مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Tuesday, July 13, 2010

ڈاکٹر من موہن کی پریشانی اور جہاد ہند

” اگر امریکہ نے افغانستان سے جلد انخلاءکا فیصلہ کیا تو طالبان سپر پاور بن جائیں گے “ ۔
ٹھیک یہی الفاظ ہیں اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والے ، کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے والے اور امریکہ کی آشیر باد سے چین کے مقابلے کی طاقت بننے کے خواہشمند ملک کے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے۔۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ امریکہ کے پہلے سرکاری دورے پر اوبامہ کے دیس پہنچے ہیں ۔ شکل سے انتہائی معصوم نظر آنیوالے ڈاکٹر صاحب کے افغان ایشوز پر تند و تیز بیانات کو دیکھتے ہوئے ایسے لگتا ہے کہ جیسے وہ واشنگٹن بھارت کا نہیں بلکہ افغانستان کا مقدمہ لڑنے گئے ہوں ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ اور افغانستان میں امریکی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ کبھی ایسا لمحہ بھی آئے گا کہ جب امریکہ اس جہنم سے نکلنے کے لیے پر تولے گا اور ہندوستان کو اس کے اثرات برداشت کرنا پڑیں گے ۔ بھارت نے شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے کتنے ہی پتھر پھینکے ہیں ۔ پاکستانی سرحد کے ساتھ بھارتی قونصل خانے ہوں یا نام نہاد ترقیاتی کاموں کے نام پر کرزئی حکومت میں اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششیں ۔۔بھارت نے پاکستان کی اس مغربی سرحد کو خوب استعمال کیا ہے۔ سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ اور بھارتی اداروں میں تعلیم حاصل کرنیوالے کرزئی نے بھی ہر موقعے پر ہندو مفادات کا خوب تحفظ کیا ہے ۔ پاکستان کے اندر دہشت گرد تنظیموں کی مدد اور خفیہ ایجنسی را ءکے تربیت یافتہ شرپسندوں کے ذریعے ارض پاک کو کئی خونین کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ بھارت اپنے سفارت کاروں اور دیگر شہریوں کی حفاظت کے لیے ساڑھے سات ہزارفوجی بھی افغانستان لایا ہے ۔ بھارت ممبئی دھماکوں کے بعد دنیا بھر میں اپنی سٹرٹیجک اہمیت بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ ساری دنیا پاکستان کے عسکری گروپوں ، کشمیر میں جاری تحریک آزادی اور طالبان کے ڈراوے کے بارے میں اس کے لیکچر بھی سنے ۔ افغانستان کی جنگ میں شرکت کے بعد بھارت یورپ اور امریکہ کا اہم اتحادی بننا چاہتا ہے جبکہ دہشت گردی کے نام پر امداد لیکر چین کو قابو کرنے کی تمنا بھی دل میں ضرور پھوت رہی ہوگی ۔ بھارت افغانستان میں اثرو رسوخ بڑھا کر ایک طرف پاکستان کو کمزور جبکہ دوسری جانب امریکہ کو بچا کر چین کو سپر پاور بننے سے روکنا چاہتا ہے۔ لیکن یہ ساری امیدیں چکنا چور ہوتی دیکھ کر اب ڈاکٹر من موہن سنگھ کافی تکلیف میں دیکھائی دیتے ہیں ۔ وہ اس بار لشکر طیبہ اور کشمیر کی عسکریت پسندی کی بجائے طالبان خطرے سے ڈرانے واشنگٹن پہنچے ہیں ۔ادھر امریکی ارباب اختیار میں صورتحال یہ ہے کہ امریکی کمانڈر سٹینلے میکرسٹل چالیس ہزار فوجی مزید مانگ رہے ہیں جبکہ اوبامہ انتظامیہ ابھی تک حتمی فیصلہ کرنے میں ناکام ہے ۔ افغانستان سے انخلاءکی بات برطانوی وزیر اعظم گورڈن براو ¿ن واضح طور پر کر چکے ہیں ، یورپ کے اکثر ممالک نے بھی اس جنگ کو بے فائدہ قرار دیا ہے جبکہ اوبامہ کی زبان پر بھی ”افغانستان میں ہمیشہ قیام نہیںکرنا چاہتے “ جیسے جملے آنا شروع ہو گئے ہیں۔بھارت کی پریشانی یہ ہے کہ اس کے لیے اب امریکی چھتری ہٹنے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔ افغانستان میں امریکی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے چین نے بھی ہلچل دیکھائی ہے اور بھارت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا آغاز کر دیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم اور کروڑوں بھارتی مسلمانوں کو ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور کر دینے والے برہمن راج کے لیے افغانستان سے امریکی انخلاءکا تصور ایک خوفناک خواب بنتا جا رہا ہے۔ کسی کو اس بارے میں غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ افغانستان سے پہلے امریکی فوجی کے رخصت ہوتے ہی نئی دہلی کے در و دیوار اسلامی جہادی تنظیموں کی آہٹ سے لرزنے لگیں گے ۔ سپر پاور امریکہ کو کسی بڑی طاقت کی مدد کے بغیر اور محض اللہ کی نصرت اور اسلامی جذبے سے ہرانے والے طالبان سے بہت سے لوگ سبق حاصل کریں گے ۔۔ وہ ریاست گجرات میں زندہ جلائے گئے مسلمانوں کے بچے کھچے وارث ہوں یا سینکڑوں جعلی پولیس مقابلوں میں مرنیوالے مسلم نوجوانوں کے کچھ دوست، انڈین مجاہدین کے ہزاروں کارکنوں میں سے ہوں یا سیمی کے کچھ جوشیلے جوان ۔۔۔کوئی تو طالبان سے ظالموں اور غاصبوں کو شکنجہ توڑنے کا ہنر سیکھنے ضرور پہنچے گا۔۔ اور یہی وہ صورتحال ہے کہ جس ڈر سے بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ واشنگٹن کے سرد ترین موسم میں بھی افغان جنگ کی آگ کا تذکرہ کرتے پائے جاتے ہیں ۔ امریکہ سے التجاءہے کہ ساتھ چھوڑ کر نہ جائے ۔۔ لیکن امریکہ کے ساتھ محض چند سالہ تعلق کا ہنی مون منانے والے بھارتی پالیسی سازوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وائٹ ہاوس صرف امریکی مفادات کا تحفظ کرتا ہے ۔
اوبامہ اتنے طاقتور نہیں کہ وہ سردار کی خواہش پر اپنے فوجی مروانے کا حکم دے سکیں۔ امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی باتیں اب کوئی راز نہیں رہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بھارت اب لڑائی کے لیے اپنی فوج بھیجنے کا اعلان کر دے۔۔ اسے بھارت کی بدقسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس طرح بھارتی حکومت کچھ دور منڈلاتے خطرے کو خود اپنی کوشش سے قریب لانے کی ذمہ دار قرار دی جائی گی۔ جن سخت جان طالبان کی سرکوبی انتہائی جدید ہتھیاروں سے لیس اور انتہائی تربیت یافتہ مغربی افواج نہیں کر سکیں ان کے سامنے رام رام کرتی ہندو فوج شاید کچھ عرصہ بھی نہ ٹھہر سکے۔۔ اور جہاں تک طالبان اور افغانستان میں لڑنے والے دیگر گروہوں کا تعلق ہے وہ تو ضرور بھارتی افواج کی آمد پر خوشی کا اظہار کریں گے ۔۔کیونکہ طالبان کی صفوں میں بہت سے مفتی اور علماءبھی پائے جاتے ہیں اور ”جہاد ہند“ سے متعلق احادیث ان میں سے کسی نہ کسی نے ضرور پڑھی ہوں گی۔۔۔

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی