مشن

تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کی تعلیمات کا پرچار ، مغرب کے حملوں کا جواب اور دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا

M.Asim

M.Asim
me

About Me

Working as Sub Editor in Waqt News , lahore . Written more than 300 articles . more than 100 articles are published in Diffrent Pakistani Magzines and News papers.

Tuesday, July 13, 2010

چکوال میں نعلین مبارک کے ظہور کے واقعے کی حقیقت

برصغیر کے باشندے یہاں کے مخصوص رسم و رواج ، روایات اور طرز معاشرت کے باعث کافی حد تک جذباتی پائے جاتے ہیں ۔ پورے خطے میں شرح خواندگی کی کمی کے باعث ہی مخصوص مقاصد رکھنے والے بعض لوگ یہاں کے باسیوں کو من گھڑت روایات کے اسیر بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ ہندو


¿ ، سکھ اور بدھ مت مذاہب میں توہمات اور مافوق الفطرت کہانیوں کی کثرت ہے ۔ اسلام نے اس خطے میں آکر ان روایات کا خاتمے کی کوشش کی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض عناصر نے اسلام ۔ پیغبر اسلام اور مختلف اسلامی عقائد کے ساتھ لوگوں کی عقیدت کو دیکھتے ہوی
¿ے ایسی روایات اور رسومات کو پیش کرنے کی کوشش کی کہ جن کا مقصد صرف اور صرف ذاتی مفاد کا حصول اور لوگوں کو گمراہی کے راستے پر ڈالنا تھا۔ شیخ سرہندی ، شاہ ولی اللہ دہلوی اور دیگر مشا ئخ نے اپنے اپنے دور میں ایسی کوششوں کو ناکام بنایا اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ قرآن و حدیث کے علوم حاصل کرنے کی تلقین کی تاکہ کوئی بھی لوگوں کی اسلام اور حضور اکرم ﷺ سے محبت کو استعمال کرکے اپنے مزموم مقاصد حاصل نہ کر سکے ۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے جہاں مغربی تہذیب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا وہیں انہوں نے ایسی روایات کو بھی ختم کرنے کی بات کی کہ جن کا مقصد چند عناصر کے مالی و ذاتی فائدے ہوں۔ علمای
¿ے کرام اور دینی علم رکھنے والوں کی یہ کوشش جاری ہے تاہم اب بھی ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں کہ جن کا مقصد لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھار کر پیسے بٹورنا یا شہرت حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ ملک بھر میں آجکل چکوال کے گاو
¿ں دھرابی میں بارہ ربیع الاول کے دن حضور اکرم ﷺ کی آمد کا خوب چرچا کیا جا رہا ہے ۔ گاو
¿ں کے ایک درزی تنویر کا دعوی ہے کہ حضور اکرم ﷺ اس کے گھر میں تشریف لائے تھے جبکہ ان کے چھ فٹ کے قریب لمبائی میں نعلین مبارک کے نشانات ابھی تک موجود ہیں ۔ اس واقعے سے متعلق مختلف کہانیاں بھی گردش کر رہی ہیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ یہ غریب شخص تھا ۔اس نے گھر میں محفل میلاد رکھی تو کوئی بھی نہ آیا ۔ دوسری کہانی یہ ہے کہ اس شخص کی بیٹی کا اصرار تھا کہ محفل میلاد کرائی جائے لیکن اس نے غربت کے باعث انکار کر دیا۔ تیسری کہانی یہ ہے کہ اس شخص کے گھر کے اردگرد دوسرے مسالک کے لوگ رہتے تھے جو کہ اس کو مذہبی سرگرمیوں سے روکتے تھے جبکہ انہوں نے محفل میلاد کی بھی مخالفت بھی کی جس پر یہ واقعہ پیش آ گیا۔ تنویر ان سب کہانیوں کو قیاس آرائیاں قرار دیتا ہے ۔ چوتھی کہانی یہ شخص خود سناتا ہے کہ وہ گھر سے باہر تھا اور اچانک گھر داخل ہوا تو نور ہی نور تھا ۔ نعلین مبارک کا نشان تھا جبکہ روشنی اس قدر تھی کہ پورا علاقہ تین دن تک روشن رہا۔ اگر واقعے میں کچھ بھی صداقت ہے تو اس کے متعلق کہانیاں چار کیوں مشہور ہیں ۔ ظاہر ی سی بات ہے کہ یہ کہانیاں اس من گھڑت معجزے پر یقین رکھنے والوں نے ہی بنائی ہیں تو ان میں تضاد اس بات کی دلیل ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے ۔ اور جب خود تنویر عطاری ان سب کہانیوں کو من گھڑت قرار دیتا ہے تو پھر اس واقعے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ۔ مختلف کہانیوں کی طرح اس واقعے کی تفصیلات کے متعلق بھی متضاد تفصیلات موجود ہیں ۔ انٹرنیٹ پر مختلف لوگوں کی جانب سے بنائی گئی ویڈیوز میں مختلف دعوے کیے گئے ہیں ۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ نماز مغرب سے آدھا گھنٹہ پہلے ہوا۔ کوئی کہتا ہے کہ نماز مغرب سے دس منٹ پہلے ہوا جبکہ تنویر عطاری مسجد میں وضو کر رہا تھا ۔ خود تنویر کے انٹرویو میں یہ ہے کہ وہ نماز مغرب سے آدھا گھنٹہ بعد گھر پہنچا ۔ اسی طرح مختلف ویڈیوز میں نعلین مبارک قرار دی جانیوالی جگہ کی ہیئت بھی مختلف ہے ۔ وقت نیوز کے پروگرام میں ایسی دو تصاویر دیکھائی گئی ہیں جو کہ وہاں بیچی جا رہی ہیں اور دونوں ہی مختلف ہیں ۔ ملک بھر میں اس جگہ کی تصاویر اور ویڈیوز تقسیم کی گئیں اور جلد ہی ملک بھر سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ دوسری جانب عینی شاہدین ، تنویر کے رشتہ داروں اور گاو
¿ں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ چھ فٹ لمبائی کا نشان تو ضرور موجود ہے لیکن نور اور روشنی ہو جانے کا دعوی بلکل من گھڑت ہے۔ اس کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ تنویر شروع میں خود یہ تسلیم کر چکا ہے کہ یہ چھ فٹ لمبا نشان شادی کی تقریب میں دیگ بنانے کے لیے کھودے گئے گڑھے کی مٹی کے تھوڑا سا دب جانے سے بنا ۔ لیکن جیسے ہی اس نے لوگوں کی دلچسپی دیکھی تو اس کو نعلین مبارک کی شبہیہ مشہور کر دیا۔ گاو
¿ں کے متعدد افراد کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے تیسرے دن اس جگہ پر ” یا اللہ “ اور ” یا محمد “ بھی لکھا گیا جو کہ بعد میں لوگوں کے اعتراض کرنے پر مٹا دیا گیا جبکہ اس بارے میں پوچھنے پر تنویر کا موقف تھا کہ یہ غائبانہ طور پر خود ہی مٹ گیا ہے۔معروف ٹی وی چینل وقت نیوز نے اس واقعے سے متعلق ایک گھنٹے کا تحقیقاتی پروگرام نشر کیاہے ۔ جس میں گاو
¿ں کے بہت سے دوسرے گھروں میں بھی ہو بہو ایسے ہی نشانات دیکھائے گئے کہ جو دیگ بنانے کے لیے بنائے گئے گڑھے کے باعث بنے تھے ۔ علاقے کے تمام مسالک کے علماءکرام نے متفقہ طور پر اس واقعے کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے ایسا دعوی کرنیوالے شخص کو توہین رسالت کا مرتکب قرار دیا ہے کیونکہ حضور اکرم ﷺ نے ایک حدیث میں ایک پاو
¿ں پر کھڑا ہونے سے منع کیا ۔ علماءکرام کا موقف ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے قدوقامت سے متعلق تمام تفصیلات موجود ہیں اور اتنے بڑے نشان کو نعلین مبارک قرار دینا توہین رسالت ﷺ ہے۔ دوسری جانب حیران کن طور پر اس واقعے کا اب بھی خوب چرچا کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ یہاں پکی تعمیرات ہو چکی ہے ۔ سی ڈی اور تصاویر بیچنے کا کاروبار خوب چل نکلا ہے ۔ بعض افراد اسے معجزہ قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی چونکہ ہر چیز پر قادر ہے اس لیے ایسا ہونا کوئی انہونی بات نہیں ۔ تو ایسے بھائیوں سے گزارش ہے کہ سوال اللہ تعالی کی قدرت یا نبی اکرم ﷺ پر اس کی عنایات کا نہیں بلکہ سوال تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص دیگ پکانے کا گڑھا کھود کر اسے محض روپے پیسے کے لالچ میں نعلین مبارک قرار دے تو ہمارا کا ردعمل ہونا چاہیے ۔ اگر کل کسی غیر مسلم نے ہو بہو ایسا نشان بنا کر دعوی کر دیا تو پھر ہم مسلمانوں کیا موقف ہوگا۔ اس لیے تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ اسلام اور حضور اکرم ﷺ کی توہین کا باعث بننے والے اس قسم کے واقعات کی نہ صرف بھرپور مذمت کریں بلکہ دوسروں کو بھی ان عناصر کے دھوکے سے بچانے کی کوشش کریں۔ اس واقعے کی حقیقت سے متعلق تفصیل جاننے کے لیے وقت نیوز کی ویڈیو رپورٹ www.Youtube.com پر دیکھی جا سکتی ہے ۔ اس کے لیے یو ٹیوب ویب سائٹ پر جا کر waqt news exposed fake chakwal mojza

سرچ کریں جبکہ مختلف شہروں میں سی ڈی سینٹرز سے اس کی سی ڈی بھی مل سکتی ہے ۔

No comments:

Post a Comment

بات کیجئے

جو محسوس کریں اس بارے میں بات ضرور کریں ۔۔ ردعمل دیں ، تنقید کریں یا تعریف ۔۔ بات تو کریں جی