مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Tuesday, July 13, 2010

ترکی کے پانچ پیغامات۔ اور بدلتا ہوا عالمی منظر نامہ

ترکی خلافت عثمانیہ کا مرکز رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی اسے ایک اہم اسلامی ملک کی حیثیت حاصل ہے ۔ ایک عالمی سازش کے تحت خلافت عثمانیہ کے خاتمے پر ترکی بھی اسلامی روایات کے حوالے سے اپنی حیثیت کھو بیٹھا تھا۔ کمال اتاترک نے اپنی قوم کو ترکی کی منازل تک پہنچانے کے لیے سیکولر ازم کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا اور اس طرح ترکی اسلامی اقدار سے دور ہوتا چلا گیا۔ ترکی کی فوج ملک کی سیکولر پہچان کی نگہبان سمجھی جاتی ہے اور اس نے ملک میں اسلامی طرز زندگی کو بدلنے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ لیکن حالیہ سالوں میں سیکولر ترکی نے ایک نئی انگڑائی لینی شروع کی ہے اور اب یورپی یونین میں شرکت کے لیے بھیک مانگتا ترکی ایک نئے روپ میں نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم طیب اردگان اور صدر عبداللہ گل کی اسلام پسند پارٹی ترکی کی سیاست پر حاوی نظر آتی ہے ۔ فوج کی جانب سے تشویش کے باوجود عوام میں اسلامی تشخص مقبولیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ترکی نے کئی سال تک یورپی یونین میں شرکت کے لیے مغربی اقوام کی شرائط پوری کرنے پر زور دیا لیکن تمام تر اقدامات کے باوجود اسے یورپی اتحاد کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے۔ ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت نہ ملنے پر ایک نئے حکمت عملی پر کام شروع کر دیا ہے ۔ اسلام کا یہ سابق گڑھ اپنا جھکاو ¿ اب اسلامی ممالک کی جانب بڑھا رہا ہے۔ ترکی کو اسرائیل اور امریکہ کا بہترین حمایتی سمجھا جاتا رہا ہے لیکن اس کا وزیر اعظم طیب اردگان پاکستان سے دورہ مکمل کرکے ایران پہنچا ہے جو کہ مغربی دنیا کے لیے ایک پیغام ہے۔ اس وقت ترکی اسرائیل کی مخالفت میں کسی بھی اسلامی ملک سے زیادہ سرگرم نظر آتا ہے۔ ترک صدر عبداللہ گل نے سوی ¿ٹزرلینڈ میں انٹرنیشنل کانفرنس کے دوران غزہ میں اسرائیلی قتل عام کے خلاف آواز بلند کی۔ جب اسرائیلی صدر ایہود اولمرٹ کی بات کا جواب دینے کے لیے ترک صدر کو مناسب وقت نہ دیا گیا تو انہوں نے اجلاس سے احتجاجا بائیکاٹ کر دیا تھا۔بعض حلقے اسے ترک صدر کا جذباتی فیصلہ قرار دے رہے تھے تاہم یہ بات غلط ثابت ہوئی اور ترکی نے مسلسل اسرائیل کی پرزور مخالفت کرکے غزہ پر حملوں کے مسئلے پر آواز بلند کی ہے۔ ترکی نے چند روز قبل اپنے ہاں ہونیوالی فوجی مشقوں سے بھی اسرائیل کو بے دخل کر دیا تھا۔ ترک وزیر اعظم نے واضح طور پر اعلان کیا کہ یہ اقدام غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے جواب میں کیا گیا ہے ۔ اس معاملے پر امریکہ اور کئی دوسرے مغربی ممالک کی جانب سے تشویش کا اظہار بھی کیا گیا تاہم ترکی نے ان سب اعتراضات کو مسترد کر دیا تھا۔ ترکی نے امریکہ ، اٹلی اور اسرائیل کی شراکت سے ہونیوالی فوجی مشقیں منسوخ کرتے ہوئے اب شام کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے مغربی دنیا کو ترکی کا ایک اور پیغام موصول ہوا ہے ۔ ادھر ترکی کے سرکاری ٹی وی کی جانب سے غزہ میں ہونیوالی بربریت کے خلاف ایک ڈرامہ تیار کیا گیا ہے جس میں اسرائیلی فوجیوں کو قتل عام کرتے اور معصوم لوگوں کو ظلم کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھایا گیا ہے ۔ اسرائیلی وزیر خارجہ اور وزیر اعظم نے اس ڈرامے کو اشتعال انگیز قرار دیا ہے تاہم ترکی نے سیپیرشن نامی اس ڈرامے کو روکنے سے انکار کر دیا ۔ اسرائیل دنیا میں کہیں بھی غزہ اور فلسطین کے مسئلے پر بننے والے ڈراموں اور فلموں پر پابندی لگواتا رہا ہے تاہم اس بار اسے ترکی کی جانب سے کورا جواب ملا ہے ۔ یہ ترکی کا مغربی ممالک اور اسرائیل کو تیسرا پیغام ہے۔ ترک وزیر اعظم نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں تمام مسائل کو مشترکہ جدوجہد سے حل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ ہیں ۔ صدر زرداری کی جانب سے انہیں نشان پاکستان دیا گیا ہے جبکہ وہ پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب کرنیوالے چوتھے عالمی رہنما ہیں ۔ ترک وزیر اعظم اس دورے میں آزاد کشمیر بھی گئے جہاں انہوں نے مسئلہ کشمیر کو جلد از جلد اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس طرح ترکی نے کشمیر اور پاکستان کے مسائل کی بات کرکے اسلام دشمن قوتوں کو چوتھا پیغام دیا ہے۔ ترک وزیر اعظم اب ایران میں ہیں ۔ تہران پہنچتے ہی انہوں نے ایران پر کسی قسم کے حملے کو پاگل پن قرار دیا ہے ۔ ترک وزیر اعظم کا ایران پہنچنا ایک بہت بڑی پیشرفت قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ ترکی اس بار عالمی سامراج کے ایجنٹ کے طور پر نہیں بلکہ اسلامی جذبات کی حامل قیادت کے تحت ہم مذہب ممالک سے تعلقات کی بہتری کی کوششوں کے لیے مصروف نظر آتا ہے۔ ترکی نے جوہری تنازعے پر ایران کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے جبکہ دونوں ممالک ایک مشترکہ ہوائی کمپنی بھی بنائیں گے۔ آپ اسے ترکی کا پانچواں پیغام قرار دے سکتے ہیں ۔ دہشت گردی کی جنگ اور عالمی اقتصادی بحران کے باعث کمزور ہوتے امریکہ اور یورپی ممالک نے ہر ملک کو نئی سوچ سے ہمکنار کیا ہے۔بہت سے ممالک اب امریکی بالادستی کو چیلنج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ شمالی کوریا نے امریکی امداد کے لیے ایڑیاں رگڑنے کی بجائے ایٹمی قوت بننے کا فیصلہ کیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک بڑے بڑے خوشگوار امدادی پیکجز لیکر اس کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں ۔ ممکن ہے ترکی نے بھی اب اسی طرح یورپی یونین میں شمولیت کی بھیک مانگنے کی بجائے اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری کا فیصلہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب عالمی منظر نامے میں اس کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے ۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے معاملے پر اس کا موقف حیران کن حد تک سخت قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ ترکی اسلام دشمنوں کو پیغام دینے کا سلسلہ جاری رکھے اور خلاف عثمانیہ کے دور میں اسلام کا یہ مرکز ایک پھر اسلامی قوت کا گڑھ بن کر ابھرے۔

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی