مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Tuesday, July 13, 2010

ذرا سی بیداری کی ضرورت

روس افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے کردار ادا کرے: نیٹو سربراہ

امریکی میزایل نصب کرکے ایران اور روس کو ناراض نہیں کر سکتے : ترکی

بھارت نے امریکی دباو پر مقبوضہ کشمیر سے تیس ہزار فوجی واپس بلا لیے ۔

امریکی شہری کولیمین ہیڈلے کی جانب سے طالبان کے تربیت یافتہ خودکش بمباروں کے داخلے کی اطلاع پر بھارت میں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی۔

اخبار ات کا سرسری مطالعہ کرنیوالے اور ٹی وی کو محض تفریح کے لیے دیکھنے والوں کے لیے ان خبروں کی شاید زیادہ اہمیت نہ ہو لیکن عالمی حالات اور سامراجی نظام پر نظر رکھنے والے ان اطلاعات پر یہ مختصر تبصرہ کرنا ضرور پسند کریں گے۔۔ ”ہاں ہاں جی ہاں! دنیا بدل رہی ۔“ تاریخ میں کتنی بار ہی ایسا ہوا کہ مظلوم و محکوم طبقوں نے انگڑائی لی اور ظلم کے ضابطے توڑ دئیے۔ تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں مل سکتی ہیں تاہم ہمارا موضوع تازہ ترین حالات سے آگاہی ہے۔ اسلامی جذبہ جہاد سے سرشار جانبازوں نے اپنی ہمت سے روس کو مار بھگایا تھا ۔ لیکن میڈیا پروپیگنڈے ، فلموں اور من گھڑت کہانیوں کی مدد سے یہ بتایا جانے لگا کہ یہ کاررنامہ دراصل امریکی مدد سے ہی ممکن ہوا تھا۔ ساری مغربی دنیا انہی خیالات کی حامی تھی اور یوں لگتا تھا کہ افغانوں کی بہادری محض ایک افسانہ ہی تھی جبکہ امریکہ بہادر ہی در اصل فاتح تھا۔اسی غلط فہمی کی بنا پر ہی سامراجی قوتیں نائن الیون کے بہانے وسطی ایشیاء کے وسائل پر قبضے کی خواہش لیے خود افغانستان فتح کرنے پہنچ گئیں۔ کروسیڈ کا نعرہ لگانے والے صدر بش کو امید تھی کہ مفلوک الحال اور ” ڈالروں کے دیوانے “ افغانوں کو مطیع بنانا محض چند دنوں کی بات ہے۔ امریکہ کو اپنی ٹیکنالوجی پر ناز تھا جبکہ اس جنگ کے لیے وسائل کا انبار فراہم کرنے کے لیے مضبوط معیشت بھی موجود تھی۔ مقابلے پر روس سے چھینی گئی پرانی بندوقوں سے لڑنے والے طالبان تھے۔ وقت گزرتا رہا اور امریکہ کا فاتح افغانستان بن جانے کی خواہش دم توڑنے لگی ۔ اور آج آٹھ سال بعد مغرب کے لیے افغانستان کی صورتحال ایک بھیانک خواب بنتی جا رہی ہے۔ فوجی طاقت پر ناز تھا تو آج کی حقیقت یہ ہے کہ اسی فیصد افغانستان پر طالبان کی حکومت چلتی ہے۔۔ مضبوط معیشت کا غرور تھا تو آج لاکھوں امریکی ہر ہفتے روزگار سے محروم ہوتے جا رہے ہیں ۔۔ بنک ڈوب رہے تو ایک طرف ڈالر آخری ہچکولے لیتا نظر آتا ہے۔۔ سپر پاور ہونے پر فخر تھا تو آج حالت یہ ہے کہ امریکی صدر باراک اوبامہ چین کا دورہ صرف دو مطالبات کی بھیک مانگنے کے لیے کرتے ہیں ۔کرنسی کی قیمت بڑھا دو( ڈالر کو بچانے کے لیے ) اور افغانستان کے مسئلے پر مدد کرو۔ اسلامی مزامت نے امریکہ کو شدید مشکلات سے تو دوچار کیا ہی ہے لیکن حیران کن طور پر اس کے اثرات عالمی سیاست پر بھی دیکھے جا رہے ہیں ۔۔ بہت سے ملک اپنی پالیسیاں بدل رہے ہیں ، بعض دوستوں کو چھوڑا جا رہا ہے تو کئی دشمنوں کو گلے لگایا جا رہا ہے۔ افغانستان میں اتحادی ممالک کو پڑنے والی مار نے عالمی سیاست پر ان کی گرفت کمزور کر دی ہے۔پاکستان کے قبائلی علاقوں کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دینے والوں کی اپنی بستیوں سے جہاد کے نعرے بلند ہو رہے ہیں ۔ امریکی یونیورسٹیوں کے پانچ طلبہ امریکہ کے خلاف جہاد میں حصہ لینے کے لیے پاکستان پہنچے ۔ امریکی شہری کولیمین ہیڈلی بھارت میں تباہ کن کارروای
¿یوں کا ملزم قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے دھمکی بھارت بھر میں ہائی الرٹ کرا دیتی ہے۔ممبی
¿ی حملوں میں ملوث کچھ افراد کا تعلق سپین سے بیان کیا جاتا ہے۔ ان کہانیوں کی حقیقتوں کا پتہ تو شاید سالوں بعد چلے لیکن حقیقت یہی ہے کہ سامراج کے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند ہونا شروع ہو چکی ہے اور مضطرب افراد اس دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں ۔ کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ پاکستانی فوج کو وزیرستان میں ریلیف دینے کے لیے تیس ہزار بھارتی فو ج مقبوضہ کشمیر سے ہٹا لی جائے گی۔ بھارتی وزیر اعظم وائٹ ہاوس میں کشمیری جہادیوں کی بجائے طالبان کا رونا روئیں گے۔ نیٹو کے سربراہ اینڈرس فوگ راسموسن طالبان سے بچاو کے لیے مدد مانگنے روس پہنچے ہیں ۔۔جی ہاں ! اسی روس میں کہ جسے افغانوں کی مدد سے ہرانے کا دعوی کیا گیا تھا ۔ اسرائیل کے بار بار مطالبے کے باوجود امریکہ ایران کے خلاف کارروائی کا نام بھی نہیں لیتا بلکہ صدر اوبامہ جشن نو روز پر دوستی کا پیغام بھیجتا ہے۔ پچیس لاکھ سے زائد فوج رکھنے والا بھارت طالبان کے خطرے سے ڈرا ڈرا محسوس ہوتا ہے ۔امریکہ کا قومی سلامتی کا مشیر کہتا ہے کہ افغانستان میں دو لاکھ فو ج بھی بھیجی تو نشان نہیں ملے گا۔ طالبان کا نام و نشام مٹا دینے کا عزم رکھنے والا باراک اوبامہ تیس ہزار فوجی روانہ کرنے کے آخری حربے کے ساتھ ساتھ صرف ڈیڑھ سال بعد واپسی شروع کرنے کا بھی اعلان کرتا ہے۔۔ مغرب کے بڑے بڑے ایوانوں میں لمبی اکٹری گردنوں والے حکمران صبح شام سنگلاخ پہاڑوں میں کہیں گم ملاعمر سے مذاکرات کی بات کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ سب کیا ہے۔۔اسلامی نظریہ جہاد کو دبانے کی ایک کوشش۔ڈر ہے کہ اگر طالبان سے افغانستان سے ہار گئے تو تہذیب کی اس جنگ میں ہر میدان میں پر پسپائی اختیار کرنا پڑے گی۔ جی ہاں! دنیا بدل رہی ہے۔۔ سب کو پتہ ہے اور ہر کوئی اپنے حصے کا زور لگانے میں مصروف ہے ۔۔ٹیکنالوجی اور وسائل ہار جائیں تو نظریہ جیت جاتا ہے۔۔ جی ہاں اس جنگ میں وہی نظریہ جیتے گا جو دنیا کو ایک منصفانہ نظام اور امن دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔۔ کیا اسلام کے ماننے والوں کو اپنے دین کی حقانیت پر کچھ شک ہے کیا؟ انہیں تبدیلی نظر کیوں نہیں آ رہی ۔۔سب ہی بھاگے پھرتے ہیں تو اسلام کا صیح ادراک رکھنے والے صاحب علم قیادت کی ذمہ داری کیوں نہیں لیتے۔۔ عرب کے مدہوش حکمرانوں ، مشرق وسطی میں امریکی ایجنٹی کرنیوالے مصریوں اور لبنانیوں، ہند میں ظلم و ستم کی چکی میں پستے مسلمانوں اور پاکستان جیسے کئی مسلم ممالک میں اقتدار کی کشمکش میں مصروف رہنماو
¿ں کو صرف یہی کہنا ہے کہ اپنی سوچ کا دائرہ بڑھاو اور دیکھو کہ حالات نے تمہارے لیے کتنے نادر مواقع پیدا کر دئیے ہیں ۔ ذرا سی کوشش ، اتحاد کا ایک ہی مظاہرہ ، قیادت کی تھوڑی سے سمجھداری اور ایمان کی طاقت تمہیں چند ساعتوں میں ہی سپر پاور بنا سکتی ہے۔

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی