موجودہ ترقی یافتہ دور میں توانائی کا شعبہ کسی بھی ملک کی معیشت میں اہم ترین حیثیت رکھتا ہے ۔ بجلی صنعتی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے اور اگر اسے تمام تر معاشی سرگرمیوں کے لیے آکسیجن قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ جس طرح آکسیجن کے دم سے ہی انسانوں کی سانس کا رشتہ قائم ہے بلکل اسی طرح صنعت و حرفت ۔ زراعت سمیت معیشت کے ہر شعبے کے لیے بجلی بھی لازمی جزو کی حیثیت رکھتی ہے ۔ دنیا بھر میں توانائی کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کئی کئی سال پہلے ہی کر لی جاتی ہے اور ہر ملک اپنے بہتر مستقبل کے لیے بجلی کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بناتا ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں حکمرانوں کی نااہلی کے باعث اس جانب توجہ ہی نہیں دی جا سکی ۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران جب چین اور بھارت اپنے ہاں بجلی کی فراہمی کے بڑے بڑے منصوبے بنانے میں مصروف رہے تو اسی دوران ہمارے ارباب اقتدار خواب غفلت کے مزے لوٹتے رہے ہیں ۔ بجلی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کا ادراک ہی نہیں کیا گیا جس کے باعث آج صورتحال یہ ہے کہ ملک میں بیس بیس گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ معاشی ترقی تو ایک طرف ہمارے پاس صنعتیں چلانے کے لیے بھی بجلی نہیں رہی ۔ کراچی ، فیصل آباد ، لاہور سمیت بڑے صنعتی مراکز میں لاکھوں کی تعداد میں کاررخانے بند ہو چکے ہیں ۔ جو صنعتی یونٹ اپنے جنریٹرز سے بجلی بنا کر چل رہے ہیں ان کی پیداواری لاگت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ بچت کے لیے ملازمین کو نکال رہے ہیں ۔ عوام کو ان دنوں دہرے عذاب کا سامنا ہے ۔ ایک طرف کاروبار اور صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی بڑھتی ہوی
¿ی قیمتو ں کے باعث مہنگائی نے جینا دوبھر کر رکھا ہے ۔
پرویز مشرف کی آمریت کو ختم ہوئے دو سال ہو چکے ہیں اور اب حکومت بظاہر عوامی نمای
¿ندوں کے ہاتھوں میں ہے ۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ حکمرانوں نے اپنی نااہلی کے باعث ملک کو غیر ملکی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کی تجربہ گاہ بنا رکھا ہے ۔ وزیر پانی و بجلی آئے روز لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ حکومت نے ابھی تک کوئی بھی قابل ذکر منصوبہ شروع نہیں کیا ۔ رینٹل پاور سٹیشن کے نام پر ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جا چکا ہے اور بجلی کا ایک بھی یونٹ پیدا کئے بغیر یہ رقم کمیشن ایجنٹوں اور بعض حکومتی نمای
¿ندوں کے اکاو
¿نٹس میں منتقل ہو چکی ہے ۔ قازقستان ، ایران ، چین اور ترکی پاکستان کو فوری طور پر ہزاروں میگاواٹ بجلی دینے پر تیار ہیں لیکن غیر ملکی طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے ان پیشکشوں کو قبول نہیں کیا جارہا ۔ ظاہر ہے کہ اگر سستی بجلی آنے لگی تو ان حلقوں کا کیا بنے گا کہ جنہوں نے رینٹل پاور سٹیشنز کے نام پر اربوں کمائے ہیں ۔ پوری دنیا کے ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان سورج کی روشنی کو استعمال میں لا کر بجلی بحران دنوں میں ختم کر سکتا ہے لیکن حکومت عوام کو یہ سہولت دینے پر تیار نظر نہیں ۔ پاکستان میں موجود کوئلے کے بے پناہ ذخای
¿ر کی جانب آج تک توجہ ہی نہیں دی گئی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں موجود کوئلے اور تیل کی مالیت سعودی عرب کے مجموعی پیٹرولیم ذخائر سے تین گنا زیادہ ہے ۔ کالاباغ ڈیم کو گالی قرار دے دیا گیا ہے ۔ بھارت کی جانب سے پانی کی بندش کے باعث ملک میں موجود ہائیڈرو پاور کے بڑے پلانٹس بیکار ہوتے جا رہے ہیں
No comments:
Post a Comment