ملکی تعلقات کو واضح کرے اور ان غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کرے کہ جو تحریک طالبان کی کارروائیوں کے باعث ملک بھر میں پیدا ہو رہی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ تحریک طالبان کے پیچھے کاررفرما ان بھارتی اور امریکی اداروں کو بے نقاب کرے کہ جو ہمارے ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں ۔۔ ہم پاکستانیوں کو اب آپس کی لڑائیاں شروع کرنے کی بجائے مشترکہ دشمنوں سے مقابلے کی تیاری کرنا ہو گی۔ کئی سال پہلے بعض لوگ کہتے تھے کہ افغانستان بہانہ ہے جبکہ پاکستان عجیب لگتا تھا لیکن اب یہ حقیقت ہمارے گھروں تک پہنچ چکی ہے۔ تحریک طالبان ہو یا کوئی بھی اور عسکریت پسند گروہ ۔۔سب کا کنڑول سرحد پار موجود انہی ہاتھوں میں ہے کہ جو ایٹمی پاکستان کو سزا دینا چاہتے ہیں ۔ کسی غیر کے چھوڑے ہوئے شوشے اور کسی ایجنٹ کی کارروائی پر ملک کے اندر آگ لگانا اچھی بات نہیں ۔ جس دن ہم غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنیوالوں کو پہچان گئے وہی دن امن و سلامتی کا ہو گا۔ اور حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ غیر سنجیدگی کا تاثر ختم کرتے ہوئے پاکستانی سوچ اپنائے اور معاملات کو سمجھداری سے نبھائے۔ مہاجرین کو زیادہ عرصہ کیمپوں میں رہنے دینا اور آپریشن کی طوالت انتہائی خطرناک صورت اختیار کر سکتی ہے کیونکہ اس سے معاشرتی مسائل پیدا ہونے کے علاوہ بیرونی میڈیا کو عسکریت پسندوں کے طاقتور ہونے کا پروپیگنڈا کرنے کا موقعہ ملے گا۔۔ یہ وقت دعا ہے اور پوری قوم پر فرض ہے کہ اپنی اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے تیاری کرے ۔ہمیں غیر ملکی طاقتوں کو شکست دینا ہے اور یہی پاکستانیوں کی اصل فتح ہو گی۔

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی