مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Tuesday, July 13, 2010

جذباتیت کا خاتمہ!وقت کی اہم ترین ضرورت۔

وزیر اعظم کے فیصلے کے بعد پاکستان میں ایک نئی تاریخ لکھ دی گئی ہے ۔پاکستانی تاریخ میں پہلی دفعہ محض عوامی طاقت کے بل بوتے پر سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی حکومت سے ایک دیرینہ مطالبہ منوانے میں کامیاب رہی ہے۔ سخت ترین حکومتی پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لیے نکلنے والا لانگ مارچ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ اگر لانگ مارچ اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا تو بڑے پیمانے پر تصادم کا خطرہ تھا۔ دہشت گرد حملہ بھی ہو سکتا تھا جو کہ اگلے ہی دن راولپنڈی میں ہو بھی گیا۔ کیا ایسا تو نہی کہ اس خودکش حملے کا اصل ٹارگٹ لانگ مارچ ہی تھا جو کہ ججوں کی بحالی کے اعلان کے بعد راولپنڈی نہ پہنچ سکا۔ صورتحال انتہائی کشیدہ تھی اور ہر گزرتا لمحہ تباہی کا پیغام لا رہا تھا۔ انہی حالات میں محب وطن قوتیں حرکت میں آئیں اور وزیر اعظم ، صدر کو چیف جسٹس کی بحالی پر راضی کر لیا گیا۔۔ تصادم ٹل گیا اور ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ جس پر ہر سیاسی جماعت نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ سب سے بڑھ کر جمہوری حکومت کو لاحق خطرات بھی دور ہو گئے کیونکہ مغربی میڈیا ان دنوں بار بار مارشل لاءکی رٹ لگا رہا تھا۔ وکلاءکو مبارک ہو انہوں نے دو سال کی محنت کا ثمر پایا ہے۔ نواز شریف صاحب بھی خوش ہو لیں کہ انہیں ملک میں اور غیر ملکی سطح پر مقبولیت ملی ہے۔ سول سوسائٹی بھی جشن منا لے کہ انہوں نے بھی پہلی دفعہ کامیابی کا منہ دیکھا ہے۔ وزیر اعظم کا موقف بھی درست ہے کہ انہوں نے وعدہ پورا کر دیا ہے ۔ صدر محترم بھی اپنی شہید بیوی کی خواہش پوری کر دینے پر مبارکباد کے مستحق ہیں اور تعریفیں موصول کر رہے ہیں ۔ چوہدری افتخار صاحب کو بھی اپنی ذمہ داری مبارک ہو!

لیکن یہ وقت ہم سب کے سوچنے کا بھی ہے ۔ عدلیہ کی بحالی کے نام پر چلنے والی تحریک نے ملک کے ہر شعبے کو شدید متاثر کیا ہے۔ معیشت سے لیکر معاشرت تک ہر جگہ اس تحریک کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں ۔۔ وزیر اعظم کے اعلان کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے عہدہ سنبھالنے کے بعد بظاہر اس تحریک کا خاتمہ ہو جا نا چاہیے۔ یہ وقت واقعی نازک ہے ۔کیونکہ کوئی چھوٹی سی چنگاری بھی ملک کو کسی نئے طوفان سے آشنا کر سکتی ہے ۔ سب کو تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ جذباتیت سے ہٹ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ لانگ مارچ کے دوران اور اس سے پہلے سب کچھ روند ڈالنے کا اعلان کرنے والے نواز شریف صاحب کو انداز گفتگو بدلنا ہوگا۔ گورنری کی طاقت میں مخمور جناب سلیمان تاثیر صاحب کو بھی ظرف کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بہتر ہوگا کہ صدر زرداری اعلی ظرفی کا مظاہرہ کریں اور تمام بڑی جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دیں تاکہ ملک میں اتحاد کی فضا قائم ہو۔۔ ایسا لگتا ہے کہ بعض سیاسی جماعتوں میں اس مسئلے پر غلط فہمی کا تاثر بھی پایا جاتا ہے ۔ یہ حکومت اور نوازلیگ کی ذمہ داری ہے کہ ان کو اعتماد میں لینے کی کوشش کریں۔ اس تاثر کو جلد از جلد زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ فیصلہ محض ایک سیاسی جماعت اور ایک صوبے کے دباو پر کیا گیا ہے ۔۔ کیونکہ اب ہم پاکستانیوں کو ترقی اور مستقبل کے لیے بھی کچھ سوچنا ہے ۔ہم کتنی دیر ان نان ایشوز پر لڑتے رہیں گے۔۔ افغانستان سے روس کی واپسی پر مجاہدین کے گروپ آپس میں ہی لڑ پڑے تھے اور ایسا ہی خدشہ ہے کہ کہیں ریلیوں اور احتجاج کے ماہر وکلاءکسی اور راہ پر ہی نہ نکل پڑیں ۔ انہیں چاہیے کہ جلد از جلد اپنے اپنے چیمبرز کی راہ لیں اور غریب عوام کو انصاف کی فراہمی کے عمل کا حصہ بن جائیں ۔ سب سے بڑھ کر ذمہ داری جناب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بھی ہے کہ وہ اب خود کو کس طرح غیر جانبدار ثابت کرتے ہیں ۔۔ انہیں خود کو ماضی سے الگ کرنا ہوگا۔ تلخیاں بھلا کر صرف اور صرف انصاف کے تقاضوں کو خیال کرنا ہوگا۔۔ یہ وقت جذبات سے کھیلنے کا نہیں ہے بلکہ ہوش کے ناخن لینے ہے ۔ اگر آج پاکستانی قوم نے ہوشمندی کا مظاہرہ نہ کیا تو ملک کسی بڑے بحران کا شکار ہو سکتاہے۔۔ میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے کہ کشیدگی بڑھانے والی چیزوں سے گریز کرے اور ملک میں اتفاق رائے کے فروغ کے لیے کردار ادا کرے۔ یہ کسی کی فتح یا شکست نہیں ہے بلکہ ہمیں اس نئی صورتحال کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کرنا ہو گا کیونکہ صرف اسی طرح ہم اس نئی تبدیلی کو مثبت سمت میں ایک عظیم قدم بنا سکیں گے ۔ جی جذباتیت کا خاتمہ اور تحمل کی فضا ءہی مشکلات کے شکار پاکستان کو ترقی او خوشحالی کی راہ پر چلا سکتی ہی ۔۔ آئیے اس کے لیے مل جل کر کوشش کریں

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی