مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Tuesday, July 13, 2010

بیرونی الزامات اور حافظ سعید

سابق امریکی صدر بش نے نائن الیون کے بعد شروع کی جانیوالی جنگ کو کروسیڈ قرار دیا تھا۔ بہت سے مسلمان شاید اس جملے کو بھول چکے ہوں لیکن امریکیوں نے اپنے اقدامات سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس جنگ کا صرف اور صرف مقصد اسلام کو نشانہ بنانا تھا۔ ایک بڑی عسکری اور سائنسی قوت ہونے کے ناطے امریکہ کے پاس وسائل کی کمی نہ تھی اور طاقت کے نشے میں دھت سامراج نے اس کا بھرپور استعمال بھی کیا۔ جنگ کے آغاز پر اس کا مقصد القاعدہ اور طالبان کے شرپسند عناصر کا خاتمہ بتایا گیا تھا اور آج جب اس معرکے کو شروع ہوئے نو سال بیت چکے ہیں تو واضح ہوتا جا رہا ہے کہ اس کی آڑ میں کہاں کہاں وار کیے گئے ۔ دنیا بھر میں معصوم مسلمانوں کا خون ہوا ، اسلامی تنظیمیں دہشت گرد قرار دی گئی ، علماءتنقید کا نشانہ بنے ، گوانتانا موبے اور ابو غریب جیلیں سجائی گئیں ، کتنے ہی ممالک میں نام نہاد روش خیالی مسلط کرنے کی کوششیں ہوئیں ۔ اسلامی قوانین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر بدلا گیا ۔ معاشرت اور سماج کے ہر ہر شعبے میں موجود اسلامی روایات کے خاتمے پر توجہ دی گئی ۔ اس کی آڑ میں ہی پاکستان ، افغانستان اور عراق جیسے اسلامی ممالک کو غیر مستحکم کرنے اور یہاں کے لاکھوں شہریوں کا خون بہانے کا سلسلہ جاری ہے ، مسلمان ممالک کی معشتیں تباہ کی جا رہی ہیں ۔۔ معاشی اور سماجی اور معاشرتی نقصانات کے ساتھ ساتھ دین اسلام میں پیوند لگانے اور اسلامی جذبات اور اصول و ضوابط کو بدنام کر دینے کی مہم شاید سب سے خطرناک تھی۔ آج کی دنیا میں اسلامی طرز عمل کا نام لینا اور اسلام کے نفاذ کی بات کرنا ایک مشکل ترین بنا دیا گیا ہے فوری طور پر دہشت گردی کا لیبل لگتا ہے اور بدنام کرنے کا پروپیگنڈا شروع ہو جاتا ہے ۔ اسلامی تنظیم بنانا اور اسے کامیابی سے چلانا جبکہ دنیا میں کسی بھی جگہ مسلمانوں پر ہونیوالے ظلم کی حمایت کرنا جوئے شیر لانے سے کم مشکل نہیں رہا ۔ لیکن کچھ دیوانے ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے کفار کے طعنوں ، الزامات کی بارش ، قید و بند کی صعوبتوں ، مخالفتوں کے طوفانوں اور وسائل کی کمی کے باوجود بھی شجر اسلام کی آبیاری اور مسلمانوں کی حمایت کا فریضہ ترک نہیں کیا ۔ پاکستان کے حافظ سعید کو بھی انہیں چند بڑے ناموں میں شمار کیا جا سکتا ہے ۔ پاکستان کے اندر فرقہ واریت کی اندھیر نگریوں میں اگر کوئی خود کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہا ہے تو وہ حافظ سعید ہی ہیں ۔ حیرت انگیز طور پر وہ تمام مسالک کے ماننے والوں میں محترم سمجھے جاتے ہیں اور اس کا مظاہرہ متعدد بار ان کی سربراہی میں ہونیوالی تقریبات میں ہو چکا ہے حتی کے حکومت کی جانب سے نظر بندی پر ان کے حق میں ہندو اور عیسائی بھی احتجاج کرتے پائے گئے ہیں ۔ حافظ صاحب کی زیر قیادت جماعت رفاعی کاموں میں اپنا سکہ منوا چکی ہے کہ جس کے معترف عالمی ادارے اور اور بیرون ملک بسنے والے لوگ بھی ہیں جبکہ ملک بھر میں دینی اور عصری تعلیم کے جدید ترین مراکز اس کے علاوہ ہیں ۔ لیکن حافظ صاحب کے بارے میں جاننے کے لیے یہ صرف تصویر کا ایک رخ ہے ۔ دوسرا رخ آپ کو غیر ملکی میڈیا میں نظرآتا ہے ۔ اگر آپ عالمی سیاست سے آگاہی رکھتے ہیں اور وقتا فوقتا آپ کو بھارتی ذرائع ابلاغ سے بھی واسطہ پڑتا ہے تو وہاں جس شخصیت کا تذکرہ سب سے زیادہ نفرت سے ہوگا وہ حافظ سعید ہی ہوں گے ۔ بھارتی چینل تیز میوزک ، جنگی ماحول اور عجیب و غریب داستانیں جن سے منسوب کرتے ہیں وہ حافظ سعید ہی ہیں ۔ مغربی اور بھارتی میڈیا کا اصرار ہے کہ حافظ صاحب کو دہشت گرد تسلیم کر لیا جائے اور فوری طور پر ان کو ممبئی حملوں کے الزام میں سخت ترین سزا کا مرتکب ٹھہرا دیا جائے ۔ ان کی جماعت پر پابندی لگے جبکہ تمام رفاعی ۔ تعلیمی اور دینی مراکز بندکر دئیے جائیں۔ اس قدر پروپیگنڈہ سن کر ضرور آپ کے دل میں یہ تجسس پیدا ہو گا کہ کیوں نہ اس بندے پر نظر رکھی جائے اور خاص کر بھارتی میڈیا تو جلسوں میں ان کی تقاریر کو بھی چینلز کی ذینت بناتا رہتا ہے ۔ حافظ صاحب کی جماعت کے شعبہ نشر واشاعت کو پاکستانی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے اور اخبارات میں معمولی خبریں چھپوانے کے لیے خاصی محنت کرنا پڑتی ہوگی لیکن ہندو چینلز کے پاس حافظ صاحب کی نظر کرنے کے لیے وقت ہی وقت ہے۔ ایسے میں حافظ صاحب کے حوالے سے ایک چھوٹی سی خبر یقینا کافی لوگوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گی ۔ دنیا ان کو دہشت گرد ، خونی اور پتہ نہیں کیا کیا ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے اور وہ اپنے سب سے بڑی مرکز میں جانی دشمنوں کے درمیان صلح کرانے کی سنت بنوی ﷺ ادا کرتے پائے جاتے ہیں۔۔ کتنا حیران کن ہے کہ ایک شخص جو کہ دہشت گرد ہے ، اس کو قاتل کہا جاتا ہے ، لوگوں کا دعوی ہے کہ وہ خون بہانے کی ترغیب دیتا ہے ۔۔لیکن یہی شخص پنجاب کے علاقے پتوکی کے ایک گاوں کے لوگوںکو مرکز القادسیہ بلاتا ہے اور انہیں اسلامی شرعی ثالثی عدالت میں اس بات پر مجبور کر دیتا ہے کہ مخالفتوںکو بھول جاو اور مل جل کر رہنا شروع کردو۔ایک گروپ پر سات لاکھ جرمانہ عائد ہوتا ہے تو وہ بھی بخوشی ادا کر دیتا ہے ۔ پرتشدد واقعات ، جانی دشمنیوں اور قتل و غارت سے سلگتے پاکستان میں اس کردار کی انتہائی ضرورت ہے۔ ممبئی حملوں کی سالگرہ کے موقعے پر انہوں نے اسلام کے نام پر تشدد پر آمادہ گروپوں کے ساتھ بات چیت میں مدد دینے کا بھی اعلان کیا تھا۔ حکومت نے شاید اس مخلصانہ مشورے پر زیادہ توجہ نہیں دی ورنہ ملک میں خودکش دھماکوں اور پرتشدد واقعات کو روکنے کی ایک کوشش میں کوئی حرج نہیں تھا اور اس کی کامیابی کی امید بھی کافی زیادہ تھی ۔ کتنا ہی اچھا ہو کہ اگر دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر دشمنیاں اور دیرینہ جھگڑے ختم کرانے کے لیے جدوجہد کریں ۔ ملک کو پرامن اور اسلامی اخوت کا نمونہ بنایا جا سکے ۔ کچھ روز ہوئے گجرات میں ایک خاندانی دشمنی نے ایک ہی وقت میں پندرہ افراد کی جان لے لی ۔ ہماری عدالتیں روز دیہات اور شہروں کی دشمنیوں کے ہزاروں مقدمات سنتی ہیں ۔ روز ہی ملک بھر میں درجنوں افراد نفرت اور دشمنی کی بھینٹ چڑھا دئیے جاتے ہیں ۔ یہ صورتحال یقینا تشویشناک اور پریشان کن ہے ۔۔ ایسے میں اگر کسی نے صلح کے دئیے جلانے کی ایک کوشش کی ہے تو ضرور اس کی تعریف کی جانی چاہیے ۔قتل و غارت سے سلگتے کراچی ، خون ریزی کا مرکز بن جانے والے پشاور اور بے گناہوں کے مقتل قبائلی علاقوں میں ایسی ہی کوششوں کی ضرورت ہے۔ سب مذہبی و سیاسی جماعتوں سے التماس ہے کہ ملک کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے وہ بھی ایسا ہی کوئی معرکہ سرانجام دینے کی کوشش کریں جبکہ حافظ صاحب سے درخواست ہے کہ رفاعی ، تعلیمی ، دینی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اس قسم کی دہشت گردیاں بھی جاری رکھیں۔

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی