مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Tuesday, July 13, 2010

”مشاہیر کے خطوط“ ، ایک مفید علمی کاررنامہ

برادرم بشیر انصاری سالوں پرانے خطوط کو محفوظ رکھنے اور انہیں ایک شاندار کتاب کی صورت میں منظر عام پر لانے پر مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ ”مشاہیر کے خطوط“ کتاب جماعتی احباب کے لیے معلومات کا وسیع ذخیرہ رکھتی ہے کیونکہ اس میں نہ صرف ہمارے وقت کے نامور علمائے کرام کے محترم بشیر انصاری صاحب کے نام لکھے گئے خطوط کو جمع کیا گیا ہے بلکہ ہر شخصیت کا جامع تعارف بھی موجود ہے ۔ یہ کتاب مشاہیر کی مسلک اور جماعت سے وابستگی کا ثبوت بھی ہے کیونکہ ایک دینی رسالے کے ایڈیٹر کے نام لکھے گئے یہ خطوط ان تمام افراد کی دلچسپی اور لگن کو ظاہر کرتے ہیں ۔ محترم انصاری صاحب کی یہ کتاب مجھے ان دنوں کی یاد دلاتی ہے کہ جب آج سے تیس سال قبل انیس سو اسی میں وہ الاسلام کے ایڈیٹر بنای


¿ے گئے ۔ گوجرانوالہ کی معروف دینی درسگاہ جامعہ محمدیہ چوک اہلحدیث ( چوک نیائیں ) میں انہوں نے مرحوم شیخ الحدیث مولانا عبداللہ کی نگرانی میں کام کا آغاز کیا ۔ دینی جذبے اور انتہائی لگن سے کام کرنیوالے بشیر انصاری جلد ہی الاسلام رسالے کو ملک کے دینی حلقوں میں ممتاز مقام پر لے آئے ۔ مولوی اسلم صاحب مینیجر جبکہ راقم الحروف اسسٹنٹ مینیجر کے طور پر رسالے سے منسلک رہے ۔ مولانا عبداللہ صاحب کی زیر نگرانی کام کرنا ایک اعزاز کے ساتھ ساتھ تربیت کے حوالے سے انتہائی مفید تجربہ تھا ۔ نظم و ضبط کی پابندی اور معمولی سے معمولی غلطی کا بھی خیال رکھنا مولانا صاحب کا خاصا تھا ۔ ہم میں سے ہر ایک کو کبھی نہ کبھی ضرور ان کی ڈانٹ ڈپٹ سننے کا موقعہ ملتا رہتا ۔ بشیر صاحب کی کامیابیوں کے پیچھے ضرور اس دور میں ہونیوالی تربیت کا بھی ہاتھ ہے ۔ علامہ احسان الہی کے دور میں جماعت کے امیر رہنے والے مولانا عبداللہ صاحب کی دینی خدمات کو ہمیشہ شاندار الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔ جامعہ محمدیہ میں الاسلام کے دور میں ہی بشیر انصاری صاحب نے اہلحدیث اداروں کے تعارف اور علمائے کرام سمیت مختلف افراد کے رابطوں پر مشتمل ڈائری شائع کرنے کا آئیڈیا پیش کیا ۔ ڈائری کی اشاعت میں بھی مولوی اسلم اور راقم الحروف نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور اس طرح انیس سو بیاسی میں پہلی مرتبہ ” الاسلام “ ڈائری شائع ہوئی ۔ بعد ازاں ہم لوگ تو اس سے الگ ہو گئے لیکن بشیر صاحب کی محنت اور لگن کے باعث یہ ڈائری آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ شائع ہو رہی ہے ۔یہ ڈائری اب ملک بھر میں جماعتی اداروں کے تعارف اور ہر شہر میں افراد کے تعارف کے حوالے سے واحد بہترین ذریعہ بن چکی ہے ۔ دارالعلوم محمدیہ شیخوپورہ کی ذمہ داریوں میں مصروفیت کے باعث رابطہ بھی کم ہونے لگا لیکن یہ بشیر انصاری صاحب کا ہی کمال ہے کہ انہوں نے ہر ہر موقعے پر یاد رکھا اور اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کتاب دینے کے لیے خود شیخوپورہ تشریف لائے ۔ ”مشاہیر کے خطوط“ میں شائع ہونیوالی تحریریں محترم بشیر انصاری صاحب کی ملنساری ، علمائے کرام کے ساتھ تعلق اور ان کے وسیع حلقہ احباب کا واضح ثبوت ہیں ۔ شیخ عبدالعزیز بن باز سمیت متعدد عرب رہنماو
¿ں سے خط و کتاب یقینا ایک اعزاز کی بات ہے ۔ محترم جناب معین الدین لکھوی ، پروفیسر ساجد میر ، مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری ، ابو الاعلی مودودی ، سید بدیع الدین شاہ راشدی ، سید محبت اللہ شاہ راشدی اور سید ابوبکر غزنوی جیسی ماضی قریب اور موجودہ دور کی نامور جماعتی اور علمی شخصیات کی خط و کتابت انمول یادگار کی حیثیت رکھتی ہے۔ محترم بشیر انصاری کے نام لکھے ان خطوط کے کتابی حالت میں محفوظ ہو جانے سے آنیوالی نسلوں کو بے پناہ فائدہ پہنچے گا۔ بہتر ہوتا بشیر صاحب اپنے لکھے گئے خطوط بھی ساتھ شامل کر دیتے کیونکہ اس سے بعض احباب کے ساتھ ہونیوالی علمی بحثوں اور دیگر معاملات کو سمجھنے میں زیادہ آسانی رہتی ۔ بشیر صاحب کو مولانا عبداللہ ، علامہ احسان الہی ظہیر اور علامہ ساجد میر کی سرپرستی میں کام کرنے کا موقعہ ملا ہے، ان محترم شخصیات کی تربیت اور ذاتی صلاحیتوں کی بنیاد پر ہی وہ آج ملک بھر کے علمی حلقوں میں وہ ایک منفرد پہچان ہیں ۔ مشاہیر کے خطوط کتاب پڑھنے والے کو ماضی کے دریچوں میں لے جاتی ہے اور اس سنہری دور کی یاد دلاتی ہے کہ جب ہمارے صاحب علم افراد دینی شعورکے فروغ کے لیے سرگرم نظر آتے ہیں ۔ ان خطوط سے مختلف مشاہیر کی تڑپ بھی ظاہر ہوتی ہے کہ کس طر ح وہ دینی رسالے کے زریعے لوگوں میں مسلک کی تعلیمات عام کرنا چاہتے تھے ۔ محترم بشیر انصاری کی تیس سال سے زائد عرصے پر پھیلی ہوئی دینی خدمات کسی تعریف کی محتاج نہیں اور ارض پاکستان کے علاوہ بیرون ملک بھی مسلک اہلحدیث ماننے والے ان کے معترف ہیں ۔ آخر میں اللہ رب کریم سے دعا ہے کہ وہ مسلک اہلحدیث کی اس نامور علمی شخصیت کو مزید دین کی خدمت کرنے کا موقعہ دے ۔

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی